دنیا اس وقت کئی بڑے تنازعات کی لپیٹ میں ہے لیکن یوکرین جنگ ایک ایسا المیہ ہے جس نے پورے یورپ کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ یہ جنگ اپنے چوتھے سال میں داخل ہو چکی ہے اور اب ایک بار پھر امن مذاکرات کی امید جاگی ہے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے تازہ کوششوں کی قیادت کرتے ہوئے تمام فریقین پر زور دیا ہے کہ وہ کسی قابلِ قبول معاہدے پر پہنچیں۔ حالیہ دنوں میں واشنگٹن میں یوکرین کے صدر ولودومیر زیلنسکی اور اہم یورپی رہنماؤں کی ملاقات، اور اس سے پہلے الاسکا میں ٹرمپ اور ولادیمیر پیوٹن کی نشست نے ایک نئی سفارتی جنبش پیدا کی ہے۔ زیلنسکی کی فروری میں امریکی دارالحکومت آمد تو تلخ تجربہ ثابت ہوئی تھی جب ٹرمپ اور نائب صدر نے انہیں کھلے عام تنقید کا نشانہ بنایا، لیکن اس بار ماحول کافی بہتر دکھائی دیا۔ خوشگوار مسکراہٹوں کے ساتھ ساتھ ایک ابتدائی امن معاہدے کی بات چیت نے دنیا بھر میں امید کے دیے جلائے ہیں کہ شاید یہ جنگ بالآخر اختتام کو پہنچے۔ اب سب کی نظریں اس مجوزہ اجلاس پر لگی ہیں جو یوکرین اور روس کے سربراہان کے درمیان ہونے والا ہے۔ اگر یہ مذاکرات کامیاب ہوئے تو چار سال سے جاری خونریزی کے خاتمے کا دروازہ کھل سکتا ہے، وہ جنگ جو 2022 میں روسی حملے کے بعد شروع ہوئی اور اب تک ہزاروں زندگیاں نگل چکی ہے۔
تاہم ابھی منزل بہت دور ہے۔ صدر ٹرمپ کی امن پسندی کی خواہش اپنی جگہ، لیکن حقیقی معاہدے تک پہنچنے کے لیے کئی سخت سوالات کا جواب دینا باقی ہے۔ سب سے پہلا سوال یہ ہے کہ کیا روس اس زمین سے دستبردار ہوگا جس پر اس نے قبضہ کر رکھا ہے، خصوصاً کریمیا جسے 2014 میں ضم کر لیا گیا تھا؟ دوسرا اہم مسئلہ یوکرین کی نیٹو میں شمولیت کا ہے۔ روس کے لیے یہ سرخ لکیر ہے کیونکہ وہ سمجھتا ہے کہ مغربی اتحاد اس کے گرد عسکری حصار قائم کر رہا ہے۔ کیا یوکرین اس خواب کو ترک کرنے پر تیار ہوگا؟ تیسرا اور سب سے بنیادی سوال یہ ہے کہ آیا زیلنسکی اور پیوٹن کا مجوزہ اجلاس حقیقت کا روپ دھار بھی پائے گا یا نہیں؟ اگر ان سوالات کا کوئی پائیدار جواب نہ ملا تو امن کی یہ کوشش بھی محض سفارتی ہلچل ثابت ہوگی۔
یہ بات درست ہے کہ روس نے اپنے ہمسایہ ملک پر چڑھائی کر کے بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی کی۔ کسی بھی تاریخی دعوے کے باوجود یہ اقدام ناقابلِ قبول ہے۔ لیکن ساتھ ہی یہ بھی حقیقت ہے کہ ماسکو کے خدشات محض وہم نہیں کہ مغربی اتحاد اس کی سرحدوں پر خیمہ زن ہو چکا ہے۔ لہٰذا کوئی بھی قابلِ عمل امن معاہدہ دونوں پہلوؤں کو مدنظر رکھے بغیر ممکن نہیں۔ ایک طرف یوکرین کی علاقائی خودمختاری کا تحفظ بنیادی شرط ہے، تو دوسری طرف روس کو عالمی برادری سے مستقل طور پر الگ تھلگ کرنے کا سلسلہ بھی ختم کرنا ہوگا۔ خصوصاً اقتصادی پابندیوں کا خاتمہ اور روس کو عالمی نظام میں دوبارہ ضم کرنا ناگزیر ہے۔ اگر ایسا نہ ہوا تو امن کی بنیادیں کمزور رہیں گی اور کسی بھی وقت دوبارہ جنگ بھڑک سکتی ہے۔
