آج کی تاریخ

میرا قائد عمران خان فوجی آپریشن کیخلاف تھا، ہم بھی اس کے خلاف ہیں،نو منتخب وزیر اعلیٰ خیبرپختونخوا محمد سہیل آفریدی-میرا قائد عمران خان فوجی آپریشن کیخلاف تھا، ہم بھی اس کے خلاف ہیں،نو منتخب وزیر اعلیٰ خیبرپختونخوا محمد سہیل آفریدی-ایران کا غزہ امن کانفرنس میں شرکت سے انکار، "اپنے عوام پر حملہ کرنے والوں کے ساتھ نہیں بیٹھ سکتے"، ایرانی وزیرِ خارجہ-ایران کا غزہ امن کانفرنس میں شرکت سے انکار، "اپنے عوام پر حملہ کرنے والوں کے ساتھ نہیں بیٹھ سکتے"، ایرانی وزیرِ خارجہ-سپر ٹیکس کیس کی سماعت میں ججز اور وکلا کے درمیان دلچسپ تبادلہ خیال-سپر ٹیکس کیس کی سماعت میں ججز اور وکلا کے درمیان دلچسپ تبادلہ خیال-پاکستان اسٹاک ایکسچینج میں شدید مندی، کے ایس ای-100 انڈیکس 4 ہزار پوائنٹس گر گیا-پاکستان اسٹاک ایکسچینج میں شدید مندی، کے ایس ای-100 انڈیکس 4 ہزار پوائنٹس گر گیا-نیتن یاہو کی ہٹ دھرمی: غزہ میں دوبارہ فوجی کارروائی کا اشارہ-نیتن یاہو کی ہٹ دھرمی: غزہ میں دوبارہ فوجی کارروائی کا اشارہ

تازہ ترین

ہندوستان بہار کے مسلمان: اے خاصۂ خاصانِ رسل اب وقت دعا ہے

اکیسویں صدی کی تیسری دہائی کے وسط میں ہندوستان کی سیاست ایک ایسے موڑ پر آ پہنچی ہے جہاں مذہب، قومیت اور سیاست کے درمیان کی حدیں پوری طرح دھندلا گئی ہیں۔
خاص طور پر ریاست بہار، جو کبھی قومی اتحاد، جمہوریت اور ترقی پسند سیاست کی علامت سمجھی جاتی تھی، اب ہندو انتہا پسندی اور مسلم دشمنی کے بیانیے کی نئی تجربہ گاہ بنتی جا رہی ہے۔ ستمبر سے شروع ہونے والی فرقہ وارانہ کشیدگی اور مسلم مخالف مہمات نے ایک بار پھر یہ ثابت کیا ہے کہ ہندوستانی جمہوریت کی روح زخمی ہے — اور اس زخم سے خون بہا کر بھی اقتدار کی پیاس نہیں بجھائی جا رہی۔
عید میلاد النبی ﷺ کے موقع پر اتر پردیش کے شہر کانپور میں “I Love Muhammad (PBUH)” کے ایک روشن بورڈ کو آگ لگا دی۔ یہ بورڈ کسی اشتعال کا سبب نہیں تھا، بلکہ عقیدت کا اظہار تھا۔ مگر ہندؤ فسطائیوں نے اسے “نئی روایت” قرار دے کر نفرت کی آگ بھڑکا دی۔ چند گھنٹوں میں ریاست بھر میں جھڑپیں، گرفتاریوں، انٹرنیٹ بندش اور پولیس تشدد کے مناظر سامنے آئے۔ بریلی میں نمازِ جمعہ کے بعد دو ہزار سے زائد مظاہرین اور پولیس کے درمیان جھڑپیں ہوئیں، اکیاسی افراد گرفتار کیے گئے، اور ایک بار پھر وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے مسلمانوں کو “شرپسند عناصر” قرار دے کر انہیں عبرت کا نشان بنانے کی دھمکی دی۔
