آج کی تاریخ

ترجمان حکومت بلوچستان کی خوش آئند پریس کانفرنس

بلوچستان کی صورتحال ایک بار پھر اس نہج پر آ چکی ہے جہاں بے چینی، عدم تحفظ اور بداعتمادی کے سائے گہرے ہوتے جا رہے ہیں۔ آئے روز ہونے والے دہشت گرد حملے، جن میں پولیس، سیکیورٹی فورسز اور عام شہری نشانہ بن رہے ہیں، بالخصوص پنجاب سے تعلق رکھنے والے مزدور اور شہری، اس بات کی عکاسی کرتے ہیں کہ امن و امان کے قیام کے تمام تر دعوے اپنی جگہ، مگر زمینی حقائق اس سے مختلف ہیں۔ ایسے نازک حالات میں جب عوام کی امیدیں دم توڑتی دکھائی دیتی ہیں اور ریاستی اداروں پر اعتماد کمزور ہوتا جا رہا ہے، حکومت بلوچستان کی جانب سے مذاکرات کی پیشکش اور مکالمے کی راہ اپنانے کا عندیہ بلاشبہ ایک مثبت اور معقول قدم ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ کیا یہ پیشکش محض ایک وقتی بیانیہ ہے یا اس کے پیچھے کوئی سنجیدہ پالیسی اور نیت کارفرما ہے؟
حال ہی میں کوئٹہ میں ہونے والی پریس کانفرنس، جس میں ترجمان حکومت بلوچستان شاہد رند، وزیر میر شعیب نوشیروانی اور ظہور احمد بلیدی شریک تھے، ایک ایسا موقع تھا جس میں محض حالات کی سنگینی کا شکوہ کرنے کے بجائے اس کے پس پردہ وجوہات کا اعتراف بھی کیا گیا۔ یہ پہلا موقع نہیں کہ بلوچستان میں بدامنی کا چرچا ہو رہا ہے، لیکن اس بار جو بات قابلِ غور تھی وہ وزراء کا لہجہ اور اندازِ گفتگو تھا، جو کسی حد تک خود احتسابی کا پہلو لیے ہوئے تھا۔ خاص طور پر شعیب نوشیروانی کا یہ اعتراف کہ بلوچستان میں جو دہشت گردی کی لہر دیکھی جا رہی ہے وہ محض روایتی نوعیت کی نہیں بلکہ ایک غیر معمولی صورتِ حال ہے، اس بات کی دلیل ہے کہ اب روایتی حل ناکام ہو چکے ہیں اور نئی حکمتِ عملی اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔
شعیب نوشیروانی نے یہ بات کھلے الفاظ میں کہی کہ انٹیلی جنس کی بہتر معلومات، عوامی رائے اور حمایت، اور اجتماعی مشاورت اس وقت کی اہم ضرورت ہیں۔ اس بیان سے اندازہ ہوتا ہے کہ حکومت اب محض طاقت کے استعمال کو مسئلے کا حل نہیں سمجھ رہی بلکہ وہ یہ جان چکی ہے کہ بلوچستان کے مسئلے کی جڑیں کہیں گہری ہیں، جنہیں صرف عسکری آپریشنز سے کاٹا نہیں جا سکتا۔ انہوں نے بدعنوانی، ناقص حکمرانی، اور عوامی اعتماد کی کمی جیسے عوامل کو تسلیم کرتے ہوئے یہ واضح کیا کہ جب تک ان مسائل پر قابو نہیں پایا جائے گا، تب تک دہشت گردی کی لہر ختم نہیں ہو سکتی۔ یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ حکومت نے دیر سے سہی مگر اصل مسئلے کی نشاندہی کر دی ہے، اب ضرورت صرف اس بات کی ہے کہ ان بیانات کو عملی اقدامات میں بدلا جائے۔
