آج کی تاریخ

یار من

افتخار فخر چھاوڑی ان گنی چنی شخصیات میں سے تھے جنہوں نے اس دور میں بھی پرانی روایات کو سینے سے لگایا ہوا تھا ۔ جی ہاں وہی روایات کہ جن میں رواداری، مہمان نوازی، وضعداری اور دوستوں کے مسائل حل کرنے کی ہر ممکن کوشش شامل تھیں۔ انہوں نے ایل ایل بی کے بعد ماسکو سے انٹرنیشنل لاء میں ڈگری حاصل کر رکھی تھی اور 1982سے تقریباً 2000 تک بھر پور وکالت بھی کی پھر 1987 میں ہائیکورٹ بار سے سینئر نائب صدر بھی منتخب ہوئے تاہم صحت کے مسائل کی وجہ سے پریکٹس جاری نہ رکھ سکے۔ سیاست میں بھی عملی طور پر حصہ لیا اور لودھراں سے ضلع کونسل کا انتخاب بھی لڑا۔ لیکن فخر چھاوڑی مرحوم مارکسزم، لینن ازم، فلسفہ اور تاریخ کا اعلیٰ شعور رکھتے تھے اور زندگی بھر حقیقی لبرل ازم اور ترقی پسند تحریک کا اہم حصہ رہے۔ آخری 10 سالوں میں صوفی ازم کی معاشرتی اور سماجی اہمیت کے بھی قائل ہوئے مگر چھاوڑی مرحوم خانقاہی نظام، ملاازم اور صوفی ازم کو مختلف انداز میں پرکھتے اور سمجھتے تھے۔ ہم دونوں جب آٹھویں میں پڑھتے تھے تو ہمیں شاعری کا شوق چڑھا اور روہیلانوالی ہائی سکول کے ہیڈ ماسٹر غلام سرور ندیم صاحب بھی شاعرانہ ذوق رکھتے اور شاعری کرتے تھے۔ ہم اپنے ’’ کلام‘‘ کی اصلاح کے لئے سرور ندیم کی خدمت حاضر ہوتے، وہ اصلاح کے ساتھ ساتھ ہماری حوصلہ افزائی بھی فرماتے مگر ہمیں جلد ہی اندازہ ہو گیا کہ ہماری شاعرانہ صلاحیتیں کتنی ’’ بلند‘‘ ہیں لہٰذا ہمارے اندر کا شاعر اپنی رونمائی نہ کرا سکا اور ابتدا ہی میں داغ مفارقت دے گیا۔ ہم دونوں کو مولانا سید مودودی اور مولانا غلام احمد پرویز کی کتابوں کو پڑھ کر ان کے فلسفے اور نظریات سے آشنائی ہوئی جس کی وجہ یہ تھی جب بھی میں والد صاحب کے ہمراہ جعہ پڑھنے جاتا تو امام صاحب مولانا مودودی صاحب کے پیروکار کو مودودی فرقہ اور مولانا پرویز صاحب کے چاہنے والوں کو پرویزی کہہ کر اپنی کم علمی کے باوجود خوب کلاس لیتے تھے۔ اسی لئے ہم دونوں کو انہیں پڑھنے کا شوق پیدا ہوا۔ ان دنوں مذہبی انتہا پسندی اس عروج پر نہ تھی جس پر بعد میں منظم منصوبہ بندی کے تحت پہنچا دی گئی۔ تب تو محض زبان و بیان پر ہی اکتفا کیا جاتا تھا۔ جماعت اسلامی کا تو ہمارے قصبہ میں باقاعدہ دفتر تھا جہاں سے مولانا صاحب کی کتابیں باآسانی پڑھنے کو مل جاتی تھیں مگر مولانا پرویز کے بارے میں کچھ پتہ نہیں تھا۔ جب افتخار سے میں نے اس بارے ذکر کیا تو پتہ چلا کہ ان کے والد صاحب کے پاس مولانا پرویز صاحب کا رسالہ طلوع اسلام باقاعدگی سے آتا ہے۔ افتخار نے مجھے بھی مذکورہ رسالہ ادھار کے طور پر پڑھنے کے لئے دینا شروع کر دیا اس طرح میری پرویز صاحب کے متعلق تھوڑی بہت آگاہی ہوئی۔حالانکہ اس وقت بریلوی، دیو بندی اور شیعہ امام اور علما ایک دوسرے کے خلاف سربکف ہوئے تھے۔ ہم وہ خوش نصیب ہیں جنہیں مولانا مودودی صاحب اور مولانا پرویز صاحب کے بارے میں انہیں اماموں کی وجہ سے آشنائی ہوئی اور یہ جمعہ کی سعادت اور مولوی صاحب کی ایک ہی موضوع پر مسلسل تقریروں سے ممکن ہوا۔ افتخار اور میں ان شخصیات کے بارے میں اپنی ذہنی سطح کے لحاظ سے باتیں کرتے تھے۔ میرے والد صاحب زیادہ پڑھے لکھے نہیں تھے مگر فوجی ²ملازمت میں مختلف ممالک میں رہنے دوسری جنگ عظیم میں حصہ لینے اور فوک وزڈم کی وجہ سے وہ کافی پختہ ذہن کے مالک تھے۔ گھر میں علمی ماحول نہ ہونے کی کمی افتخار کی دوستی نے پوری کر دی تھی۔ 14/13 سال کے بچوں کو تو درکنار ان ایام میں تو 20 آور 22 سال تک کے نوجونوں کو بھی بزرگ کوئی اہمیت نہ دیتے تھے مگر افتخار اور میں ان خوش نصیبوں میں سے تھے جنہیں ہمارے والدین نے اوئل عمری میں بھی پیار اور شفقت کے علاوہ اہمیت بھی دی ۔ اسی وجہ سے افتخار اور مجھ میں خود اعتمادی پیدا ہو گئی جو کہ ہم دونوں کے والد صاحبان کے اسی رویہ کی مرہون منت ہے۔ آج کے طالب اس اہمیت کو نہیں سمجھ سکتے۔ ہماری نسل کے لوگ جانتے ہیں کہ بزرگوں کا کیسا رعب و دبدبہ ہوتا تھا ۔ گھر میں والد کی آمد پر پراسرار خاموشی چھا جاتی تھی اور کسی بچے کو دم مارنے کی جسارت نہیں ہوتی تھی۔ اس دور میں یہ فقرہ بڑا مشہور تھا ’’ کھلائو سونے دا نوالہ تے ویکھو شیر دی اکھ نال” (اپنی اولاد کو کھلائیں سونے کا نوالہ اور دیکھیں شیر کی آنکھ سے) اور والدین کی طرف سے اس دور میں اساتذہ سے کہا جاتا تھا کہ ’’ہڈیاں ساڈیاں تے گوشت تہاڈا اے‘‘( یعنی بچے کی ہڈیاں ہماری اور گوشت استاد کا ہے)یاد رہے یہ ایوبی مارشل لائی دور تھا جو کہ انگریز کے استبدادی دور ہی کا تسلسل تھا اور اس دور کا ماٹو کچھ یوں تھا ’’ڈنڈا پیر اے وگڑیاں تگڑیاں دا‘‘( یعنی ڈنڈا ہی بگڑے ہووں کا واحد علاج ہے)وقت کتنا بدل گیا۔ تعلیمی اداروں اور گھروں میں ڈنڈے کی اہمیت ختم ہو گئی اور ڈنڈے کے ڈانڈے ایک منظم منصوبہ بندی کے تحت “مار نہیں پیار” کے نعرے سے بدل دیے گئے اور اس تبدیلی نے سب کچھ بدل دیا حتیٰ کہ احترام بھی جاتا رہا۔

شیئر کریں

:مزید خبریں