یہ کوئی نیا منظرنامہ نہیں۔ یوگی آدتیہ ناتھ کے زیرِ سایہ اتر پردیش پچھلے کئی برسوں سے نفرت کا لیبارٹری بنا ہوا ہے — جہاں مسلمانوں کی عبادت گاہیں نشانہ بنتی ہیں، ان کے مذہبی شعائر کو جرم بنا دیا جاتا ہے، اور ان کے وجود کو ریاستی مشینری کے ذریعے مشتبہ ٹھہرایا جاتا ہے۔
بہار اور اتر پردیش کی یہ لہر محض مقامی سطح پر نہیں بلکہ پورے ہندوستان میں نفرت کی سیاست کا نیا ایندھن بن رہی ہے۔
وزیر اعظم نریندر مودی کی سیاسی حکمتِ عملی عرصۂ دراز سے مذہبی انتہاپسندی کے محور پر استوار ہے۔ جب بھی معاشی بحران بڑھتا ہے، جب بھی نوجوانوں میں بے روزگاری کی شرح عروج پر پہنچتی ہے، یا جب بھی حکومتی پالیسیوں کی ناکامی عوامی بحث کا حصہ بنتی ہے، تو بی جے پی کی مشینری ایک نیا مذہبی تنازعہ پیدا کر دیتی ہے تاکہ عوام کی توجہ اصل مسائل سے ہٹ جائے۔
پچھلے برس پاکستان کے ساتھ مئی کی مختصر جنگ میں ہونے والی ناکامی نے مودی حکومت کو سیاسی طور پر کمزور کیا تھا، لہٰذا اب اس کمزوری کا مداوا مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیزی کے ذریعے کیا جا رہا ہے۔
بہار میں ہونے والے آئندہ انتخابات سے پہلے جس طرح مذہبی کشیدگی کو ہوا دی جا رہی ہے، اس سے صاف ظاہر ہے کہ ہندوتوا کی سیاست کا زوال قریب آنے کے باوجود اس کا زہر مزید گہرا ہو رہا ہے۔ بھارت کی سیاسی تاریخ میں یہ پہلی بار نہیں کہ نفرت کو ووٹ کے لیے استعمال کیا جا رہا ہو، لیکن موجودہ عہد میں یہ نفرت ریاستی سرپرستی کے ساتھ مسلط کی جا رہی ہے۔
انڈیا ہیٹ لیب (India Hate Lab) کی رپورٹ کے مطابق 2024 میں ہندوستان میں نفرت انگیز تقاریر اور جرائم کی تعداد 1,165 رہی — جو پچھلے سال کی نسبت تقریباً دوگنا ہے، اور ان میں 98.5 فیصد مسلمانوں کے خلاف تھیں۔ یہ اعداد و شمار کسی صحافتی سنسنی خیزی کا حصہ نہیں بلکہ ایک جیتی جاگتی حقیقت ہیں کہ بھارت کی سیاست اب مذہبی تعصب کے گرد گھومتی ہے۔
گزشتہ دہائی میں ہندوستانی سماج اور ریاست دونوں کی ساخت میں ایک خطرناک تبدیلی رونما ہوئی ہے۔ ہندوتوا بیانیے کے تحت تاریخ کی کتابوں میں مغل بادشاہوں کے تذکرے مٹا دیے گئے، مساجد کے ناموں کو تبدیل کیا گیا، اکبر اور شاہجہان جیسے حکمرانوں کو “غاصب” قرار دیا گیا، اور ہندو اساطیر کو مسخ کرکے اور اس کے کچھ کرداروں کو فقط ہندؤ مذہب کے ہیرو بناکر اس مسخ تاریخ کو قومی تاریخ کے طور پر پیش کیا گیا۔ اسکولوں کے نصاب، ثقافتی ادارے، حتیٰ کہ تہوار اور تاریخی عمارتیں — سب کچھ اب سیاسی ایجنڈے کے تابع ہیں۔
دیوالی، ہولی، عید اور کرسمس جیسے تہوار جو کبھی رنگا رنگ ثقافتی ہم آہنگی کی علامت تھے، اب فرقہ وارانہ تشدد کے مواقع بن چکے ہیں۔ تاج محل جیسے عالمی ورثے کو “ہندو مندر” قرار دینے کی کوششیں اسی نفسیاتی جنگ کا حصہ ہیں جس کا مقصد مسلمانوں کے تاریخی، ثقافتی اور تمدنی وجود کو مٹا دینا ہے۔
