پاکستان نے حالیہ برسوں میں معیشت کی ڈیجیٹل تبدیلی کی جانب قابلِ ذکر پیشرفت کی ہے، خصوصاً مالیاتی خدمات کا شعبہ ایک انقلابی مرحلے سے گزر رہا ہے۔ موبائل اور برانچ لیس بینکنگ نے اُن طبقات کو بھی مالی نظام سے جوڑنے میں اہم کردار ادا کیا ہے جو برسوں تک اس نظام سے مکمل طور پر باہر تھے۔ ایشیائی ترقیاتی بینک (ADB) کی ایک تازہ رپورٹ کے مطابق، یہی عنصر مالی شمولیت کی سمت میں ایک ’گیم چینجر‘ ثابت ہوا ہے۔
اس کے ساتھ ساتھ، ریاستی سطح پر بھی ڈیجیٹلائزیشن کے اقدامات میں تیزی آئی ہے۔ فیڈرل بورڈ آف ریونیو (FBR)، عدلیہ اور دیگر شعبوں میں آپریشنز کو کاغذی کاروائیوں سے پاک کرنے کے لیے عملی اقدامات کیے جا رہے ہیں، اور ڈیجیٹل نیشن پاکستان بل جیسے قانون سازی کے ذریعے حکومت ایک مربوط ڈیجیٹل طرزِ حکمرانی کی بنیاد رکھنے کی کوشش کر رہی ہے۔
تاہم، ان تمام ترقیاتی کوششوں کے باوجود ایک بنیادی اور سنجیدہ خلاء بدستور موجود ہے — ڈیٹا سیکیورٹی اور سائبر تحفظ کا فقدان۔ تیز رفتار ڈیجیٹل ترقی کے ساتھ اگر مؤثر اور مضبوط سائبر سیکیورٹی نظام موجود نہ ہو، تو یہ ترقی خود اپنے خلاف بوجھ بن جاتی ہے۔ پاکستانی ڈیجیٹل نظام اس وقت ایک ایسے خطرناک موڑ پر کھڑا ہے جہاں سائبر حملوں، ڈیٹا چوری اور مالیاتی فراڈ کے شدید خدشات موجود ہیں، اور ریاستی سطح پر اس سلسلے میں ردِعمل کی شدت اس بحران سے میل نہیں کھاتی۔
ADB کی رپورٹ میں واضح کیا گیا ہے کہ اب بھی صرف 21 فیصد پاکستانی بالغ افراد کو بینک اکاؤنٹس یا موبائل منی تک رسائی حاصل ہے۔ گویا ڈیجیٹل مالیاتی رسائی میں وسعت کی بہت زیادہ گنجائش موجود ہے۔ لیکن یہ وسعت محض ٹیکنالوجی سے نہیں آئے گی؛ اس کے لیے عوامی اعتماد، قانونی تحفظ، اور مکمل سائبر سیکیورٹی کا موجود ہونا ضروری ہے۔
پاکستان میں ڈیجیٹل معیشت کو اگر پائیدار بنیادوں پر استوار کرنا ہے، تو ڈیٹا پروٹیکشن کو مرکز میں لانا ہوگا۔ اس کے لیے ایک جامع قانون سازی درکار ہے جو نہ صرف ذاتی اور مالیاتی معلومات کے تحفظ کی ضمانت دے، بلکہ تمام ڈیجیٹل پلیٹ فارمز پر سائبر تحفظ کو لازمی قرار دے۔ اس میں ہیکنگ، فشنگ، رینسم ویئر اور ڈیجیٹل فراڈ کے خلاف مؤثر نظام اور ماہرین پر مشتمل خودمختار ریگولیٹری اتھارٹی کا قیام بھی شامل ہو۔مگر افسوسناک امر یہ ہے کہ اس حساس شعبے کی نگرانی کے لیے اب بھی زیادہ تر روایتی بیوروکریٹس کی تعیناتی کی جاتی ہے، جنہیں ڈیجیٹل سیکیورٹی یا ٹیکنالوجی سے متعلق تکنیکی معلومات کا فقدان ہوتا ہے۔ جب تک یہ کلیدی پوزیشنیں اہل اور تجربہ کار ماہرین کے سپرد نہیں کی جاتیں، کوئی بھی قانون یا پالیسی زمینی سطح پر مؤثر ثابت نہیں ہو سکتی۔