بلوچستان کے عوام برسوں سے پسماندگی، محرومی اور بے اعتنائی کا شکار رہے ہیں۔ اگر ہم ریاست اور اس کے اداروں کی جانب سے بلوچستان کو دیے گئے وعدوں اور اعلانات کا جائزہ لیں، تو ماضی کی تاریخ وعدہ خلافیوں سے بھری پڑی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب بھی حکومت کسی ترقیاتی منصوبے یا مذاکرات کی بات کرتی ہے تو عوام میں شکوک و شبہات جنم لیتے ہیں۔ اس صورتحال میں حکومت کی اولین ذمہ داری ہے کہ وہ نہ صرف اپنے بیانات کو عملی جامہ پہنائے بلکہ عوام کے دل جیتنے کے لیے ٹھوس اقدامات کرے۔ بجٹ میں اگرچہ حکومت نے ریلیف دینے کی کوشش کی، لیکن حقیقت یہ ہے کہ جیسے ہی تھوڑی بہت بہتری آتی ہے، دہشت گردی کی نئی لہر اسے ملیا میٹ کر دیتی ہے۔ اس سے یہ تاثر پیدا ہوتا ہے کہ شاید امن کی راہ میں کچھ ایسے عناصر سرگرم ہیں جو بلوچستان کو غیر مستحکم رکھنا چاہتے ہیں، یا یہ کہ حکومت اور ریاستی ادارے اُن اسباب کو مکمل طور پر سمجھنے سے قاصر ہیں جو دہشت گردی کو فروغ دیتے ہیں۔
وزیراعلیٰ بلوچستان کی جانب سے شروع دن سے مذاکرات کی پیشکش کو اگر نیک نیتی سے دیکھا جائے تو یہ ایک سنجیدہ کوشش ہو سکتی ہے، لیکن سوال یہ ہے کہ کیا اس مکالمے کے لیے کوئی مؤثر فورم، کوئی باقاعدہ لائحہ عمل، اور کوئی شفاف طریقہ کار بھی موجود ہے؟ کیونکہ ماضی میں بھی مذاکرات کی پیشکشیں کی گئیں، مگر وہ کسی نتیجے پر نہ پہنچ سکیں۔ جب تک حکومت ان پیشکشوں کو ایک واضح، پالیسی کے تحت آگے نہیں بڑھائے گی اور جب تک اس میں تمام اسٹیک ہولڈرز — بشمول ناراض بلوچ قیادت، سول سوسائٹی، نوجوان نمائندے، اور قبائلی عمائدین — کو شامل نہیں کیا جائے گا، تب تک یہ صرف ایک سیاسی بیان سے زیادہ کچھ نہیں ہوگا۔
پریس کانفرنس میں ایک اور اہم نکتہ یہ بھی تھا کہ حکومت دہشت گرد اور ناراض افراد کے درمیان فرق کو سمجھتی ہے۔ یہ ایک نہایت حساس مگر اہم پہلو ہے، کیونکہ ماضی میں ریاستی اداروں نے اختلافِ رائے رکھنے والے ہر فرد کو دشمن یا غدار کے زمرے میں ڈال دیا، جس کا نتیجہ مزید علیحدگی، مایوسی اور شدت پسندی کی صورت میں نکلا۔ آج ضرورت اس بات کی ہے کہ جو افراد ریاست سے شکوہ رکھتے ہیں، انہیں سنا جائے، ان کی شکایات کا ازالہ کیا جائے، اور انہیں معاشرے کا فعال رکن بنایا جائے، نہ کہ انہیں دیوار سے لگایا جائے۔
پریس کانفرنس میں یہ بتایا گیا کہ بلوچستان اسمبلی میں دہشت گردی کے موضوع پر تین اجلاس ہو چکے ہیں، جن میں ایک ان کیمرا اجلاس بھی شامل تھا۔ یہ اس بات کی علامت ہے کہ سیاسی سطح پر کم از کم اب احساس پایا جاتا ہے کہ یہ مسئلہ صرف سیکیورٹی کا نہیں بلکہ سیاسی اور سماجی نوعیت بھی رکھتا ہے۔ تاہم ان اجلاسوں کا فائدہ تبھی ہو گا جب ان میں ہونے والے فیصلے زمین پر بھی دکھائی دیں گے، اور تمام سیاسی جماعتیں، خواہ وہ حزبِ اختلاف میں ہوں یا اقتدار میں، ایک مشترکہ بیانیے پر متفق ہو جائیں۔
