قسط دوئم
ملتان ڈویژن کے ایک ضلع میں اینٹی کرپشن کا اسسٹنٹ ڈائریکٹر محکمہ انہار کے ایک ایکسین کو رشوت لینے کے الزام میں رنگے ہاتھوں پکڑ کر اپنے دفتر لےآئے اور موقع پر ہی رقم برآمد کر لی۔ دفتر پہنچ کر اپنی کرسی پر براجمان ہوتے ہوئے مذکورہ ایکسین سے کہنے لگے۔ نیچے زمین پر بیٹھ جاؤ تم ملزم ہو تو ملزمان کو کرسی نہیں دی جاتی۔ ایکسین نے ٹھیٹھ پنجابی زبان میں ایک جملہ کہا ’’ جے لینے نے پیسے تے فیر بسکٹاں والی چاہ منگوائو تے کرسی تے بٹھاؤ،تے جے پیسے نہیں لینے تے فیر میں زمین تے بہہ جانا‘‘ محکمہ انہار کے ایکسین نے اینٹی کرپشن کے اسسٹنٹ ڈائریکٹر سے کہا کہ اگر تو تم نے پیسے لینے ہیں تو مجھے کرسی پر بٹھائیں اور چائے کے ساتھ بسکٹ بھی منگوا ئیں۔ اگر مجھے زمین پر بٹھانا ہے پھر جو مرضی کر لو ایک روپیہ نہیں ملے گا۔ اسسٹنٹ ڈائریکٹر تھوڑی دیر خاموش رہے پھر مذکورہ ایکسین کو کرسی پیش کر دی اور اردلی کو بلا کر اچھی سی چائے اور کیک رس لانے کو کہا۔ ایکسین نے فوری طور پر شلوار کی جیب سےلاکھ روپیہ نکال کر میز پر رکھ دیا کہ 20 سال پہلے یہ بڑی رقم ہوا کرتی تھی۔ قصہ مختصر اسی شام مذکورہ ایکسین اپنے ریسٹ ہاؤس میں چہل قدمی کر رہے تھے کہ باہر سے ایک آدمی موٹر سائیکل پر آیا اور کچھ رقم مزید لے کر چلا گیا۔ مذکورہ ایکسین آجکل ریٹائرڈ لائف گذار رہے ہیں وہ بڑے کھلے ڈلے آدمی ہیںاور یہ واقعہ وہ خود مزے لے کرسناتے ہیں۔
جاوید قریشی پنجاب کے سیکرٹری بلدیات اور پھر چیف سیکرٹری رہے۔ ان کے پرسنل سٹاف آفیسر قمر صدیقی مرحوم تھے انہیں سرکاری کام اور ڈرافٹنگ پر بہت عبور تھا۔ جس کی وجہ سے تمام سیکرٹری حضرات ان پر بہت اعتماد کرتے تھے۔ اس وقت چوہدری پرویز الٰہی وزیر بلدیات تھے۔ چوہدری پرویز الٰہی کی طرف سے ایک نوجوان لڑکا بھیجا گیا کہ یہ میٹرک پاس ہے اسے جونیئر کلرک رکھ لیں۔ وزیر بلدیات کا حکم تھا فوری طور پر مذکورہ نوجوان کے گریڈ 5 میں جونیئر کلرک کے آڈر ہو گئے اور وہ قمر صدیقی مرحوم کے کمرے میں ایک کونے میں براجمان ہو گیا۔ اُسے نہ ہی کوئی فائل پڑھنی آتی تھی نہ ہی وہ انگریزی کا ایک جملہ ہی لکھ سکتا تھا۔ قمر صدیقی نے چند دن بعد اُسے بلا کر کہا کہ تم ہر ماہ کی یکم کو آ کر تنخواہ لے جایا کرو اور ڈیوٹی چوہدری صاحب ہی کے ساتھ کرو۔ بس پھر چوہدری پرویز الٰہی کی پجارو گاڑی کی ڈگی کی طرف کھلنے ولے دروازے کے اندر لگی دو چھوٹی سیٹوں میں سے ایک پر مذکورہ نوجوان براجمان ہوتا ۔اور اس دور میں موبائل فون ذرا وزنی ہوتا تھا لہٰذا مذکورہ نوجوان کے ہاتھ میں چوہدری پرویز الٰہی کا موبائل اور سبز رنگ کی ڈائری ہوتی تھی اور ہم بلدیات کے بیٹ رپورٹر جب بھی چوہدری پرویز الٰہی کو فون کرتے تو وہی نوجوان فون اٹھاتا اور چوہدری صاحب سے بات کراتا کہ یہی اس کی ذمہ داری تھی۔ چند سال گزر گئے تو ایک دن جوہر ٹاؤن کے علاقے میں واقع وفاقی کالونی کی سرکاری دیوار توڑ کر ایک شخص نے گیٹ لگا کر راستہ بنا لیا اور دیوار کے پار اُس کی زمین اس گیٹ کی وجہ سے قیمتی ہو گئی۔ جس نے خبر اور تصویر اخبار میں شائع کی تو چوہدری پرویز الٰہی کے اُسی نوجوان ملازم کا ٹیلی فون آ گیا کہ میاں صاحب جانے دیں یہ گجرات کا رہنے والا ہے اور اورسیئر ہے۔ مہربانی کریں مگر ہم ’’کم فہموں ‘‘ سےمہربانی یہ ہو سکی اور وہ نوجوان مجھ سے ناراض ہو گیا کہ اب وہ اچھے خاصے پرپرزے نکال چکا تھا۔
چند سال مزید گزرے تو پتہ چلا کہ جوہر ٹائون میں برلب نہر ایک بڑے قلعہ اراضی پر کچھ لوگ قابض ہیں اور یہ کروڑروں کی نہیں اربوں کی اراضی تھی۔ تحقیق کی تو پتہ چلا کہ ان قابضین کی سرپرستی تو وہی نوجوان کر رہا ہے۔ جسے قمر صدیقی مرحوم نے گریڈ 5 میں ملازمت پر جونیئر کلرک رکھا تھا۔ مگر اب وہ نوجوان نہیں بلکہ پورا ’’بھائی لوگ‘‘ بن چکا تھا۔ اس نے ہر لحاظ سے ترقی کی جس طرح جنرل موسی خان نے ایک سپاہی سے چیف آف آرمی سٹاف کے عہدے تک ترقی پائی اور منفرد ریکارڈ بنایا۔ عین اسی طرح مذکورہ نوجوان بھی گریڈ 22 تک پہنچ چکا ہے اور اب کسی بھی دن وہ سپیشل گریڈ میں ہو گا۔ آج کل کچھ زیر عتاب ہے۔ مگر یہ عتاب جلد اس کے لیے بہت بڑا انعام ثابت ہو گا اور ابھی چیف سیکرٹری کے عہدے تک بھی مذکورہ آفیسر کو جانا ہے جسے لوگ اب محمد خان بھٹی کے نام سے جانتے ہیں اور جو سابق وزیر اعلیٰ پنجاب کے پرنسپل سیکرٹری رہ چکے ہیں۔ (جاری ہے)
