آج کی تاریخ

کوئی پستی سی پستی ہے

قسط او ل

کئی سال پرانی بات ہے تب افسران کرپشن اور ڈھٹائی کی اس ’’معراج‘‘ پر نہیں پہنچے تھے جس پر ان کی اکثریت آج فائز ہ بلکہ ڈھٹائی و سینہ زوری سے فائز ہے۔ پہلے انہیں شرم آیا کرتی تھی اور کوئی تھوڑا بہت چھپ چھپا کر لے لیا کرتے تھے مگر اب تو افسران کی اکثریت نےدوکانیں کھول رکھی ہیں۔ جنوبی پنجاب میں سردار عثمان بزدار کو زندگی بھر یہ ’’کریڈٹ‘‘ جاتا رہے گا کہ انہوں نے کرپشن ایسے ایسے محکموں میں بھی متعارف کرا دی جو پہلے بہت حد تک اس آلودگی سے پاک تھے۔ تحصیل ناظم کے ’’تجربے‘‘ سے براہ راست پاکستان کے سب سے بڑے صوبے کے وزیر اعلیٰ بننے والے سردار عثمان بزدار نے تو کرپشن میںیونیورسٹیوں کو بھی نہ بخشا اور وائس چانسلر حضرات کی تعیناتی کا ان کے دور میں واحد میرٹ بھی بولی قرار پایا۔ جو جتنی قیمت لگاتا اُسے اتنی ہی بڑی یونیورسٹی مل جاتی۔ مجھے یاد ہے کہ سردار عثمان احمد خان بزدار جب تحصیل ناظم تھے تو ان کی تحصیل کے چیف آفیسر جو کہ گجرات کے ایک جاٹ تھے۔ ملتان میں رہا کرتے تھے اور میری ان سے کسی حوالے سے تعلق داری تھی۔
جب عثمان بزدار وزیر اعلیٰ بنے تو انہوں نے دعویٰ کیا کہ بہت تابعدار بندہ ہے اور کمیشن کا پورا حصہ از خود اوپر تک دیتا ہے بلکہ تحفے اور خالص شہد الگ سے ’’جھونگے‘‘ میں دیتا ہے کیونکہ پہاڑوں پر خالص شہد وافر مقدار میں مل جاتا ہے اور افسران کی خالص شہد کمزوری ہر دور میں رہی ہے۔ جب سردار عثمان بزدار تحصیل ناظم تھے تو ان کے چیف آفیسر کبھی بھی تونسہ نہیں جاتے تھے بلکہ ملتان ہی میں گھر پر رہتے تھے۔ ہر ہفتے سردار عثمان بزدار تمام فائلیں لے کر ان کی رہائش گاہ پر آ جاتے۔ ان سے دستخط کراتے۔ مزید ہدایات لیتے اور ان کا ’’حصہ‘‘ انہیں دے کر واپس چلے جاتے۔ ایسا تابعدار تحصیل ناظم پنجاب کیا ملک بھر میں کوئی نہیں تھا اور یہی تابعداری ان کے وزارت اعلیٰ کے عہدے تک براہ راست جانے کی ایک اہم اور بڑی وجہ بنی۔
میں ایک سابق وائس چانسلر کو ذاتی طور پر جانتا ہوں جن سے بزدار دور میں جنوبی پنجاب کی ایک یونیورسٹی میں تعیناتی کے لیے 4 کروڑ مانگا گیا اور رقم بھی پائونڈز میں دینے کا مطالبہ کیا اور پھر ادائیگی کا طریقہ کار بھی بتایا گیا کہ لاہور کے کس پارک میں سیر کے دوران کار پارکنگ میں رقم کی بیگ میں ٹرانسفر ہوگی۔ سلام ہے میاں نواز شریف کو کہ انہوں نے کرپشن کو فیشن اور صنعت کا درجہ دیدیا۔ اب تو سرکاری افسران کا کوئی معیار ہی نہیں اور جیسے پاکستان میں ہر چیز غیر معیاری ہو چکی ہے سرکاری افسر نے بھی اپنا معیار کھو دیا ہے۔ کبھی سرکاری افسران کا رکھ رکھائو ہوتا تھا۔ ان کے اور عملے کے درمیان فاصلہ ہوتا تھا ۔ احترام ہوتا تھا ۔
