آج کی تاریخ

آن لائن فراڈ

پاکستان میں آن لائن سرمایہ کاری اور ڈیجیٹل کاروبار کی دنیا جس تیزی سے وسعت اختیار کر رہی ہے، اتنی ہی تیزی سے اس میں فراڈ، دھوکہ دہی اور عوام کے اعتماد کا استحصال بھی بڑھ رہا ہے۔ حالیہ دنوں روزنامہ “قوم” ملتان نے جس بے حد اہم اور حساس مسئلے کی نشان دہی کی، وہ اس بڑھتے ہوئے رجحان کا ایک تشویشناک عکس ہے۔ مبینہ طور پر “ٹریژر این ایف ٹی” سمیت مختلف ویب سائٹس پر لاکھوں افراد نے چند دنوں کے اندر اندر اپنی زندگی بھر کی جمع پونجی — جو تخمینے کے مطابق 50 ارب روپے سے زائد رقم بنتی ہے — لگا دی۔ مگر اب ان ویب سائٹس کی سرگرمیوں میں بے ضابطگی، نوٹیفکیشنز کی غیر تصدیق شدہ موجودگی، اور صارفین کو ان کی رقم کی واپسی میں تاخیر جیسے معاملات نے انویسٹرز کو شدید ذہنی اذیت اور غیر یقینی کیفیت میں مبتلا کر دیا ہے۔
خبر کے مطابق ان ویب سائٹس میں سے ایک، ’’ٹریژر این ایف ٹی‘‘، نے اپنی سروسز بند کرنے کے اشارے دیتے ہوئے صارفین کے لیے ودڈرا (رقم نکالنے) کے عمل میں مزید تاخیر کر دی ہے، جو پہلے 96 گھنٹے میں مکمل ہوتا تھا، اب اسے بڑھا کر 168 گھنٹے کر دیا گیا ہے۔ اس اقدام نے لوگوں کے شکوک کو مزید گہرا کر دیا ہے۔ سوشل میڈیا پر گردش کرنے والا ایک مبینہ نوٹیفکیشن جو صارفین کو سروسز بند ہونے کے بارے میں اطلاع دے رہا ہے، اُس کی صداقت پر بھی سوالات اٹھ رہے ہیں، کیونکہ ویب سائٹ کی جانب سے اب تک اس نوٹیفکیشن کی تصدیق یا تردید میں کوئی باضابطہ موقف سامنے نہیں آیا۔ نتیجتاً، لاکھوں افراد کو نہ صرف اپنی رقم کے ضائع ہونے کا خطرہ لاحق ہے، بلکہ اُن کا اعتماد، معاشی مستقبل اور ذہنی سکون بھی داؤ پر لگا ہوا ہے۔
یہاں سب سے اہم سوال یہ اٹھتا ہے کہ آخر اتنے بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کا یہ غیر شفاف اور خطرناک نظام پنپنے کیسے لگا؟ اس کا سیدھا سادہ جواب یہی ہے کہ حکومت، ریگولیٹری ادارے، اور عوامی آگاہی دینے والے فورمز نے اپنی ذمہ داریاں بروقت اور مؤثر طریقے سے ادا نہیں کیں۔ ایسے مواقع پر جب سرمایہ کاری کے نام پر نت نئی ڈیجیٹل اسکیمیں متعارف کرائی جاتی ہیں، عام آدمی کو چمکدار منافع کے خواب دکھائے جاتے ہیں، تو ریاستی اداروں کی خاموشی یا غیر موجودگی ناقابل معافی ہے۔ پاکستان جیسے ملک میں جہاں تعلیم، مالی خواندگی اور ڈیجیٹل شعور کی کمی ایک حقیقت ہے، وہاں کسی بھی “این ایف ٹی”، کرپٹویاایم ایل ایم” منصوبے کا فروغ بغیر سخت نگرانی اور قواعد و ضوابط کے خطرناک ثابت ہو سکتا ہے — اور حالیہ مثال اس کی زندہ تصویر ہے۔
ٹریژر این ایف ٹی اور اس جیسی ویب سائٹس کی سرگرمیوں سے یہ واضح ہو چکا ہے کہ محض “ڈیجیٹل پلیٹ فارم” یا ایمرجنگ ٹیکنالوجی” کا لیبل لگا دینا کافی نہیں۔ جب تک ریاست ایسے پلیٹ فارمز کو رجسٹریشن، آڈٹ، اور صارفین کے تحفظ کے اصولوں کے تحت نہیں لاتی، تب تک ایسے دھوکہ دہی کے واقعات رک نہیں سکتے۔ روزنامہ “قوم” جیسے ادارے جب بروقت ایسی دھوکہ دہی کی نشاندہی کرتے ہیں اور عوام کو آگاہی دیتے ہیں، تو اس کا مقصد محض خبر دینا نہیں بلکہ ایک اجتماعی شعور پیدا کرنا ہوتا ہے۔ بدقسمتی سے، ہمارے ہاں ایسے صحافتی فریضے کو اکثر سنجیدگی سے نہیں لیا جاتا، نہ ہی پالیسی سازوں کی طرف سے بروقت ردعمل آتا ہے۔
