ملتان(واثق رئوف) قانون، قواعدوضوابط ایک مرتبہ پھر سیاسی بوجھ تلے دب کر شکست کھا گئے۔ ریلوے قوانین فائل میں بند ہی رہ گئے۔ سیاسی دبائو نے اوور ہیڈ برج بننے کے باوجود قانون کے مطابق بند نادر آباد ریلوے پھاٹک کودوبارہ کھلوا دیا۔ یہ فیصلہ پھاٹک ٹرین آپریشن ریلوے سسٹم کے نگران اعلیٰ سے منظوری لئے بغیر اور انکی کی طرف سے جاری کردہ محفوظ ٹرین آپریشن کی رپورٹ کو یکسر نظر انداز کرکے کیاگیا جس کےبعدکسی بھی وقت ٹرین حادثہ ہونے کا امکان پیدا ہو گیا ہے۔ ریلوے ملازمین، سماجی ،سیاسی حلقوں نے فیڈرل گورنمنٹ انسپکٹر آف ریلویز اور وفاقی وزیر برائے ریلوے سےمعاملہ کانوٹس لینے کا مطالبہ کر دیا۔اعلیٰ عہدوں پر بیٹھے افسروں نے عوام کے پیسہ کے ضیاع پر آنکھیں تو بند کر ہی لیں ساتھ میں ایف جی آئی آر سے منظوری لینا بھی ضروری نہیں سمجھا گیا۔ ٹرین حادثہ کے لئے راستہ بھی کھول دیا گیا۔ دو محکموں کے افسران میں سے کسی محکمہ کےآفیسر نے بھی سیاسی طاقت کے سامنے غلط اور قواعد وضوابط کے برعکس کروائے جانے والے فیصلہ کو رد کرنے کی جرات نہ کی۔ ذرائع کے مطابق نادر آباد ریلوے پھاٹک پر ٹرینوں کی آمد ورفت کے دوران پھاٹک کی بندش سے شیر شاہ روڈ کے دونوں اطراف خطرناک ٹریفک جام کے مسئلے کو حل کرنے کے لئے اگست 2023ء میں ساڑھے تین ارب روپے کی لاگت سے پھاٹک کے خاتمہ کے لئے فلائی اوور کی تعمیر کا کام شروع ہوا تو شہریوں اور انڈسٹریل اسٹیسٹ آنے جانے والوں نے سکھ کا سانس لیا۔بتایا جاتا ہے کہ گزشتہ سال اگست میں نادر آباد فلائی اوور کو ٹریفک کے لئے کھول دیا گیاتھاجس کے بعد انڈسٹریل اسٹیٹ اور شیرشاہ روڈکی ٹریفک فلائی اوور کا استعمال کرنے لگی ۔ریلوےپھاٹک سے ٹریفک کا گزر مکمل طور پر ختم ہو گیا۔ساتھ ہی ریلوے انتظامیہ نے نہ صرف نادر آباد ریلوے پھاٹک پر لگے ہوئے جدید سگنل سسٹم (سی بی آئی) سمیت ضروری آلات کو اکھاڑ کر دوسرے اہم پھاٹکوں میں استعمال کر لیا بلکہ پھاٹک کو بند کرنے اور کھولنے کے لئے تین شفٹوں میں ڈیوٹی کرنے والے سٹاف کو بھی دیگر پھاٹکوں پر تعینات کر دیاگیاتاہم اس وقت یہ سب عارضی ثابت ہوا جب نادر آباد سے ملحقہ آبادی کے چند ووٹر گھروں کے رہائشی جن کو فلائی اوور استعمال کرنے کے لئے چند سو فٹ کا فاصلہ طے کرنا پڑتا تھا کو نوازنے کے لئے تمام تر قواعد و ضوابط کو نظر انداز کرتے ہوئے ریلوے پھاٹک کو دوبارہ سے کھول دیا گیا۔ ریلوے ذرائع کے مطابق پہلے پہل چند سو فٹ کے اس فاصلہ کو طے کرنے سے نجات حاصل کرنے کے لئے ان گھروں کے مکینوں نے اپنے طور پر ڈویژنل سپرنٹنڈنٹ آفس یہاں تک کے ریلوے ہیڈکوارٹر تک کوشش کر لی تاہم ہر طرف سے یہ کہہ کر نادرآباد پھاٹک کو کھولنے سے معذرت کرلی گئی کہ فلائی اوور کی تعمیر اور آپریشنل ہوجانے کے بعد ریلوے قواعد میں ایسی کوئی گنجائش نہیں کہ ریلوے پھاٹک کو کھول دیا جائے۔