ملتان (وقائع نگار) ایمرسن یونیورسٹی میں وائس چانسلر اور رجسٹرار کی مزید بے قاعدگیوں کا انکشاف ہوا ہے۔وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر محمد رمضان نے رجسٹرار محمد فاروق سے مل کر یونیورسٹی آف سرگودھا کے وائس چانسلر کے بھانجے علی کامران کو تھرڈ ڈویژن ہونے کے باوجود شعبہ آرٹیفیشل انٹیلیجنس میں لیکچرار بھرتی کر لیا ۔علی کامران ایمرسن یونیورسٹی بھی نہ آئے، انکی آن لائن جوائننگ لی گئی بعد میں اس کی ایک سال کی چھٹی بھی منظور کر لی گئی۔ یونیورسٹی میں جو لیکچرار پروبیشن پیریڈ پر تعینات ہوتے ہیں وہ اگر پوسٹ ڈاک کرنے کے لیے جائیں گے تو انہیں اپنی ملازمت سے استعفیٰ دینا پڑتا ہے انہیں چھٹی نہیں دی جا سکتی۔ شعبہ زوالوجی کے ہیڈ آف ڈیپارٹمنٹ وقاص کی بیوی انعم نایاب جو ایمرسن یونیورسٹی میں اسسٹنٹ پروفیسر تھی انہوں نے پوسٹ ڈاک کے لیے بیرون ملک جانا تھا پوسٹ ڈاک پر جانے سے قبل اس نے وائس چانسلر جو اپنا استعفیٰ پیش کیا دوسری جانب شعبہ ایجوکیشن میں پروبیشن پیریڈ پر تعینات ٹیچر شاہد کو پوسٹ ڈاک پر جانے سے قبل ان سے استعفیٰ نہ لیا اور انہیںنہ صرف ایک سال کی چھٹی دے دی بلکہ ڈپٹی ڈائریکٹر کوالٹی انہانسمنٹ کا اضافی چارج بھی دے دیا ۔معلوم ہوا ہے کہ شاہد نے یونیورسٹی کے مختلف فورمز پر یہ کہنا شروع کر دیا تھا کہ وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر محمد رمضان کو یونیورسٹی آف سنٹرل پنجاب اور لیڈ یونیورسٹی لاہور سے ہراسمنٹ کی وجہ سے نکالا گیا تھا۔ وائس چانسلر نے شاہد کا منہ بند کرنے کے لیے ان کے پوسٹ ڈاک پر جانے کے لیے نہ صرف اس کی چھٹی منظور کر لی بلکہ انہیں ڈپٹی ڈائریکٹر کوالٹی انہانسمنٹ کا اضافی چارج بھی دے دیا ۔ڈاکٹر عدنان جو کہ انگلش کے ا یسوسی ایٹ پروفیسر ہیں اور ایچ ای ڈی کے ملازم ہیں ان کو ایچ ای سی کی ا یسوسی ایٹ پروفیسر کی میٹنگ کے لیے بھیجا گیا حالانکہ یہ میٹنگ صرف یونیورسٹی ملازمین کے لیے تھی۔اس طرح ایچ ای سی کے ساتھ بھی دھوکاکیا گیا اور ساتھ ساتھ ایمرسن یونیورسٹی سے ٹی اے ڈی اے وصول کیا ۔ اب موصوف کی کالج کیڈر میں پروفیسر کے طور پر پروموشن ہو چکی ہے اور وہ پروفیسر کے طور پر جوائن کرنا چاہتے ہیں۔جس کے لیے موصوف وائس چانسلر کو تحفے تحائف دے کر غیر قانونی این او سی حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ 18 دن کی ایچ ای سی کی ٹریننگ میں انہوں نے تقریباًساڑھے تین لاکھ روپے کے قریب ٹی اے ڈی اے وصول کیا۔ جس میں سے آدھا رجسٹرار اور وائس چانسلر کو تحفے تحائف کی صورت میں دیا گیا۔جو سرا سر غیر قانونی ہے اب سوال یہاں یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب ڈاکٹر عدنان یونیورسٹی کا ملازم ہی نہیں ہے ایچ ای ڈی کا ایسوسی ایٹ پروفیسر ہے۔تو ایچ ای سی کو دھوکا دے کر انہیںٹریننگ پر کیوں بھیجا گیا ۔ر دوسرا سوال یہ ہے کہ جب یہ پروموشن کے بعد دوبارہ ایچ ای ڈی کو جوائن کررہےہیں تو یونیورسٹی نے جو ٹی اے ڈی اے دیا اور جوایچ ای سی نے ٹریننگ کرائی اس کا ایمرسن یونیورسٹی کو کیا فائدہ ہے۔یہ وائس چانسلر کی ایڈمنسٹریشن پر سوالیہ نشان ہے کیونکہ وائس چانسلر ناتجربہ کار ہیں وہ ان چیزوں کو نہ سمجھتے ہیں اور نہ ہی ان کو کنٹرول کر سکتے ہیں۔