ڈیجیٹل دنیا میں سائبر تحفظ کوئی ایک بار کی سرمایہ کاری نہیں بلکہ ایک مسلسل عمل ہے، جس میں خطرات کے ساتھ ساتھ حفاظتی اقدامات بھی اپ گریڈ ہونے ضروری ہیں۔ اس کے برعکس، حکومت کی کچھ حالیہ پالیسیاں، جیسے انٹرنیٹ کی رفتار میں کمی، VPN تک رسائی کی پابندیاں اور نگرانی پر زور، نہ صرف سیکیورٹی کو نقصان پہنچاتی ہیں بلکہ شفافیت، آزادیِ اظہار اور عوامی اعتماد کو بھی مجروح کرتی ہیں۔
Kaspersky کی 2024 کی رپورٹ میں انکشاف ہوا ہے کہ 71 فیصد پاکستانی کاروباروں کو نیٹ ورک پر حملوں کا سامنا کرنا پڑا، جن میں فشنگ، رینسم ویئر اور DDoS حملے شامل ہیں۔ یہ ایک الارم ہے جسے نظرانداز کرنا پاکستان کی ڈیجیٹل معیشت کو شدید دھچکا دے سکتا ہے۔ اگر حکومت نے سیکیورٹی کے بجائے نگرانی کو ترجیح دینا جاری رکھا تو، ڈیجیٹل ترقی ایک تلوار کی دھار پر چلے گی۔
یہ امر بھی اہم ہے کہ ڈیجیٹل نظام میں عام شہریوں کا اعتماد صرف اسی وقت قائم ہو سکتا ہے جب وہ اپنی معلومات کے تحفظ پر مطمئن ہوں۔ اگر انہیں ہر آن لائن ٹرانزیکشن یا سرکاری ڈیجیٹل سروس کے استعمال پر یہ خدشہ لاحق ہو کہ ان کی معلومات چوری ہو سکتی ہیں، تو وہ اس تبدیلی کا حصہ بننے کے بجائے اس سے کنارہ کشی اختیار کریں گے۔
لہٰذا، پاکستان کے لیے اب وقت آ چکا ہے کہ وہ ڈیجیٹل ترقی کو محض “ٹیکنالوجی کا سفر” نہ سمجھے بلکہ اسے تحفظ، شفافیت اور عوامی اعتماد کا مکمل پیکیج بنائے۔ سائبر سیکیورٹی کو قانون سازی، حکمت عملی اور ادارہ جاتی ڈھانچے کا لازمی حصہ بنایا جائے۔ اگر ایسا نہ کیا گیا، تو ہم ڈیجیٹل ترقی کی رفتار تو ضرور پکڑ لیں گے، مگر منزل پر پہنچنے سے پہلے ہی نظام کی بنیادیں ہچکولے کھانے لگیں گی۔
ڈیجیٹل پاکستان کا خواب تبھی حقیقت میں بدلے گا جب اس کی بنیاد مضبوط، محفوظ اور منصفانہ ہوگی — ورنہ یہ ترقی بھی عدم تحفظ اور عدم اعتماد کے گرداب میں پھنس جائے گی۔
یقیناً، ڈیجیٹل پاکستان کا خواب ایک خوش آئند اور ناگزیر سمت کی نشان دہی کرتا ہے، مگر خوابوں کو حقیقت میں ڈھالنے کے لیے صرف وژن کافی نہیں ہوتا؛ اس کے لیے منصوبہ بندی، شفاف حکمرانی، ماہر افرادی قوت، اور سب سے بڑھ کر تحفظاتی بنیادی ڈھانچے کی موجودگی لازمی ہے۔
اگر ہم ڈیجیٹل معیشت کو صرف “ترقی” کے زاویے سے دیکھیں گے اور “تحفظ” کو پس منظر میں رکھیں گے، تو یہ پیش رفت خطرے کی آغوش میں ہو گی۔ ایسے میں معمولی سا سائبر حملہ یا ڈیٹا لیک، نہ صرف ادارہ جاتی نظاموں کو درہم برہم کر سکتا ہے بلکہ عوام کا اعتماد بھی ہمیشہ کے لیے ختم کر سکتا ہے — جسے بحال کرنا محض ایک قانون سازی سے ممکن نہیں ہوگا۔یہ بات اب واضح ہو چکی ہے کہ ڈیجیٹل نظام کی حفاظت روایتی بیوروکریسی کے بس کا کام نہیں۔ موجودہ نظام جس میں ٹیکنالوجی سے نابلد سرکاری اہلکار حساس ڈیجیٹل اداروں کی سربراہی کر رہے ہیں، وہ سائبر سیکیورٹی کو ایک رسمی فائل ورک سمجھتے ہیں، جبکہ حقیقت میں یہ ایک جنگ ہے — مسلسل جاری رہنے والی، بدلتے ہوئے ہتھیاروں اور دشمنوں کے ساتھ۔