اس وقت ریلوے حکام کی طرف سے یہ موقف اختیار کیا گیا کہ اگر پھاٹک پر ریلوے اہلکار بھی موجود ہو تب بھی 100فیصدسیفٹی ممکن نہیں ہوسکتی ۔ریلوے کی تاریخ میں مینڈ ریلوے پھاٹکوں پر بھی خوفناک حادثات رونما ہوچکے ہیں جس میں قیمتی انسانی جانوں کا ضیاع بھی ہوا ہے ۔پھاٹک کو ایف جی آئی آر کی رپورٹ کی روشنی میں ہی بند کیاگیا ہے انکی منظوری کے بغیر ممکن نہیں کہ ریلوے پھاٹک کو ٹریفک کے لئے کھولا جائے کیونکہ ریلوے پھاٹک کسی صورت بھی فلائی اوور کے متبادل نہیں۔ ریلوے ذرائع کے مطابق ان چند گھروں کے مکینوں نے پھاٹک کھلوانے کی اپنی کوششوں کوعملی جامہ پہنانے کے لئے ملتان کے گیلانی خاندان کے گھر ڈیرے ڈال لئے جس کے بعد نہ صرف ریلوے کے قواعد و ضوابط پس پشت ڈال دئیے گئے بلکہ محفوظ ٹرین آپریشن کے نگران اعلیٰ کی پھاٹک کو بند کرنے، ٹرین آپریشن کے لئے غیر محفوظ ہونے کی رپورٹ کو بھی نہ صرف نظر انداز کردیا گیا بلکہ ایف جی آئی آر کو اس امر کی ہوا بھی نہیں لگنے دی گئی۔ رہی سہی کسر پنجاب ہائی ویز کےان ذمہ دار افسروں جنہوں نے کبھی بھی نہ صرف نادرآباد ریلوے پھاٹک کو ہائی ویز کی ملکیت تسلیم کیا بلکہ اس کی دیکھ بھال اور مرمت کے واجبات بھی ادا نہیں کئے تھے پوری کر دی۔ایکسین پنجاب ہائی ویز ملتان نے ہمیشہ موقف اختیار کیا کہ نادرآباد ریلوے پھاٹک انڈسٹریل اسٹیٹ بورڈ آف مینجمنٹ کی ملکیت ہے۔ ریلوے پھاٹک کی مرمت، دیکھ بھال کے واجبات کی محکمہ ریلوے کو ادائیگی کی ذمہ داری بھی بورڈ آف مینجمنٹ کی ہے۔ محکمہ ہائی ویزے کے ایس ڈی او اور ایکسین نے ممبر قومی اسمبلی موسیٰ گیلانی کی مداخلت پر ریلوے پھاٹک کی مرمت اور دیکھ بھال کی مد میں ایک سال کے واجبات کی رقم 40 لاکھ روپے محکمہ ریلوےکو پیشگی ہی ادا کر دئیے۔ بتایا جاتا ہےقبل ازیں سابق وزیر اعظم پاکستان موجودہ چیئرمین سینیٹ کے فرزند علی موسیٰ گیلانی نے چیف ایگزیکٹو و سینئر جنرل منیجر ریلوے سے ملاقات کی اور ان سے مطالبہ کیا کہ نادرآباد ریلوے پھاٹک کو فوری اور ترجیحی بنیاد پر کھولا جائےجس کے بعد تمام تر قواعد وضوابط کو نظر انداز کرکےصرف 40 لاکھ کے عوض سیفٹی رولز کو روندتے ہوئے نادرآباد ریلوے پھاٹک کو کھول دیا گیا۔ریلوے ذرائع کا کہنا ہےکہ اب جبکہ فلائی اوور کی موجودگی میں نادرآباد ریلوے پھاٹک کو ٹریفک کے لئے کھول دیا گیا ہے تو ریلوے پھاٹک سے سوائے ان دو چارگھروں کے مکینوں کے جن کو فلائی اوور تک پہنچنے کے لئے چند سو فٹ کا فاصلہ طے کرنا پڑتا تھا کسی قسم کی ٹریفک نہیں گزرتی بلکہ ان گھروں کے مکین بھی جب دیکھتے ہیں کہ ٹرین کی آمد کی وجہ سے ریلوے پھاٹک بند ہے تو پھاٹک کے کھلنے کا انتظار کئے بغیر فلائی اوور کا استعمال کرتے ہوئے ریلوے لائن کے دوسری طرف جا پہنچتے ہیں۔ ذرائع کے مطابق اگر پھاٹک کے اطراف میں کوئی اجنبی وہیکل ڈرائیور اچانک پھاٹک کی طرف آنکلا اور پھاٹک پر تعینات ریلوے اہلکار بھی کسی ممکنہ غفلت کا شکار ہو کر پھاٹک نہ بند کر سکا یا وہیکل ڈرائیور وہیکل پر کنٹرول نہ کر پایا اور ریلوے پھاٹک توڑ کر ریلوے لائن سے گزرتی ہوئی ٹرین کی زد میں آگیا تو قیمتی انسانی جانوں کے ضیائع کے خدشات کو نظرانداز نہیں کیاجاسکتا بعدازاں اس طرح کے حادثہ کی صورت میں ریلوے کے چھوٹے سٹاف اور افسران کو ہی قربانی کا بکرا بنایا جائے گا۔ ریلوے پھاٹک کھلوانے والے بری الذمہ ہوجائیں گے۔ اس سلسلہ میں سابق ایف جی آئی آر امیر محمد دائود پوتا نے’’روزنامہ قوم‘‘کی نشاندہی کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا کہ اگر ایسا ہوا ہے کہ ایف جی آئی آر کو نہ صرف آگاہ نہیں کیا گیا بلکہ ان سے منظوری بھی حاصل نہیں کی گئی تو یہ سنگین غلطی نہیں بلکہ جرم ہے اور اگر کھولے گئے ریلوے پھاٹک پر کوئی حادثہ رونما ہوجاتا ہے تو ڈی ایس ملتان اس کے براہ راست ذمہ دار ہوں گے یا پھر وہ آفیسر جنہوں نے اس بابت کوئی تحریری احکامات جاری کئے ہوں گے۔ انہوں نے کہا کہ اسطرح کے معاملہ میں تحریری احکامات بہت ہی کم جاری کئے جاتے ہیں ۔سب کچھ زبانی کلامی ہی کیا جاتا ہے۔ موجود ایف جی آئی آر چاہیں تو اس پر سوموٹو ایکشن لینے کا اختیار رکھتے ہیں مگر ریلوے کی تاریخ میں سوموٹو کی روایت موجود نہیں تاہم وہ کسی بھی شہری کی نشاندہی یا کسی ذرائع سے اس بابت ملنے والی رپورٹ پر کارروائی کرنے کا مکمل اختیار رکھتے ہیں وہ اپنے معائنہ کے دوران بھی اس غیرقانونی اقدام بارے سوال اٹھا سکتے ہیں۔ اس سلسلہ میں موجودہ ایف جی آئی آر حماد حسن مرزا سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے ریلوے پھاٹک کے کھولے جانے کے معاملہ پر حیرانگی کا اظہار کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ ان کی طرف سے پھاٹک کھولنے سے متعلق کسی قسم کی کوئی منظوری نہیں دی گئی ہے اور نہ ہی اس سے متعلق ان کے علم میں کچھ ہے۔ انہوں نے کہا کہ وہ ’’روزنامہ قوم‘‘کے شکر گزار ہیں کہ جس کے ذریعے سیفٹی کا ایک حساس معاملہ ان کے علم میں آیا وہ اس معاملہ کو دیکھیں گے۔ شہری، سیاسی حلقوں، ریلوے ملازمین اور افسران نےسیاسی مداخلت پرریلوے پھاٹک کھولنے کے فیصلہ کی شدید مذمت کرتے ہوئے وفاقی وزیر برائے ریلوے حنیف عباسی اور دیگر ذمہ داران سے نوٹس لینے اور ریلوے ٹریک کی سیفٹی پر کسی قسم کا سمجھوتہ نہ کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔
