روداد ڈاکٹر ظفر چوہدری
پچھلے چند کالموں میں کچھ ایسے واقعات کا تذکرہ ہوا جس سے پرانے زخم تازہ ہو جانے کی وجہ سے میرے اہل خانہ اور عزیز و اقارب کا رنجیدہ ہونا قدرتی آمر تھا۔ یہ زندگی خوشیوں اور غموںکا مجموعہ مجھ سے ہے لیکن اللہ تعالیٰ نے مجھ پر جو احسانات کئے ہیں اور جو خوشیاں دی ہیں وہ ان تکالیف اور پریشانیوں سے ہزاروں گنا زیادہ ہیں۔اس پر میں جتنا بھی شکر ادا کروں وہ بہت ہی کم ہو گا۔
میں نے چند دوستوں سے مشورہ کیا آئندہ چندکالموں میں مجھےذاتی المیوں بارے لکھنا چاہیے یا نہیں۔ اکثریت نے مشورہ دیا کہ تم اپنی یادداشتوں کو رقم کر رہے ہو تو یہ واقعات تو آپ کو ضرورلکھنے چاہیں بلکہ مجھے کہا گیا کہ میں نے جو کچھ اس Time Space میں دیکھا ، محسوس کیا اور آج تک معاشرتی سماجی سیاسی اور ارتقائی عمل کے نتیجے میں جو حالات پیدا ہوئے انہیں بھی ایک تقابلی جائزے کی صورت میں لکھتا رہوں۔ آجکل کی یاداشتیں زیادہ تر ذاتی تجربات اور ذاتی واقعات پر لکھی جاتی ہیں۔
میں جو لکھ رہاں ہوں اور لکھنا چاہتا ہوں میرے خیال میں انہیں تجزیاتی یادداشتیں کہنا زیادہ مناسب ہو گا کیونکہ مجھے کوئی اور متبادل اور مناسب لفظ سمجھ نہیں آ رہا یہ سلسلہ جیسا کہ پہلے عرض کر چکا ہوں، میاں غفار صاحب کے مسلسل اصرار بلکہ حکم کہ جس میںصرف محبت شامل تھی۔جس نے شغل سمجھ کر لکھنا شروع کیا تھا مگر دوستوں کی حوصلہ افزائی اور گہری دلچسپی کی وجہ سے لکھنا میرے لیے ایک مسلسل سنجیدہ معاملہ بنتا جا رہا ہے۔مسیح اللہ جام پوری ملتان کے ادبی، ثقافتی اور صحافتی حلقوں میں بہت باوقار مقام رکھتے ہیں۔ اگر انہیں ملتان میں صحافتی ثقافتی اور ادبی حلقوں کی خوبصورت کی پہچان کہا جائے تو غلط نہ ہو گا۔ وہ آج کے مادہ پرست اور منتشر معاشرے میں اعلیٰ انسانی اور معاشرتی اقدارامین ہیں ان کی حوصلہ افزائی بلکہ راہنمائی کی وجہ سےاب میری دلچسپی اور بڑھ چکی ہے۔
ویسے تو میں ان خوش نصیب لوگوں میں ہوں جنہیں زندگی کے ہر دور میں اچھے دوست نصیب ہوئے۔ مرحوم افتخار فخر کا پہلے ذکر کر چکا ہوں۔ اب میں بطور خاص دو ہم جماعت دوستوں کا ذکر کرنا چاہوگا۔ جن دو شخصیات کی آج بات کروں گا ۔ان میں سے ایک ظفر اقبال قادر جو میٹرک میں میرے کلاس فیلو رہے پھر فوج میں کمشنڈ آفیسر بن گئے۔ کپتان کے طور پر فوج چھوڑ کر انہوں نے مقابلے کے امتحان میں سی ایس ایس کر کے ڈی ایم جی گروپ سے ملازمت کا آغاز کیا اور فیڈرل سیکرٹری کے عہدے سے ریٹائرڈ ہوئے۔ انہوں نے زیادہ تر سروس بلوچستان میں کی اور وہاں بہت سارے تعلیمی ادارے قائم کئے ظفر قادر یہ وہ ہستی ہے جسے بلوچستان کا سر سید کہا جاتا ہے۔ انہوں نے بلوچستان بارے کتابیں بھی تحریر کیں۔ اقوام متحدہ نے ان کی بلوچستان میں خدمات حوالے سے اور خصوصی طور پر بچیوں کی تعلیم کے حوالے سے اعلیٰ ترین اعزاز سے نوازا جبکہ حکومت پاکستان نے بھی ستارہ امتیاز دیا۔ دوسرے ڈاکٹر خالد محمود جو ایم بی بی ایس میں پانچ سال تک میرے ہم جماعت اور قریبی دوست رہے۔ وہ ڈاؤ میڈیکل یونیورسٹی سے بطور ڈین آف میڈیسن ریٹائرڈ ہوئے اور آج کل کراچی میں لیڈنگ فیزیشن کے طور پر جانے جاتے ہیں۔ انہیںبھی حکومت پاکستان نےتغمہ حسن کارکردگی سے نوازا جبکہ رائل کالج آف میڈیسن اینڈ سرجری انگلینڈ نے بھی انہیں MRCP میڈیسن کی اعزازی ڈگری دی انہوں نے بھی میڈیسن پر کئی کتابیں تحریر کی ہیں اور سینکڑوں مقالے بھی لکھے۔ ان دونوں دوستوں سے گذشتہ چار دہائیوں سے زائد عرصےسے قریبی رابطہ ہے۔
ظفر اقبال قادر کا آبائی گائوں بھی روہیلانوالی کےقریب ہے۔ خوشی غمی کے علاوہ سروس کے دوران بھی ان سے مسلسل ملاقات اور روابط قائم رہے۔ ہمارے درمیان اکثر سرائیکی میں گفتگو ہوتی ہے اور وہ وٹس ایپ پر بھی سرائیکی شعراء کا کلام بھی اکثر شیئر کرتے ہیں۔ وہ ہمیشہ سوہنا یا سائیں کہہ کر مخاطب کرتے ہیں۔ چند روز قبل مجھے ظفر قادر کا فون آیا کہنے لگے سوہنا کیا کم شروع کر ڈیتے (کیا کام شروع کر دیا ہے) میں نے تو سمجھا ظفر قادر آج میرا مذاق اڑانے لگا ہے۔ میں نے جواب دیا ویلے جو ہے؟ (فارغ جو تھے) پھر اس نے کہا یہی تو تونے اچھا کام کیا ہے اب اسے جاری رکھنا بند نہ کر دینا میں دیر تک سمجھتا رہا کہ ظفر قادر مذاق کر رہا ہے میں مگر کافی دیر باتیں کرنے کے بعد مجھے احساس ہوا کہ ظفر قادرتو تعریف کر رہے ہیں اور میری اس ’’حرکت‘‘ پر بہت خوش ہے۔ اسی طرح ڈاکٹر خالد محمود سے بھی فون پر بات ہوئی۔ وہ ہمیشہ پنجابی میں بات کرتے ہیں اور ہمیشہ چوہدری کی حال اے (چوہدری کیا حال ہے) سےبات شروع کرتے ہیں۔ انہوں نے بھی پرانی یادیں تازہ کی اور کالموں کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ اس ذہنی مشقت کو مستقل بنیادوں پر جاری رکھنا۔ دوران تعلیم سب سے زیادہ یادگار زمانہ پروفیشنل کالج یا یونیورسٹی کادور ہی ہوتا ہے اس دور کی شرارتیں حماقتیں اور دوستیاں زندگی کا سب سے حسین سرمایہ ہوتی ہیں۔بس ’’ یار زندہ صحبت باقی‘‘
