آج کی تاریخ

ہولناک سیلاب، پنجاب حکومت کی حکمت عملی کامیاب، نقصان کم، ملتان میں لمحہ لمحہ ما نیٹرنگ

ملتان(میاں غفارسے) اپنی صحافتی زندگی میں پہلی مرتبہ سیلاب کی کوریج میں نے 1988 میں کی جب دریائے راوی میں ستمبر 1988 کے تیسرے عشرے میں آنے والا سیلاب بڑے پیمانے پر تباہی لے کر آیا تھا، پھر اس کے بعد میں نے 2010 میں دریائے سندھ میں آنے والا100 سالہ تاریخ کا سب سے بڑا سیلاب کور کیا جس میں نوشہرہ کے پہاڑوں کی چوٹیاں پانی کی وجہ سے آپس میں مل گئی تھیں اور جب وہ سیلابی پانی کالا باغ کے مقام پر جناح بیراج کو کراس کرکے پہاڑی علاقے سے میدانی علاقوں میں داخل ہوا تو جناح بیراج سے لے کر ہیڈ پنجند، رحیم یار خان اور گڈو بیراج تک 40 سے 50 کلومیٹر کی چوڑائی میں صرف دریا ہی بہہ رہا تھا۔ سینکڑوں آبادیوں کا نام و نشان مٹ چکا تھا اور لاکھوں کی تعداد میں کچے مکانات گر گئے تھے۔ لاکھوں کی تعداد میں لوگ اس سیلاب کی نذر ہو کر کوڑی کوڑی کے محتاج ہو گئے تھے۔ ہزاروں جانور مر چکے تھے اور ان کی باقیات تعفن پیدا کر رہی تھیں۔ ان حالات میں سب سے زیادہ نقصان لیہ، کوٹ ادو، ڈیرہ غازی خان، راجن پور، رحیم یار خان، علی پور، مظفرگڑھ سمیت درجنوں شہروں کا ہوا تھا۔ 1988 کے بعد دریائے راوی میں 37 سال بعد ستمبر 2025ہی کے پہلے عشرے میں کم و بیش اسی قسم کا سیلاب آیا ہے اور یہ سیلاب بیک وقت چناب اور دریائے راوی کے علاوہ دریائے ستلج میں بھی بھارت کی طرف سے بیک وقت بڑی مقدار میں پانی چھوڑ کر پاکستان پر ایک عذاب کی شکل میں بھیجا گیا ہے۔ اس عرصے کے دوران چھوٹے موٹے سیلاب بھی آئے مگر یہ تینوں سیلاب بڑے پیمانے پر تباہی لے کر آئے تھے۔ اگر میں موجودہ سیلاب سے قبل کی صورتحال، سیلاب کے دوران حکومتی اقدامات اور بعد از سیلاب جن علاقوں میں پانی اتر رہا ہے، وہاں ریلیف کے معاملات کا تقابلی جائزہ لوں، حکومت پنجاب نے ناقابل یقین کارکردگی دکھائی اور لاہور سے لے کر رحیم یار خان تک ضلعی، ڈویژنل انتظامیہ، پولیس، محکمہ انہار اور محکمہ صحت سمیت تمام محکموں اور اداروں کے اعلیٰ افسران سے لے کر انتہائی نچلے درجے تک کے ملازم تک ہر اہلکار عوامی خدمت کے لئے فیلڈ میں نظر آ رہا ہے اور لاہور میں قائم فلڈ کنٹرول روم لمحہ لمحہ نہ صرف باخبر ہے بلکہ پہلی مرتبہ کوآرڈینیشن کی ایسی باکمال مثالیں سامنے آ رہی ہیں جو میں نے اس سے پہلے نہ دیکھیں اور نہ سنیں۔ رہا معاملہ ملتان کی ڈویژنل انتظامیہ اور اس کی کوآرڈینیشن کا، تو انہوں نے کمال کی محکمہ جاتی کوآرڈینیشن کا مظاہرہ کیا اور اور یہ اسی کوآرڈینیشن کا نتیجہ ہے کہ تمام تر دباؤ کے باوجود لمحہ لمحہ کی مانیٹرنگ کی وجہ سے ضلع خانیوال کے علاقے عبدالحکیم میں آپس میں ملنے والے تین دریاؤں میں سے دو دریاؤں یعنی چناب اور راوی میں ہائی فلڈ کی صورتحال کے باوجود ہیڈ محمد والا سے دریاؤں کا بپھرا ہوا سیلابی پانی گزر گیا اور ملتان و مظفرگڑھ کی طرف کسی بند کو توڑنا نہ پڑا البتہ عبدالحکیم کے مقام پر مائی صفوراں بند کو اسی جگہ سے توڑا گیا جہاں سے 1988 میں توڑا گیا تھا۔ ملتان کے کمشنر اور ڈپٹی کمشنر آفس میں قائم لمحہ بہ لمحہ کے مانیٹرنگ سیل کی محکمہ انہار اور دیگر محکموں سے ہونے والی کوآرڈینیشن نے دھماکا خیز مواد کی دو مقامات پر تنصیب کے باوجود بند کو ٹوٹنے سے بچائے رکھا اور دو بڑے سیلابی ریلوں کا پانی ہیڈ محمد والا کے مقام سے باآسانی گزر گیا۔ یہ کریڈٹ بہرحال وزیراعلیٰ پنجاب محترمہ مریم نواز شریف کی حکمت عملی کو جاتا ہے کہ اس سیلاب کے پہلے دونوں مرحلوں میں انتظامیہ اور حکومت پنجاب نے کمال کی کامیاب حکمت عملی کا مظاہرہ کیا اور پہلے مرحلے پر 95 فیصد سے زائد لوگوں اور ان کے مویشیوں کو سیلابی پانی کی آمد سے قبل ہی محفوظ مقامات پر منتقل کر لیا۔ یہی وجہ ہے کہ بھارتی پنجاب کی نسبت پاکستانی پنجاب میں جانوروں کی گمشدگی اور اموات بہت کم ہوئی ہیں کیونکہ بھارت سے ہزاروں کی تعداد میں مویشی پانی میں بہہ کر پاکستانی علاقوں میں پہنچے ہیں۔ سیلابی صورتحال کے سروے کے دوران یہ بات خاص طور پر نوٹ کی گئی جہاں سماجی تنظیموں اور مختلف شہریوں نے اپنے طور پر سیلاب زدگان کی خدمت میں دن رات ایک کر دیا ہے۔ کھانا ادویات پانی و دیگر سہولیات میسر کی جا رہی ہیں وہیں پر سرکاری محکمے بھی کسی سے پیچھے نہیں۔ اگر کمشنر ملتان اور آر پی او ملتان گزشتہ ایک ہفتے سے دن رات سیلابی علاقوں میں ریلیف آپریشن میں مصروف ہیں توترقیاتی اداروں کے انجینئرز بھی چٹائیاں ڈال کر بندوں پر بیٹھے حفاظتی پہرے دے رہے ہیں۔ میں بخوبی جانتا ہوں کہ بعض علاقوں کو بچانے کے لیے بعض علاقوں کے حفاظتی بندوں کو توڑنے کا ملتان ڈویژن کی انتظامیہ پر شدید دباؤ تھا مگر انہوں نے حکومت پنجاب کو اعتماد میں لے کر صرف اور صرف محکمہ انہار کے ایس او پیز کو مدنظر رکھا اور محکمہ انہار کے کنٹرول روم سے جاری ہونے والی ہدایات ہی کو فالو کیا جاتا رہا اور اس طرح سے یہ ادارہ جاتی کوآرڈینیشن کی اعلیٰ ترین مثال ہے جو میں نے اس سے پہلے اپنی زندگی میں نہیں دیکھی اور اس کا براہ راست کریڈٹ وزیراعلیٰ پنجاب کو جاتا ہے کہ انہوں نے ایک مستعد اور متحرک ٹیم ملتان ڈویژن اور اس سے متعلقہ اضلاع میں تعینات کی۔ ملتان ڈویژن میں دریائے راوی، دریائے چناب دریائے جہلم اور پھر دریائے ستلج آکر ملتے ہیں اور اسی طرح ہیڈپنجند پر پانچ دریا اکٹھے ہوتے ہیں جن میں سے پانچواں دریا بیاس ہے جو کہ سوکھ چکا ہے۔ اسی نسبت سے ہیڈ پنجند کا نام رکھا گیا کیونکہ دریائے سندھ میں ہیڈ پنجند کراس کرنے کے بعد یہ دریا شامل ہوتے ہیں۔سیلاب زدگان کے کیمپوں کے دورے کے دوران یہ بات خاص طور پر محسوس کی گئی کہ بعض کیمپوں میں چارپائیوں پر بیٹھی خواتین اور بچوں کے پاس کسی بھی قسم کا کوئی سامان نہیں و محض امدادی سامان اور کھانے کے لیے وہاں بیٹھے ہوئے تھے جن کے بارے انتظامیہ اور مخیر حضرات و تنظیموں کو علم تو ہو ہی جاتا ہے مگر ایسے لوگوں کو بھی سیلاب زدگان کے کھاتے میں امداد اور کھانا مل رہا ہے۔ کس بند کو توڑا جائے اور کب توڑا جائے اس پر پی ڈی ایم اے، محکمہ انہار اور انتظامیہ میں بعض مقامات پر ابہام بھی پایا گیا مگر مجموعی طور پر سیلاب کا بڑا ریلا ہیڈ محمد والا سے گزر گیا جو کہ ڈیزائن کے اعتبار سے سب سے زیادہ خطرے میں تھا۔ جلال پور شہر کی صورتحال زیادہ خراب ہو چکی ہے اور اس تحصیل کا 70 فیصد سے زائد رقبہ سیلابی پانی میں ڈوب چکا ہے جبکہ جلال پور پیر والا کے شہری علاقے بھی سلاب کی زد میں ہیں اور جب شیر شاہ سے سیلابی ریلا جلال پور پہنچے گا پہلے سے ڈوبا ہوا شہر مزید تباہی کا شکار ہو جائے گا جس کا فی الحال کسی ادارے کے پاس کوئی حل نہیں۔

شیئر کریں

:مزید خبریں