آج بلوچستان میں ایک نسل ایسی تیار ہو رہی ہے جو خود کو اس ریاست سے کٹا ہوا محسوس کرتی ہے۔ تعلیم، روزگار، صحت اور دیگر بنیادی سہولیات کا فقدان نہ صرف ان کی زندگیوں کو متاثر کر رہا ہے بلکہ ان میں پائی جانے والی محرومی کا احساس شدت اختیار کرتا جا رہا ہے۔ اگر حکومت واقعی چاہتی ہے کہ بلوچستان میں امن قائم ہو، تو اسے صرف سیکیورٹی زاویے سے نہیں بلکہ انسانی بنیادوں پر اس خطے کو دیکھنا ہوگا۔ ترقیاتی منصوبے صرف کاغذی کارروائیوں تک محدود نہ ہوں، بلکہ ان کے اثرات عام شہری کی زندگی میں نمایاں ہونے چاہئیں۔
بلوچستان کا مسئلہ ایک کثیر الجہتی مسئلہ ہے جس کا حل صرف بندوق یا مذاکرات کی پیشکش میں نہیں بلکہ اس سوچ میں ہے جو پورے نظام کو انصاف، شفافیت، برابری اور باہمی احترام کی بنیاد پر استوار کرے۔ آج اگر ریاست بلوچستان کو محض ایک جغرافیائی اکائی کے بجائے ایک جذباتی اور سیاسی حقیقت کے طور پر تسلیم کرے، تو وہ دن دور نہیں جب یہاں کے زخم مندمل ہوں گے، اور وہ نوجوان جو آج بندوق اٹھانے پر مجبور ہیں، کل قلم تھامیں گے اور تعمیری کردار ادا کریں گے۔
اب وقت ہے کہ حکومت اپنے الفاظ کو عمل میں تبدیل کرے، اعتماد کی بحالی کے لیے سنجیدہ کوششیں کرے اور تمام اسٹیک ہولڈرز کو ساتھ لے کر ایک ایسا پائیدار مکالمہ شروع کرے جو نہ صرف دہشت گردی کا خاتمہ کرے بلکہ بلوچستان کو ترقی، امن اور خوشحالی کی راہ پر گامزن کرے۔ کیونکہ اگر اب بھی ہم نے موقع ضائع کر دیا، تو آئندہ نسلیں بھی انہی مسائل کے اندھیرے میں بھٹکتی رہیں گی۔

آبی قلت کی آفت اور چولستان میں کارپوریٹ فارمنگ

چولستان میں ممکنہ قحط سے نمٹنے کے لیے صوبائی ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (PDMA) کی جانب سے جمعرات کے روز ایک اہم اجلاس منعقد کیا گیا، جس کی صدارت ڈی جی پی ڈی ایم اے عرفان علی کاٹھیا نے کی۔ اجلاس میں بہاولپور، رحیم یار خان اور بہاولنگر کے ڈپٹی کمشنرز نے ویڈیو لنک کے ذریعے شرکت کی اور ممکنہ قحط سے بچاؤ کے اقدامات کا جائزہ لیا گیا۔ چولستان ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے مینیجنگ ڈائریکٹر سید طارق محمود بخاری نے موجودہ آبی صورت حال پر بریفنگ دی اور بتایا کہ سردیوں میں بارش نہ ہونے کی وجہ سے ذخائر میں پانی کی شدید قلت ہے، تاہم تمام علاقوں میں پائپ لائنز اور باؤزرز کے ذریعے پانی کی فراہمی یقینی بنائی جا رہی ہے۔ ڈی جی پی ڈی ایم اے نے اس بات پر زور دیا کہ پنجاب میں گزشتہ چار ماہ کے دوران 38 فیصد کم بارش ریکارڈ کی گئی ہے، جس کے پیشِ نظر فوری طور پر تمام محکمے الرٹ رہیں اور بروقت اقدامات یقینی بنائیں۔ صحت، بلدیات اور لائیوسٹاک محکموں کو ہدایات دی گئیں کہ بنیادی ادویات اور جانوروں کے لیے پانی کی فراہمی جیسے انتظامات پیشگی مکمل کر لیے جائیں۔ انڈس ریور سسٹم اتھارٹی (IRSA) کے مطابق پاکستان کے تین صوبے شدید قحط کی صورتِ حال سے دوچار ہیں، جبکہ سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے موسمیاتی تبدیلی کی چیئرپرسن شیری رحمٰن نے قحط کی سنگینی پر گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہ صرف قدرتی عوامل کا نتیجہ نہیں بلکہ موسمیاتی تبدیلی، ناقص آبی نظم و نسق، اور غیر متوازن ترقیاتی پالیسیوں کا ثمر ہے۔
یہ تمام صورتحال ہمارے اجتماعی قومی رویے اور پالیسیوں پر ایک بڑا سوالیہ نشان بن کر ابھرتی ہے۔ جب ملک کا ایک وسیع ریگستانی علاقہ چولستان قحط کے دہانے پر کھڑا ہو، جب دریا خشک ہو چکے ہوں، جب بارشیں کم پڑ رہی ہوں، اور جب پہاڑوں پر برف نہ ہونے کے برابر رہ گئی ہو، تب نئی نہریں کھودنے، ڈیموں کو دیوتاؤں کی طرح پوجنے، اور کارپوریٹ زراعت کے خواب دکھانے کی روش پر نظرثانی کرنا ناگزیر ہو جاتا ہے۔ ہمیں تسلیم کرنا ہوگا کہ ہم ایک ایسے مقام پر آن پہنچے ہیں جہاں اگر ہم نے اپنی پالیسیاں نہ بدلیں تو ہماری زمین، ہماری زراعت، ہمارا پانی اور ہمارے لوگ سب کچھ کھو بیٹھیں گے۔
یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ آج پاکستان میں پانی کی قلت محض قدرتی آفات کا نتیجہ نہیں، بلکہ اس کے پیچھے ہماری دہائیوں پر محیط ناقص منصوبہ بندی، وسائل کا غیر منصفانہ استعمال، اور ماحولیات سے بے پروا ترقیاتی ماڈل ہیں۔ پانی کے ذخائر میں کمی، گلیشیئرز کا مستقل پگھلاؤ، اور زرعی نظام میں غیر موثر طریقوں نے مل کر ایک ایسا بحران پیدا کیا ہے جو ہر گزرتے دن کے ساتھ سنگین تر ہوتا جا رہا ہے۔ ایک جانب پانی نہ ہونے کا رونا رویا جاتا ہے، دوسری جانب نئی نہریں، زرعی منصوبے اور ڈیمز کا جال بچھایا جا رہا ہے۔ یہ وہ تضاد ہے جو ریاستی پالیسی میں عدم توازن کو پوری شدت سے آشکار کرتا ہے۔
جب PDMA جیسا ادارہ قحط کے خدشے کے پیش نظر الرٹ جاری کرتا ہے، تو یہ صرف ایک علاقے کا مسئلہ نہیں رہتا بلکہ قومی سطح پر خطرے کی گھنٹی بن جاتا ہے۔ چولستان کے لوگ، جو صدیوں سے ریگزار میں زندگی بسر کر رہے ہیں، آج اپنی بقا کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ پانی کی قلت صرف ان کی روزمرہ زندگی کو متاثر نہیں کر رہی بلکہ ان کے مویشی، ان کی معیشت، ان کی ثقافت اور ان کا وجود ہی خطرے میں ہے۔ یہ وہ وقت ہے جب ریاست کو دکھاوے سے نکل کر عملی اقدامات کرنا ہوں گے، ورنہ آنے والی نسلیں ہمیں معاف نہیں کریں گی۔
