ہندوستان میں جیل میں بند معروف سیاسی کارکن عمر خالد نے ایک مشکل راستا اپنے لیے چن لیا ہے۔ انھوں نے اپنی بعد از گرفتاری ضمانت کی درخواست واپس لے لی ہے۔ انھوں نے ہندوستان میں ماتحت عدالتوں میں ہی اپنا مقدمہ لڑنے کا فیصلہ کیا ہے۔ ان کا یہ فیصلہ ہندوستان میں انصاف کی جدوجہد کے طویل ہونے اور بار بار اس کی راہ میں اکثر وبیشتر مذہبی تعصب کے آڑے آ جانے کی حقیقت کو ظاہر کرتا ہے۔ ہندوستان میں آج کل ہندتوا کے فاشزم کے خلاف جدوجہد کرنے والوں کا انصاف کے لیے انتظار کبھی ختم ہونے کا نام نہیں لیتا- ریاستی حکام کو چیلنج کرنے والی منحرف آوازیں جھوٹے الزامات کے تحت مقدمات میں سالہا سال سے جیلوں میں بند ہیں-
خالد عمر جیسا سیاسی و سماجی کارکن جو جواہر لال نہرو یونیورسٹی یں ترقی پسند طلباء سیاست میں سرگرم رہے 2020ء میں دہشت گردی کے الزام کے تحت قائم ایک مقدمے میں گرفتار کیے گئے ایک جھوٹے مقدمے میں گرفتار ہوئے اور ان پر اس طرح کے جھوٹے مقدمے کے اندراج پر ہندوستان ہی نہیں پوری دنیا سے انسانی حقوق کی تنظیموں نے بھارتی حکومت پر تنقید کی- ان پر لگے الزامات کی تائید میں استغاثہ ثبوت کی کمی کا شکار ہے اور حیلے بہانوں سے بار بار مقدمے کی سماعت ملتوی کرائی جاتی ہے۔ اس بار بار کے التواء سے خود ہندوستانی عدالتی نظام انصاف پر سواال اٹھ رہے ہیں۔ سیاسی مقدمات میں جہاں مقدمے کے پیچھے زعفرانی فاشزم کا ہاتھ ہو وہاں پر عدالتیں بھی فیصلہ کرنے سے احتراز کرتی ہیں-
ہندوستان کے مین سٹریم میڈیا کے اکثر سیکشنز کا عمر خالد کے کردار کو منفی طور پر پیش کرنے میں بڑا ہاتھ ہے۔ کسی ٹھوس ثبوت کے اس میڈیائی سیکشن نے عمر خالد کے خلاف سیٹریو ٹائپس سے کام لیا ہے اور کہیں کہیں تو یہ اسلامو فوبیا کا شکار بھی نظر آیا- اس سے عمر خالد کی صورت حال اور پیچیدہ بن گئی ہے۔ ہندوستانی میڈیا خالد عمر کے عالمی دہشت گرد تنظیموں سے روابط کی کہانیاں بناتے ہوئے انہیں کئی ممالک کا سفر کرتے دکھاتا ہوا یہ بھی بھول گیا کہ خالد عمر کا تو پاپسپورٹ ہی نہی؛ں بنا تو وہ بین الاقوامی سفر کیسے کرلیتے۔ لیکن میڈیا پر ایسی بے سروپا کہانیوں سے خالد عمر کے امیج کو جو نقصان پہنچایا جاسکتا تھا وہ پہنچادیا جا چکا تھا- یکہاں تک کہ امریکی معروف دانشور نوم چومسکی نے بھی ان کی رہائی ککا مطالبہ کیا ہے لیکن ان کی یہ آواز صدا بصحرا ثاـت ہوئی ہے۔
یہ صرف ہندوستان میں قید ایک کارکن کی آزادی کی جدوجہد نہیں ہے۔ بلکہ یہ تو ہندوستان کی عدلیہ اور اس کی ترجیحات سے جڑے ایک بڑے مسئلہ کی عکاس ہے۔ سپریم کورٹ آف ہندوستان نے جہاں بہت جرآت مندانہ اور بڑے فیصلے سنائے وہیں اس کا سیاسی اہمیت کے مقدمات کے باب میں ہجکچاہٹ کا شکار ہونا مایوس کررہا ہے۔
دوہزار سترہ میں سپریم کورٹ کا تاریخی فیصلہ، جس کا مقصد سیاست دانوں کو انتخابات جیتنے کے لیے مذہبی اور ذات پات کی شناخت کا استحصال کرنے سے روکنا تھا، صاف ستھری سیاست کی جانب ایک قدم تھا۔ تاہم، سیاست میں مذہبی علامتوں اور بیانیے کا مسلسل استعمال بتاتا ہے کہ اس حکم کو برقرار رکھنے کے لیے مزید بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔
عمر خالد کا کیس ان چیلنجوں کی یاد دہانی ہے جو بھارت میں بولنے کی ہمت رکھنے والوں کو درپیش ہیں۔ یہ عدلیہ کے نہ صرف منصفانہ اور شفاف مقدمہ چلانے کی ضرورت پر زور دیتا ہے بلکہ اسے اس طرح دیکھا جانا بھی ضروری ہے۔ ہندوستان میں جمہوریت اور انصاف کی خاطر، یہ بہت اہم ہے کہ عدالتی نظام غیر جانبداری سے کام کرے، اس بات کو یقینی بنائے کہ تمام شہریوں کو، ان کے سیاسی خیالات سے قطع نظر، انصاف تک مساوی رسائی حاصل ہو۔
الیکشن کمیشن کے راست اقدام اٹھانے کا وقت کب آئیگا؟
پاکستان میں 8 فروری کے عام انتخابات کے خلاف احتجاجی آوازوں کی باز گشت بلند سے بلند ہوتی جارہی ہے۔ ایک غصّہ، بے چینی ہے جو اندر ہی اندر لاوا پکا رہی ہے جو کسی بھی وقت پھٹ کر باہر پھیل سکتا ہے۔ اسے نظر انداز کرنا اب ناممکن لگ رہا ہے۔ اس وقت الیکشن کمیشن پاکستان کی پوزیش اور زیادہ نازک ہوگئي جب پاکستان میں انسانی حقوق کی صورت حال کی نگرانی کرنے والے سب سے موقر ادارے انسانی حقوق کمیشن برائے پاکستان – ایچ آر پی سی نے اس سے انتخابی نتائج کے آڈٹ کرنے کی مانگ کر ڈالی ۔ کمیشن نے انتخابی نتائج کو بادی النظر میں مشکوک قرار دے دیا- شفافیت اور احتساب کی یہ اجتماعی مانگ پاکستان میں جمہوریت کے لیے انتہائی اہم لمحات کے آن پہنچنے کی نشاندہی کررہی ہے۔ الیکشن کمیشن پاکستان کب تک اپنے دروازے پر ہونے والی انصاف کی اس زوردار دستک کو کیسے نظر انداز کرتا رہے گا؟
حالیہ ہونے والی پیش ہائے رفت بلند آہنگ ہیں- جس دن ایک کمشنر انتخابات میں دھاندلی سے نتائج بدلے جانے کا اعتراف ٹی وی پر کرتا ہے تواسی دن انسانی حقوق کمیشن برائے پاکستان انتخابی لائحہ عمل کے ارتباط اور ساکھ دونوں کے گرد سرخ پنسل سے سوالیہ نشان لگا دیتا ہے اور اظہار تشویش کرتا ہے۔ ایچ آر سی پی نے بہت سارے مسائل کی نشاندہی کی جو کہ جمہوری عمل پر اپنے گھمبیر سائے ڈالے ہوئے ہیں- وہ انتہائی گہرے مسائل کی جانب اشارہ کرتا ہے جن کی طرف فوری توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
فری اینڈ فئیر الیکشن نیٹ ورک-فافن نے بھی الیکشن کمیشن پاکستان سے کہا ہے کہ وہ انتخابی نتائج میں پائی جانے والے سقم بارے شکایات کی جلد از جلد تلافی کرے – فافن نے الیکشن کمیشن پاکستان کو انتخابی نتائج کا تھری فیز آڈٹ پراسس کرنے کی تجویز دی ہے۔ یہ بہت ہی جامع اور ٹھوس تجویز ہے اور انتخابی عمل کی ساکھ کو یقینی بنانے کے لیے عملی تجویز بھی ہے۔ صاف نظر آرہا ہے کہ غیرجانبدار مبصرین اور دیکر اسٹیک ہولڈروں میں انتخابی پراسس کے دوران دھاندلی کے الزامات کی تفصیلی جانچ کرانے کی مانگ پر اتفاق رائے بڑھتا جا رہا ہے-
ہمیں یہ بات کرنے میں کوئی عار نہیں ہے کہ پاکستان میں انتخابات میں ہارنے والا امیدوار عمومی طور پر شکست تسلیم نہیں کرتا- اس طرح کی گریز پائی کو معمول سمجھا جاتا ہے۔ لیکن حال ہی میں ہونے والے عام انتخابات میں اتنے بڑے پیمانے پر بے ضابطگیاں سامنے آئی ہیں کا انتخابات کی جانچ کرنے والے آزاد مبصرین بھی فارم 45 کی ازسر نو جانچ کرنے جیسے مطالبات پیش کرنے پر مجبور ہیں- جو شواہد سامنے لائے جارہے ہیں انہیں نظر انداز نہیں کیا جاسکتا- انتخابی قوانین کی خلاف ورزی اور پروسیجر برائے ووٹ شماری اور انتخابی نتائج مرتب کرنے کے پروسس کے دوران خلاف ورزیاں رپورٹ ہوئی ہیں انہوں نے انتخابی عمل پر بھی کالے سائے ڈال دیے ہیں-
