آج کی تاریخ

میرا قائد عمران خان فوجی آپریشن کیخلاف تھا، ہم بھی اس کے خلاف ہیں،نو منتخب وزیر اعلیٰ خیبرپختونخوا محمد سہیل آفریدی-میرا قائد عمران خان فوجی آپریشن کیخلاف تھا، ہم بھی اس کے خلاف ہیں،نو منتخب وزیر اعلیٰ خیبرپختونخوا محمد سہیل آفریدی-ایران کا غزہ امن کانفرنس میں شرکت سے انکار، "اپنے عوام پر حملہ کرنے والوں کے ساتھ نہیں بیٹھ سکتے"، ایرانی وزیرِ خارجہ-ایران کا غزہ امن کانفرنس میں شرکت سے انکار، "اپنے عوام پر حملہ کرنے والوں کے ساتھ نہیں بیٹھ سکتے"، ایرانی وزیرِ خارجہ-سپر ٹیکس کیس کی سماعت میں ججز اور وکلا کے درمیان دلچسپ تبادلہ خیال-سپر ٹیکس کیس کی سماعت میں ججز اور وکلا کے درمیان دلچسپ تبادلہ خیال-پاکستان اسٹاک ایکسچینج میں شدید مندی، کے ایس ای-100 انڈیکس 4 ہزار پوائنٹس گر گیا-پاکستان اسٹاک ایکسچینج میں شدید مندی، کے ایس ای-100 انڈیکس 4 ہزار پوائنٹس گر گیا-نیتن یاہو کی ہٹ دھرمی: غزہ میں دوبارہ فوجی کارروائی کا اشارہ-نیتن یاہو کی ہٹ دھرمی: غزہ میں دوبارہ فوجی کارروائی کا اشارہ