شیری رحمٰن نے درست نشاندہی کی کہ موجودہ قحط صرف قدرتی موسمیاتی تبدیلی کا نتیجہ نہیں بلکہ ناقص پانی کے انتظامات، غیر متوازن ترقیاتی ماڈلز اور یکطرفہ نہری منصوبوں کا بھی شاخسانہ ہے۔ جب دریائے سندھ جیسے بڑے آبی ذریعہ سے بغیر کسی قومی مشاورت کے نہریں نکالی جائیں، جب میگا پروجیکٹس کو ترقی کا مترادف سمجھا جائے اور جب پانی کو ایک بنیادی انسانی حق کے بجائے ایک معاشی اشیاء بنا دیا جائے، تو یہ سب مل کر قحط کی وجوہات بن جاتے ہیں۔ ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ پانی صرف زراعت کے لیے نہیں، بلکہ زندگی کے ہر شعبے کے لیے بنیادی ہے۔ اس کی تقسیم میں جب طبقاتی، جغرافیائی یا سیاسی تعصب شامل ہو جائے تو اس کے نتائج قحط کی صورت میں نکلتے ہیں۔
پاکستان کے شمالی علاقوں میں واقع گلیشیئرز دنیا بھر میں قطبی خطوں کے علاوہ سب سے بڑی برفانی ذخائر کا گھر ہیں، جن کا پگھلاؤ ماضی میں دریاؤں کو زندگی بخشتا رہا ہے۔ لیکن اب یہ گلیشیئرز موسمی نہیں بلکہ مستقل پگھل رہے ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ وقتی سیلابی کیفیت کے بعد لمبے عرصے کے لیے آبی قلت کا سامنا ہوگا۔ مگر افسوس کہ ریاست اس بنیادی حقیقت سے آنکھ چراتی نظر آتی ہے۔ سیاحت کو فروغ دینے کے نام پر ان علاقوں میں بے ہنگم تعمیرات، گندگی اور شور و غل سے گلیشیئرز کے ماحول کو شدید نقصان پہنچایا جا رہا ہے۔ ساتھ ہی ساتھ، ایسے منصوبے جیسے دیامر بھاشا ڈیم، جنہیں وسائل کے نام پر بیچا جاتا ہے، درحقیقت ماحولیاتی تباہی کو دعوت دیتے ہیں۔
ہمیں اس حقیقت کا سامنا کرنا ہو گا کہ پاکستان میں پانی کی قلت کا حل مزید ڈیمز یا نہریں نہیں، بلکہ ایک منصفانہ اور ماحول دوست آبی پالیسی ہے۔ ہمیں زراعت کے فرسودہ طریقوں کو تبدیل کرنا ہو گا، پانی کے استعمال میں کفایت شعاری برتنی ہو گی، اور شہری ترقی کے نام پر کنکریٹ کے جنگل اگانے کے بجائے قدرتی آبی گزرگاہوں کی بحالی کرنی ہو گی۔ اسلام آباد ہو یا لاہور، کراچی ہو یا فیصل آباد — ہر شہر کی وسعت زیر زمین پانی کی سطح کو نگلتی جا رہی ہے۔ جب تک ہم اس رجحان کو روکنے کے لیے سنجیدہ منصوبہ بندی نہیں کرتے، قحط صرف چولستان کی کہانی نہیں رہے گا بلکہ یہ ایک قومی المیہ بن جائے گا۔
قحط سے نمٹنے کے لیے کی جانے والی تیاریوں کی اہمیت سے انکار ممکن نہیں، لیکن یہ تیاری اس وقت تک مؤثر نہیں ہو سکتی جب تک کہ ہم اپنے پورے آبی نظام کو ایک نئی سوچ کے تحت ترتیب نہ دیں۔ پانی صرف ایک وسیلہ نہیں بلکہ ایک بقا کا ذریعہ ہے، اور جب تک اس کی تقسیم میں انصاف، اس کے استعمال میں دانشمندی، اور اس کے تحفظ میں ذمہ داری نہیں ہو گی، قحط، خشک سالی اور آبی بحران ہمارے مستقل ساتھی بنے رہیں گے۔
آج ہمیں فیصلہ کرنا ہے کہ ہم کارپوریٹ زرعی انقلابات کے سراب کے پیچھے دوڑتے رہیں گے یا اس ملک کے کسان، چرواہے، مزدور اور عام شہری کے لیے ایسا نظام وضع کریں گے جو قدرتی وسائل کے ساتھ ہم آہنگ ہو۔ اگر ہم نے اس موقع کو گنوا دیا، تو کل کو صرف چولستان نہیں، بلکہ پورا پاکستان پیاسا رہ جائے گا۔

شیئر کریں

:مزید خبریں