صدر ٹرمپ کی امن پسندی کو کچھ لوگ ان کے ذاتی عزائم سے بھی جوڑتے ہیں۔ یہ قیاس آرائیاں کی جا رہی ہیں کہ وہ خود کو ’امن کا علمبردار‘ ثابت کر کے نوبل انعام کے حقدار بننا چاہتے ہیں۔ اگرچہ یہ ذاتی محرک ہو سکتا ہے، لیکن اگر واقعی اس کے نتیجے میں جنگ ختم ہوتی ہے تو یہ دنیا کے لیے نیک شگون ہوگا۔ پھر بھی محض نوبل کی خواہش کافی نہیں، اصل کامیابی تب ہوگی جب یوکرین اور روس دونوں کے عوام کو سکون ملے گا اور یورپ کو مزید خونریزی سے بچایا جا سکے گا۔
یہ بھی ضروری ہے کہ اس امن مہم کو وسیع تر تناظر میں دیکھا جائے۔ اگر ٹرمپ یا کوئی بھی عالمی رہنما واقعی امن پسند ہے تو اس کے لیے یہ یک رخی نہیں ہو سکتا۔ یورپ کی جنگ بندی پر زور دینا خوش آئند ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ دنیا کے دیگر میدانِ جنگ کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ سب سے بڑی مثال غزہ ہے، جہاں اسرائیلی جارحیت نے انسانی المیے کو جنم دیا ہے۔ اگر امریکی صدر کو حقیقی معنوں میں امن کا علمبردار بننا ہے تو انہیں صرف یوکرین میں نہیں بلکہ فلسطین میں بھی خونریزی روکنے کے لیے جرات مندانہ قدم اٹھانا ہوگا۔
یوکرین جنگ نے ہمیں یہ سبق دیا ہے کہ بڑی طاقتوں کے تصادم میں چھوٹے ممالک سب سے زیادہ نقصان اٹھاتے ہیں۔ لاکھوں افراد بے گھر ہوئے، ہزاروں اپنی جانوں سے گئے، اور ایک پورا خطہ عدم استحکام کا شکار ہو گیا۔ اگر یہ امن عمل کامیاب ہوتا ہے تو یہ محض یوکرین اور روس کے لیے ہی نہیں بلکہ پورے یورپ اور دنیا کے لیے سکون کا پیغام ہوگا۔ لیکن یہ سکون اسی وقت دیرپا ہوگا جب تمام فریقین اپنی ضد، اپنے جیو اسٹریٹجک خواب اور اپنے تسلط کے ایجنڈے کو پیچھے چھوڑ کر ایک متوازن اور حقیقت پسندانہ معاہدہ کریں۔ امن صرف اسی وقت قائم ہو سکتا ہے جب سب فریق یہ تسلیم کریں کہ ایک قوم کی سلامتی اور خودمختاری دوسری قوم کی سلامتی کو روند کر قائم نہیں ہو سکتی۔
اب یہ دیکھنا ہے کہ آنے والے ہفتوں اور مہینوں میں زیلنسکی اور پیوٹن کے درمیان مجوزہ سربراہی اجلاس کس رخ پر جاتا ہے۔ اگر یہ اجلاس محض سفارتی نمائش ثابت ہوا تو مایوسی اور زیادہ گہری ہوگی۔ لیکن اگر اس سے کچھ ٹھوس نتائج برآمد ہوئے تو یہ تاریخ میں ایک اہم موڑ ہوگا۔ عالمی برادری کو بھی اس موقع پر اپنا کردار ادا کرنا ہوگا تاکہ کوئی فریق خود کو تنہا محسوس نہ کرے۔ امریکہ اور یورپ کو یہ سمجھنا ہوگا کہ روس کو کونے میں دھکیلنے کی پالیسی کبھی امن نہیں لا سکتی، اور روس کو یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ یوکرین کی خودمختاری پر حملہ کسی طور درست نہیں۔
امن کا راستہ تنگ اور کٹھن ضرور ہے لیکن ناممکن نہیں۔ اگر سچی نیت اور مساویانہ شرائط کے ساتھ مذاکرات ہوں تو یوکرین میں بندوقیں خاموش ہو سکتی ہیں۔ یہ خاموشی نہ صرف اس خطے بلکہ دنیا کے دیگر بحران زدہ علاقوں کے لیے بھی ایک امید کا پیغام ہوگی۔ دنیا کو ایسے رہنماؤں کی ضرورت ہے جو صرف اپنے ملک کی نہیں بلکہ انسانیت کی فکر کریں۔ اور اگر صدر ٹرمپ اس سمت میں قدم بڑھاتے ہیں تو انہیں یہ ثابت کرنا ہوگا کہ امن صرف یورپ کے لیے نہیں بلکہ غزہ، یمن، سوڈان اور کشمیر جیسے میدانوں کے لیے بھی اتنا ہی ضروری ہے۔