آج صورتحال یہ ہے کہ دیہات کا ایک زمیندار ایک مقدمے کے سلسلے میں ملتان ہی کی ایک سول کورٹ کے باہر برآمدے میں انتظار میں کھڑا تھا۔ اس کے گلے میں سونے کے چین اور ہاتھ میں قیمتی گاڑی کی چابی تھی۔ اس کے حلیے کو بھانپ کر اِسی عدالت کے ہرکارے نے اس سے گپ شپ شروع کر دی اور تھوڑا سا ’’فری‘‘ ہو کےکہنے لگا۔ آپ کا اِس عدالت میں کوئی مقدمہ ہے۔ گفتگو طویل ہوتی گئی اور پھر ہرکارے نے کہا کہ آپ کسی فارم ہائوس پر ’’محفل‘‘ رکھ لیں۔ ہفتہ اور اتوار کی درمیانی رات ہو تو بہتر رہے گا زیادہ وقت ’’گپ شپ‘‘ کے لیے مل جائے گا۔ بس پھر پیشی لے لی گئی اور محفل سجائی گئی۔ دو ہی ماہ میں مذکورہ زمیندار کی خواہش کے مطابق فیصلہ آگیا اور پھر یہیں کام نہ رکا بلکہ اس نے کئی شامیں لگائیں اور کئی فیصلے لیے کہ سلسلہ چل نکلا تھا اور اعتماد بحال ہو چکا تھا۔
ملتان ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے نئے تعینات ہونے والے ڈی جی زاہد اکرام نے بھی شہر میں تین ٹاوٹ چھوڑے ہوئے ہیں جن میں سے ایک تو پراپرٹی ڈیلر ہیں اور نوید بھٹی ان کا نام ہے۔ جبکہ دوسرے پی ایچ اے کے فرقان نامی ڈرائیور اور اردلی ’’صاحب‘‘ ہیں جنہیں زاہد اکرام نے از خود اس دور میں پارکس اینڈ ہارٹیکلچر اتھارٹی میں ڈرائیور بھرتی کیا تھا جب وہ وہاں بطور سربراہ تعینات تھے۔ ڈرائیور فرقان ’’صاحب‘‘ نے کبھی بھی ڈیوٹی پر حاضری نہیں دی اور ان کی حاضری ڈی جی ایم ڈی اے کے ’’گردونواح‘‘ میں ہی ہوتی ہے ۔پی ایچ اے میں انہیں 47 ہزار تنخواہ ملتی ہے مگر ان کا رہن سہن 4 لاکھ 70 ہزار والا ہے اور یہ اضافہ تو محض ایک صفر ہی کا ہے۔ اب ایم ڈی اے میں ہر قسم کے قانونی اور غیر قانونی کاموں کے لیے معززین شہر کو اسی فرقان ’’صاحب‘‘ ہی سے رابطہ رکھنا پڑتا ہے۔
اللہ غریق رحمت کرے سابق گورنر سلمان تاثیر کے ایک دوست نے ان کے بعض اقدامات کے حوالے سے جملہ کسا کہ سلمان تاثیر کا یہ لیول ہے تو ایک دانشور نے جواب دیا۔ ان کا لیول یہی ہے البتہ انہیں عہدہ ان کے لیول سے بہت بڑا مل گیا ہے اس لیے وہ دن رات کوشش کر کے گورنری کے عہدے کو اپنے لیول پر لا رہے ہیں۔ اس جملے سے زیادہ میں ملتان ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے ڈائریکٹر جنرل زاہد اکرام بارے کچھ مزید نہیں کہنا چاہتا۔سندھ میں ایک چیف سیکرٹری تھے جو کہ سر زمین پوٹھوہار کے باسی تھے۔ غالباًآج کل ریٹائرڈ زندگی گزار رہے ہیں انہوں نے بھی اپنا فرنٹ مین ایک بالکل ان پڑھ مگر بلا کے کاری گر بندے کو رکھا ہوا تھا۔ جو جس کام کی حامی بھر لیتا تھا اور جو خرچہ بتا دیتا تھا اس سے ٹس سے مس نہیں ہوتا تھا اور پھر خرچہ لیتا تو کام بھی ہو جایا کرتا ہے۔ لگتا ہے کہ انہی کے طریقہ کار پر عمل کرتے ہوئے ڈی جی ایم ڈی اے زاہد اکرام بھی ایک دن چیف سیکرٹری کے عہدے تک تو ضرور پہنچ جائیں گے۔(جاری ہے)

شیئر کریں

:مزید خبریں