یہ المیہ بھی کسی سے ڈھکا چھپا نہیں کہ پاکستانی عوام، جو پہلے ہی مہنگائی، بیروزگاری، اور معیشت کی سست روی سے نالاں ہیں، ایسے مواقع پر تیزی سے پیسہ بنانے کی امید میں ایسے پلیٹ فارمز کا شکار بن جاتے ہیں جو نہ صرف جھوٹے وعدے کرتے ہیں بلکہ ان کے مالی مستقبل کو مکمل طور پر تباہ کر دیتے ہیں۔ اس سلسلے میں ریاستی غفلت، قانونی خلا، اور عوام کی کم علمی سب مل کر ایسے منفی نظام کو فروغ دینے کا باعث بن رہے ہیں۔ یہ بات ناقابل فہم ہے کہ اتنی بڑی مالی سرگرمی بغیر کسی حکومتی ادارے کی نظروں میں آئے کیسے جاری رہی؟ ایف آئی اے، ایس ای سی پی، اسٹیٹ بینک، یا پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی جیسے ادارے کیا کر رہے تھے جب یہ اربوں روپے عوام سے سمیٹے جا رہے تھے؟ کیا ان اداروں کا کام صرف بعد ازاں “تحقیقات” کا اعلان کرنا ہے یا وقت پر مداخلت کرنا بھی اُن کی ذمہ داری ہے؟
ڈیجیٹل دور میں عوامی تحفظ کی ذمہ داری صرف حکومت پر نہیں بلکہ خود سوسائٹی، میڈیا، اور انٹرنیٹ صارفین پر بھی عائد ہوتی ہے۔ لیکن جب ریاست خود “فراڈ الرٹس” جاری نہ کرے، ایسے پلیٹ فارمز کی تصدیق یا تردید نہ کرے، اور ریگولیٹری میکانزم کمزور یا غیر فعال ہو، تو عام شہری کس پر اعتماد کرے؟ نوٹیفکیشنز کا اصلی یا جعلی ہونا اتنا بڑا سوال اس لیے بن جاتا ہے کہ ہمیں سرکاری سطح پر فوری اور واضح ردعمل دیکھنے کو نہیں ملتا۔ نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ چند دنوں میں ہی لاکھوں صارفین اپنی محنت کی کمائی سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں، اور ویب سائٹس غائب ہو جاتی ہیں یا خاموشی اختیار کر لیتی ہیں۔
یہ صرف مالی نقصان کا معاملہ نہیں — یہ اعتماد، قانون، اور ریاستی نظام پر ایک حملہ ہے۔ ایسی دھوکہ دہی صرف ایک فرد یا خاندان کو متاثر نہیں کرتی بلکہ پورے معاشرے کے اندر عدم تحفظ، شک اور بے اعتمادی کی فضا پیدا کرتی ہے۔ آج اگر ٹریژر این ایف ٹی” کا معاملہ بے نقاب ہوا ہے، تو کل کوئی اور نام لے کر نئی ویب سائٹ عوام کو اپنی چکنی چپڑی باتوں میں الجھا دے گی۔ جب تک ایک مؤثر، مربوط، اور سخت قانون سازی نہیں ہوتی، اور جب تک عوامی سطح پر مالی خواندگی کو فروغ نہیں دیا جاتا، ایسے دھوکہ دہی کے واقعات بار بار دہرائے جاتے رہیں گے۔
اب وقت ہے کہ ریاست اور متعلقہ ادارے محض تحقیقات اور وعدوں تک محدود نہ رہیں۔ سب سے پہلے، تمام ایسی ویب سائٹس کی فہرست جاری کی جائے جو غیر قانونی یا مشکوک سرگرمیوں میں ملوث رہی ہیں۔ دوسرا، عوامی سطح پر ہنگامی آگاہی مہم شروع کی جائے تاکہ مزید افراد ایسے جال میں نہ پھنسیں۔ تیسرا، متاثرہ افراد کے لیے ہیلپ لائنز اور قانونی معاونت کے فوری اور قابل رسائی ذرائع فراہم کیے جائیں تاکہ وہ اپنی شکایات درج کرا سکیں اور انصاف کے حصول کی طرف قدم بڑھا سکیں۔ چوتھا، ایسے پلیٹ فارمز کو رجسٹریشن اور مکمل شفافیت کے بغیر کام کرنے کی اجازت نہ دی جائے۔
آج اگر ہم نے اس مسئلے کو محض ایک اور “آن لائن اسکینڈل” سمجھ کر نظر انداز کیا تو کل یہ بحران ہمارے مالیاتی نظام کو بھی ہلا کر رکھ دے گا۔ ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ مالی دھوکہ دہی صرف سرمایہ کا زیاں نہیں بلکہ اعتماد کا زیاں ہے — اور جب عوام کا اعتماد ریاست سے اٹھ جائے، تو پھر کسی بھی نظام کو سنبھالنا ممکن نہیں رہتا۔

شیئر کریں

:مزید خبریں