اس وقت سب سے بڑا سوال ریٹرننگ افسران کی جانب سے متعدد حلقوں میں فارم 47 پر نتائج مرتب کرتے وقت امیدواروں کے ایجنٹ اور آزاد مبصرین کو کمرے سے باہر نکالے جانے اور مبینہ طور پر مشکوک نتائج مرتب کرنے پر بھی ہر طرف سے سوال اٹھ رہے ہیں- آر اوز پر لگنے والے الزامات کی سنگینی کو دیکھتے ہوئے سوال یہی ذہن میں آتا ہے جہاں ایسا ہوا وہاں عام انتخاب کی کیا قدر و قیمت رہ جائے گی-
فافن کی زیرقیادت آڈٹ کا مطالبہ، جس میں اس پیپر ٹریل کی باریک بینی سے جانچ شامل ہو، صحیح سمت میں ایک قدم ہے۔ آزاد مبصرین اور انتخابی امیدواروں کو آڈٹ میں شرکت کی دعوت دے کر، ای سی پی کے پاس تنازعات کو دور کرنے اور انتخابی عمل میں اعتماد بحال کرنے کا موقع ہے۔ یہ نقطہ نظر نہ صرف قانونی حدود کے اندر ہے بلکہ جمہوریت اور انتخابی سالمیت کے اصولوں کو برقرار رکھنے کے لیے بھی ضروری ہے۔
شفافیت اور احتساب کے ان مطالبات پر ای سی پی کا ردعمل جمہوریت سے اس کی وابستگی کا ثبوت ہوگا۔ کمیشن کو ایک انتخاب کا سامنا ہے: اپنی آزادی پر زور دینا اور منصفانہ کھیل کے اصولوں کو برقرار رکھنا یا جمہوری عمل کو نقصان پہنچانے والے واضح مسائل کو نظر انداز کرنا جاری رکھنا۔ آگے کا راستہ صاف ہے۔ ای سی پی کو انتخابی سالمیت کے محافظ کے طور پر اپنے کردار کو قبول کرنا چاہیے اور 8 فروری کے انتخابات کے بعد سامنے آنے والی شکایات کو دور کرنے کے لیے فیصلہ کن اقدام کرنا چاہیے۔
ایسا کرنے سے، ای سی پی نہ صرف اپنی شبیہ کو چھڑائے گا بلکہ ایک ایسے جمہوری ماحول کو فروغ دینے کے لیے اپنی لگن کا اعادہ بھی کرے گا جہاں عوام کی مرضی کا احترام کیا جائے اور اسے برقرار رکھا جائے۔ اب عمل کا وقت ہے۔ پاکستان کی جمہوریت کی سالمیت کا انحصار اس بات پر ہے کہ اس کے اداروں کی جانب سے چیلنجوں کا مقابلہ کرنے اور شفاف، منصفانہ اور جوابدہ انتخابی عمل کے لیے عزم کا اظہار کیا جائے۔ ای سی پی کے دروازے پر دستک بلند ہوتی جارہی ہے، اور دنیا دیکھ رہی ہے۔ کیا ای سی پی اس سوال کا جواب دے گا؟
یوریا کی قیمت میں اضافہ: زراعت کے لیے ایک بڑا بحران
پاکستان کے زرعی شعبے میں حالیہ پیش رفت ملک میں کاشتکاری کے مستقبل کے لیے ایک سنگین تصویر پیش کرتی ہے۔ جیسے ہی حکومت معاشی چیلنجوں سے نبرد آزما ہے، یوریا درآمد کرنے اور گیس کی قیمتوں کو ایڈجسٹ کرنے کے اس کے فیصلے نے نادانستہ طور پر ایک ایسے بحران کا آغاز کر دیا ہے جس کے ملک کی غذائی تحفظ اور دیہی معیشت پر دور رس اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔پاکستان کی حکومت نے حال ہی میں 225,000 ٹن یوریا درآمد کیا جس کی قیمت پیکنگ اور لاجسٹکس شامل کرنے کے بعد، 6,700 روپے فی بیگ بنتی ہے۔ یہ اقدام مقامی مارکیٹ میں قلت کی وجہ سے ضروری تھا لیکن درآمدی یوریا کی زیادہ قیمت نے حکومت کو مشکل میں ڈال دیا ہے۔ درآمد شدہ یوریا کو اس کی قیمت پر فروخت کرنے یا اس پر کافی سبسڈی دینے سے قاصر، حکومت اب مالی بوجھ مقامی صنعت پر اور توسیع کے ذریعے کسانوں پر ڈال رہی ہے۔کھاد کی صنعت کے لیے گیس کے نئے منظور شدہ نرخوں کی وجہ سے صورتحال مزید خراب ہو گئی ہے، جو یکم فروری سے سابقہ طور پر لاگو کیے گئے تھے۔ یہ فیصلہ صنعت کو پہلے سے فروخت ہونے والی کھاد کی قیمتوں کی وصولی کے لیے یوریا کی قیمتوں میں اضافے پر مجبور کرتا ہے، جس کے اندازے کے مطابق قیمتوں میں تقریباً اضافہ ہو سکتا ہے۔ 1700 روپے فی بیگ۔ اس طرح کے اضافے سے قیمت موجودہ 3,800 روپے سے بڑھ کر 5,500 روپے فی بوری ہو جائے گی، جس سے کسانوں، خاص طور پر چھوٹے ہولڈرز جو پاکستان کی 90 فیصد کاشتکار برادری پر مشتمل ہیں، پر ایک اہم مالی دباؤ پڑے گا۔
ممکنہ قیمتوں میں اضافہ محض قیمتوں میں اضافے کا معاملہ نہیں ہے۔ اس سے پاکستان کے زرعی شعبے کے تانے بانے کو خطرہ ہے۔ بھارت سے صورتحال کا موازنہ کریں، جہاں کھاد کے شعبے کے لیے 24 بلین ڈالر کی سالانہ سبسڈی کی بدولت یوریا 900 روپے فی تھیلا فروخت کیا جاتا ہے، پڑوسیوں کے درمیان زرعی تعاون میں واضح تفاوت کو نمایاں کرتا ہے۔ یہ موازنہ پاکستان کی حکومت کے لیے متبادل حکمت عملی وضع کرنے کی فوری ضرورت پر زور دیتا ہے جو کسانوں کے لیے ان پٹ لاگت میں اس طرح کے زبردست اضافے سے بچیں۔یوریا کی قیمت میں اضافے کے اثرات کاشتکاری پر گہرے ہیں۔ پچھلے سال، کسانوں کو پہلے ہی اہم معاشی دباؤ کا سامنا تھا، گندم کی قیمت 3,900 روپے فی 40 کلوگرام اور یوریا کی قیمت 2,300 روپے فی بوری تھی۔ اگر یوریا کی قیمتیں فصلوں کی قیمتوں میں یکساں اضافے کے بغیر 5,500 روپے تک بڑھ جاتی ہیں، تو بہت سے لوگوں کے لیے ذریعہ معاش کے طور پر کاشتکاری کی مالی قابل عملیت ناقابل ہو جاتی ہے۔ اس صورت حال سے نہ صرف کسانوں کی روزی روٹی بلکہ ملک کی غذائی تحفظ کو بھی خطرہ ہے، کیونکہ زرعی سرگرمیوں میں کمی فصلوں کی کم پیداوار اور خوراک کی قیمتوں میں اضافے کا باعث بن سکتی ہے۔مزید یہ کہ یوریا کی قیمتوں میں اضافہ کاشتکار برادری میں عدم اطمینان کو ہوا دے سکتا ہے۔ حکومت کی جانب سے موجودہ امدادی قیمت پر گندم کی خریداری کے امکان کے ساتھ، کسان خود کو بڑھتی ہوئی لاگت اور رکی ہوئی آمدنی کے ایک شیطانی چکر میں پھنس سکتے ہیں۔ یہ تفاوت شہری بدامنی کا باعث بن سکتا ہے، کیونکہ کسان بڑھتے ہوئے چیلنجنگ معاشی ماحول میں اپنے انجام کو پورا کرنے کے لیے جدوجہد کرتے ہیں۔حکومت کو اس آنے والے بحران کی شدت کو پہچاننا چاہیے اور اس کے اثرات کو کم کرنے کے لیے فوری اقدام کرنا چاہیے۔ سبسڈی کی فراہمی، گیس کی قیمتوں پر نظر ثانی، یا کھاد کے متبادل ذرائع کی تلاش سے قیمتوں میں متوقع اضافے اور اس کے پاکستان کی زراعت کے لیے تباہ کن نتائج کو روکنے میں مدد مل سکتی ہے۔ عمل کرنے میں ناکامی نہ صرف زرعی شعبے کو بحران میں ڈال سکتی ہے بلکہ ملک کی غذائی تحفظ اور سماجی استحکام کو بھی خطرے میں ڈال سکتی ہے۔