لہٰذا، فوری طور پر ایک خودمختار ڈیجیٹل ریگولیٹری اتھارٹی کا قیام ضروری ہے، جو کسی وزارت کے ماتحت نہ ہو بلکہ پارلیمانی نگرانی کے تحت کام کرے، اور جس کی سربراہی تجربہ کار سائبر سیکیورٹی ماہرین، ڈیٹا گورننس ایکسپرٹس اور قانون دانوں پر مشتمل ہو۔ اس ادارے کو اختیار حاصل ہو کہ وہ ہر اس سرکاری و نجی ادارے کو جوابدہ بنا سکے جو ڈیجیٹل خدمات فراہم کر رہا ہے۔
ڈیٹا پروٹیکشن کے حوالے سے پاکستان میں قانونی خلاء بدستور موجود ہے۔ جو قوانین موجود ہیں، وہ یا تو پرانے ہیں، یا پھر صرف کاغذی حیثیت رکھتے ہیں۔ “ڈیجیٹل نیشن پاکستان بل” جیسے اقدامات اگرچہ سمت کے تعین میں معاون ہیں، مگر جب تک ان کے ساتھ جامع، سائنسی، اور قابلِ نفاذ ڈیٹا پرائیویسی قانون نہ ہو، یہ قوانین محض علامتی رہیں گے۔
اس قانون سازی میں درج ذیل نکات شامل ہونا ضروری ہیں:
ہر ڈیجیٹل ادارے پر لازم ہو کہ وہ ڈیٹا انکرپشن، فائر وال، اور اینٹی ہیکنگ نظام کو اپنا حصہ بنائے۔
صارفین کو یہ حق دیا جائے کہ وہ جان سکیں کہ ان کا ڈیٹا کہاں اور کیسے استعمال ہو رہا ہے۔
ڈیٹا چوری، شناختی چوری، مالیاتی فراڈ اور سائبر بلیک میلنگ کے خلاف سخت سزائیں اور فوری انصاف کے عمل کو یقینی بنایا جائے۔ڈیجیٹل سروسز فراہم کرنے والے تمام اداروں کے لیے سائبر آڈٹ لازمی قرار دیا جائے۔ڈیجیٹل منتقلی صرف ریاست یا نجی شعبے کا منصوبہ نہیں — اس میں عام عوام کی شرکت مرکزی حیثیت رکھتی ہے۔ لیکن جب حکومتی پالیسیوں سے لوگوں کو یہ تاثر ملے کہ ان کی آن لائن سرگرمیاں دیکھی جا رہی ہیں، VPN بند کیے جا رہے ہیں، اور انٹرنیٹ کی رفتار جان بوجھ کر کم کی جا رہی ہے، تو اعتماد کیسے قائم ہوگا؟اس لیے حکومت کو چاہیے کہ وہ انٹرنیٹ آزادی، پرائیویسی رائٹس اور شہریوں کی ڈیجیٹل خودمختاری کو قانونی تحفظ دے۔ یہ تحفظ صرف بنیادی انسانی حق نہیں، بلکہ ڈیجیٹل معیشت کا بنیادی ستون ہے۔ اس کے بغیر کوئی بھی فری لانسنگ ماڈل، ای-کامرس ایکو سسٹم یا ٹیکس ڈیجیٹلائزیشن کامیاب نہیں ہو سکتی۔عوامی آگاہی کی بھی سخت ضرورت ہے۔ شہریوں کو یہ سکھانا ضروری ہے کہ سائبر خطرات کیا ہوتے ہیں، ان سے بچاؤ کیسے ممکن ہے، اور کون سے حقوق انہیں بطور ڈیجیٹل شہری حاصل ہیں۔ یہ مہم میڈیا، تعلیمی اداروں، مساجد، کمیونٹی سینٹرز اور ڈیجیٹل پلیٹ فارمز کے ذریعے چلائی جا سکتی ہے۔