تازہ ترین

یومِ دفاعِ پاکستان: عسکری طاقت سے بڑھ کر معاشی خودمختاری کا پیغام

چھ ستمبر کا دن ہر پاکستانی کے دل میں ایک خاص مقام رکھتا ہے۔ یہ دن نہ صرف وطنِ عزیز کے دفاع میں دی جانے والی عظیم قربانیوں کی یادگار ہے بلکہ یہ قومی یکجہتی، حب الوطنی اور خودداری کے اس جذبے کی تجدید کا موقع بھی ہے، جو کسی بھی قوم کی اصل طاقت ہوتا ہے۔ 1965ء کی جنگ میں دشمن نے جب پاکستان کی سرزمین پر حملہ کیا تو ہماری مسلح افواج اور عوام نے جس جرات، دلیری اور اتحاد کا مظاہرہ کیا، وہ تاریخ کا روشن باب ہے۔ یہ وہ دن ہے جب ہم نے دنیا کو دکھا دیا کہ جذبہ صادق ہو تو وسائل کی کمی کوئی معنی نہیں رکھتی۔فوج کسی بھی ملک کے لیے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے۔ ایک منظم، پیشہ ور، اور باصلاحیت فوج ہی ملک کی جغرافیائی سرحدوں کی حفاظت کی ضامن ہوتی ہے۔ پاکستان کی مسلح افواج نے ہمیشہ اپنی جانوں کا نذرانہ دے کر اس دھرتی کی حفاظت کی، چاہے وہ 1965ء کی روایتی جنگ ہو، کارگل کی چوٹیوں پر سخت معرکہ ہو، یا پھر دہشت گردی کے خلاف لڑی جانے والی طویل اور صبر آزما جنگ۔ ہماری بہادر افواج نے ہر میدان میں لازوال قربانیاں دے کر قوم کو فخر کا موقع دیا ہے۔
مگر آج کے بدلتے عالمی تناظر میں دفاع کا تصور صرف توپ و تفنگ تک محدود نہیں رہا۔ اب جنگ صرف میدانِ جنگ میں نہیں لڑی جاتی، بلکہ اقتصادی، نظریاتی اور ڈیجیٹل محاذوں پر بھی دفاعی حکمتِ عملیوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ ایک طاقتور فوج کے ساتھ ساتھ ایک مضبوط معیشت ہی کسی ملک کے دیرپا دفاع کی ضامن بن سکتی ہے۔ یہی وہ نکتہ ہے جہاں ہمیں سنجیدگی سے غور کرنے کی ضرورت ہے۔ پاکستان آج جس معاشی بحران سے گزر رہا ہے، وہ محض اقتصادی مسئلہ نہیں بلکہ ہمارے قومی دفاع کی کمزوری کا سبب بھی بن سکتا ہے۔
اس وقت پاکستان پر بیرونی قرضہ 130 ارب ڈالر سے تجاوز کر چکا ہے، جس میں سے تقریباً 60 ارب ڈالر صرف پبلک سیکٹر کے ذمے واجب الادا ہیں۔ مالی سال 2024-25 کے بجٹ میں صرف قرضوں پر سود کی ادائیگی کے لیے 9,800 ارب روپے مختص کیے گئے، جو کہ مجموعی بجٹ کا ایک بڑا حصہ ہے۔ روپے کی قدر میں مسلسل کمی، مہنگائی میں تاریخی اضافہ، اور غیر ملکی زرمبادلہ کے ذخائر کی نچلی سطح نے عام آدمی کی زندگی کو مشکل بنا دیا ہے۔ افراطِ زر کی شرح 25 فیصد سے تجاوز کر چکی ہے، اور بیروزگاری کا تناسب 10 فیصد سے زیادہ ہو چکا ہے۔ ایسے حالات میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر ہم اپنے ہی شہریوں کو دو وقت کی روٹی، علاج، تعلیم، اور روزگار دینے سے قاصر ہیں تو کیا صرف عسکری طاقت سے ملک کا مکمل دفاع ممکن ہے؟قومی دفاع کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ ملک کے اندرونی حالات مستحکم ہوں، عوام خوشحال ہو، ادارے مضبوط ہوں، اور معیشت پائیدار بنیادوں پر کھڑی ہو۔ ایک بھوکا، بیمار اور بیروزگار شہری ملک کا دفاع نہیں کر سکتا، بلکہ وہ خود ایک کمزور کڑی بن جاتا ہے جسے دشمن اپنے فائدے کے لیے استعمال کر سکتا ہے۔ اس لیے وقت آ گیا ہے کہ ہم دفاعِ وطن کو صرف عسکری تناظر سے نہ دیکھیں بلکہ اسے ایک جامع تصور کے طور پر اپنائیں، جس میں معاشی خودمختاری، تعلیمی ترقی، اور سوشل ویلفیئر شامل ہوں۔
ہمیں اس بات کا ادراک کرنا ہوگا کہ فوج اور معیشت ایک دوسرے کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں۔ ایک مضبوط معیشت ہی فوج کو جدید ہتھیار، بہتر تربیت، اور ضروری سہولیات مہیا کر سکتی ہے۔ اور جب فوج اندرونی یا بیرونی خطرات سے نمٹنے کے لیے اپنے مالی وسائل پر خود انحصار کر سکتی ہے، تو وہ مزید مؤثر انداز میں اپنا کردار ادا کر سکتی ہے۔ لیکن اگر معیشت کمزور ہو، تو فوج پر بھی بوجھ بڑھتا ہے، اور بیرونی انحصار ناگزیر ہو جاتا ہے، جو کہ کسی بھی خودمختار ریاست کے لیے لمحۂ فکریہ ہے۔
لہٰذا چھ ستمبر ہمیں صرف ماضی کی فتوحات یاد دلانے کا دن نہیں بلکہ یہ لمحۂ غور ہے کہ ہم مستقبل کے خطرات سے نمٹنے کے لیے کتنے تیار ہیں۔ ہمیں چاہیے کہ ہم اپنے بجٹ میں تعلیم، صحت، زراعت، اور صنعتوں کو ترجیح دیں، تاکہ ایک مضبوط، خود انحصار اور ترقی یافتہ پاکستان کی بنیاد رکھی جا سکے۔ نوجوانوں کو روزگار کے مواقع دیے جائیں، جدید ٹیکنالوجی میں سرمایہ کاری کی جائے، اور چھوٹے کاروبار کو فروغ دے کر ملکی پیداوار میں اضافہ کیا جائے۔
ساتھ ہی، حکومت کو شفافیت، احتساب، اور میرٹ پر مبنی پالیسیوں کے ذریعے سرمایہ کاروں کا اعتماد بحال کرنا ہوگا۔ اگر کرپشن، بدانتظامی اور سیاسی عدم استحکام کا خاتمہ نہ کیا گیا، تو بیرونی قرضے اور امداد صرف وقتی سہارا بنیں گے، پائیدار ترقی کا ذریعہ نہیں۔ ہمیں “معاشی دفاع” کو بھی اسی سنجیدگی سے لینا ہوگا جس سنجیدگی سے ہم اپنی سرحدوں کی حفاظت کرتے ہیں۔
یومِ دفاع کا اصل پیغام یہی ہے کہ ہم اپنی قومی سلامتی کے تمام پہلوؤں کو یکساں اہمیت دیں۔ ہمیں صرف توپ، بندوق اور ٹینک نہیں بلکہ ٹیکس نیٹ، ٹریڈ بیلنس، اور ٹیکنالوجی میں بھی مضبوط ہونا ہوگا۔ ہمیں بین الاقوامی مالیاتی اداروں کے رحم و کرم پر نہیں بلکہ اپنی عوام کی محنت، خلوص، اور قربانی پر اعتماد کرنا ہوگا۔
آخر میں، یہ دن ہمیں یاد دلاتا ہے کہ دفاع صرف سپاہی کی ذمہ داری نہیں بلکہ ہر شہری کا فرض ہے۔ ایک استاد، جو بچوں کو علم دیتا ہے؛ ایک کسان، جو زمین سے اناج اگاتا ہے؛ ایک مزدور، جو فیکٹری میں کام کرتا ہے؛ ایک ڈاکٹر، جو بیمار کا علاج کرتا ہے—یہ سب دراصل اس ملک کا دفاع کر رہے ہوتے ہیں۔ اگر ہم واقعی 1965ء کے جذبے کو زندہ رکھنا چاہتے ہیں، تو ہمیں میدانِ جنگ کے ساتھ ساتھ میدانِ معیشت میں بھی سرخرو ہونا ہوگا۔
پاکستان کی حقیقی آزادی اور سلامتی اُس دن مکمل ہوگی جب ہم دفاعی طور پر طاقتور ہونے کے ساتھ ساتھ معاشی طور پر خودمختار، سماجی طور پر متوازن، اور سیاسی طور پر مستحکم ملک بن جائیں گے۔ تب ہی ہم کہہ سکیں گے کہ ہم نے واقعی چھ ستمبر کے پیغام کو سمجھا اور اس پر عمل کیا۔
پاکستان زندہ باد۔

شیئر کریں

:مزید خبریں