منگل کے روز وفاقی حکومت نے سال 2025 اور 26 کیلئے بجٹ کا اعلان کیا ۔ بجٹ تقریر کے دوران مجھے کسی کام سے تھوڑی دیر کیلئے باہر نکلنا پڑا۔ سڑکیں ویران نظر آئیں۔ ٹریفک کا بہائو انتہائی کم تھا۔ ہو کے عالم کی کیفیت تھی ۔ ایسے محسوس ہورہا تھا کہ پورا ملتان آج کسی خاص مشن پر ہے۔ بالکل ایسا ہی ہونا تھا کہ مہنگائی، غربت ، بیروزگاری کی چکی میں پسی عوام کے اندر ایک امید تھی کہ بجٹ میں حکومت ان کے بنیادی مسائل حل کرنے کیلئے کچھ اعلان کرے گی۔ مگر بجٹ تقریر ختم ہونے کے بعد ہر شخص کے چہرے پر مایوسی نظر آئی۔
سب سے زیادہ پر امید سرکاری ملازمین تھے ۔ بجٹ تقریب سے کچھ دیر قبل خبر سامنے آئی کہ حکومت نے سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں 6 فیصد اضافے کا فیصلہ کیا ہے۔ جس کے تھوڑی دیر بعد وفاقی کابینہ کی میٹنگ میں اس اضافے کو بڑھا کر 10 فیصد کر نے کااعلان کیا گیا ۔ مجھے اس ڈرنے کی سمجھ نہیں آئی۔گو کہ تنخواہوں میں 10 فیصد اونٹ کے منہ میں زیرے کے برابر ہے، ایک جانب تو منتخب اراکین کی تنخواہوں میں 600 فیصد سے زائد اضافہ اور دوسری جانب سرکاری ملازمین جو پہلے ہی پریشان ہیں اُن کے لئے صرف 10 فیصد اضافہ سوشل میں خوب ڈسکس ہو رہا ہے۔
چائے، بچوں کا دودھ، چاکلیٹ اور بیکری آئٹمز کی قیمتیں بڑھا دی گئیں۔ انسولین، ڈینٹل کلینک کے آلات اور اینٹی بائیوٹک ادویات پر بھی ٹیکس لگا دیا گیا۔ میک اپ کا سامان ، کپڑے بھی ٹیکس سے نہ بچ سکے۔ تعمیراتی شعبے کے کا م پر ٹیکسز عائد ہونے کے بعد غریب آدمی کیلئے گھر بنانا مزید مشکل ہو جائے گا۔ ایک اور پریشان کن خبر یہ سامنے آئی کہ حکومت نے سولر پینلز کی درآمد اور آن لائن خریداری پر سیلز ٹیکس 18 فیصد کرنے کی سفارش کی ہے ۔ غریب آدمی کی ماہانہ انکم کا بڑا بوجھ بجلی کے بلوں کی مدمیں پڑ رہا تھا اور ہر شخص اس کی کوشش میں تھا کہ کسی طرح سولر پینل نصب کر کے بجلی کے بلوں سے جان چھڑالے لیکن شاید حکومت یہ نہیں چاہتی تھی آنے والے چند روز کے بعد سولر پینلز کی قیمتوں میں ایک نیا اضافہ دیکھنے کو ملے گا اور بجلی پیداوار میں خود کفیل ہونے کا ’’ عوامی منصوبہ‘‘ ناکام ہو جائے گا۔
متوسط طبقے کیلئے اپنی فیملی کے استعمال کیلئے ایک چھوٹی سی گاڑی کا حصول شاید زندگی کی ایک بڑی خواہش ہوتی ہے لیکن جس طرح سے توقع ظاہر کی جارہی تھی کہ حکومت 800 سی سی گاڑیوں پر ٹیکس عائد کرنے جارہی تھی بالکل اسی طرح سے سیلز ٹیکس عائد ہونے کے بعد گاڑیاں بھی اب صرف امیروں کیلئے ہی رہ جائینگی جبکہ ہائبرڈ گاڑیاں تو پہلے ہی پہنچ سے باہر تھیں اب ان کی قیمت میں 12 لاکھ تک مزید اضافہ ہوگا۔
اس ہومیو پیتھک بجٹ کے بعد روزمرہ استعمال کی اشیا ء میں آنے والے چند روز کے دوران بڑے پیمانے پر اضافہ ہوگا ۔ چینی، دال چنا، مونگ، ماش ، کالے چنے ، باسمتی چاول بھی مہنگے ہوں گے ۔ گو کہ حکومت کی جانب سے کچھ اچھے فیصلے بھی کئے گئے لیکن غریب کیلئے مسائل جوں کے توں ہی رہیں گی۔یہی وہ بجٹ تھا جسے سننے کیلئے عوام سڑکوں پر سفر کرنے کی بجائے ٹی وی اور موبائل فون پر بیٹھے بجٹ تقریر سننے میں مصروف تھے۔ آئی ایم ایف سے منظور شدہ بجٹ میں اس سے زیادہ امیدیں نہیں تھیں۔ تاجر برادری کی جانب سے احتجاج کا عندیہ بھی دیاگیا ہے اور ایسا ممکن ہے کہ آئندہ چند روز بعد تاجرتنظیمیں ایسا کوئی اعلان بھی کر دیں۔
دوسری جانب حکومت کی اتحاد جماعت پاکستان پیپلز پارٹی نے بھی بجٹ پر تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ بجٹ پر بحث13 جون سے قومی اسمبلی میں شروع ہوگی اور حکومت ہر ممکن کوشش کرے گی کہ پیپلز پارٹی کے تحفظات دور کئے جائیں ایسے میں ممکن ہے کہ چند فیصلوں کو تبدیل کر دیا جائے لیکن حتمی فیصلہ تو آئی ایم ایف کا ہی ہوگا۔اس لئے یہ وقت ہے کہ قوم پیروں پر کھڑی ہو۔صنعتیں لگائی جائیں، ایکسپورٹس میں اضافہ کیا جائے۔ کسانوں کوخوشحال کیا جائے تاکہ آئندہ چند سالوں کے دوران پاکستان آئی ایم ایف کے شکنجے سےنکل سکے اور قوم کے مر جھائے چہرے کھل جائیں۔ ان شا اللہ وہ وقت جلد آئے گا جب قوم کو بڑی خوشخبری ملے گی۔ قرضوں کے چنگل سے چھٹکارا ملےگا۔