بہار کے مسلمانوں کے لیے یہ وقت آزمائش کا ہے۔ وہ قوم جس نے ہندوستان کی تحریکِ آزادی میں سب سے زیادہ قربانیاں دیں، جس کے قائدین — مولانا ابوالکلام آزاد، حسین احمد مدنی، شبلی نعمانی، سید سلیمان ندوی — نے سیکولر ہندوستان کا خواب دیکھا تھا، آج اسی ہندوستان میں اپنے ایمان کے اظہار پر بھی مجرم بنائے جا رہے ہیں۔ وہ عوام جنہوں نے گاندھی اور نہرو کے ہندوستان پر یقین کیا تھا، اب ایک ایسی ریاست کے رحم و کرم پر ہیں جو سوامی وویکانند کے نظریات کے بجائے ساورکر اور گولوالکر کے تعصب کو اپنی بنیاد بنا چکی ہے۔
یہ صورتحال صرف مسلمانوں کے لیے خطرناک نہیں بلکہ ہندوستانی جمہوریت کے مستقبل کے لیے ایک المیہ ہے۔ جب کسی ملک میں شہریوں کو مذہب کی بنیاد پر تقسیم کر دیا جائے، جب تاریخ کو مسخ کر کے نفرت کو تعلیم کا حصہ بنا دیا جائے، اور جب اقلیتوں کو روزگار، تعلیم، رہائش اور مذہبی آزادی سے محروم کر دیا جائے، تو وہ ملک جمہوری نہیں رہتا بلکہ ایک انتہا پسند ریاست میں بدل جاتا ہے۔
ایسے میں حیرت نہیں کہ ہندوستان کا عالمی تاثر بھی زوال پذیر ہے۔ کبھی گاندھی اور نہرو کے ہندوستان کو ’’دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت‘‘ کہا جاتا تھا، آج اسے ’’دنیا کی سب سے بڑی منافقت‘‘ کہا جا رہا ہے۔ دنیا بھر کے انسانی حقوق کے ادارے بھارت میں مسلمانوں، عیسائیوں، اور دلتوں پر بڑھتے ہوئے حملوں پر تشویش کا اظہار کر رہے ہیں۔ مگر نئی دہلی کی حکومت ہر تنقید کو ’’ملک دشمن سازش‘‘ کہہ کر مسترد کر دیتی ہے۔
یہ وہی ریاست ہے جہاں کبھی صوفیاء اور سنتوں کے کلام میں ’’وحدت‘‘ گونجتی تھی، اور آج وہی سرزمین ’’دشمنی‘‘ کے نعرے سے لرز رہی ہے۔ ایسے میں بہار کے مسلمانوں کے لیے یہی پیغام ہے کہ وہ اپنی شناخت، اپنے ایمان، اور اپنی بقا کے لیے دانائی، اتحاد اور سیاسی شعور کے ساتھ کھڑے ہوں۔ ان کی لڑائی محض ووٹ یا اقتدار کی نہیں، بلکہ وجود اور وقار کی جنگ ہے۔
ہندوستان کی اپوزیشن جماعتوں، خاص طور پر کانگریس، آر جے ڈی، اور دیگر سیکولر جماعتوں پر اب بھاری ذمہ داری ہے کہ وہ اس خطرناک بیانیے کے مقابلے میں خاموشی نہ اختیار کریں۔ اگر وہ سچ میں جمہوریت، سیکولرازم اور انسانی برابری پر یقین رکھتی ہیں تو انہیں کھل کر مسلمانوں، دلتوں اور دیگر اقلیتوں کے حق میں آواز اٹھانی ہوگی۔ ورنہ آنے والا وقت صرف مسلمانوں کے لیے نہیں بلکہ پورے ہندوستان کے لیے ظلمت کا استعارہ بن جائے گا۔
آج جب بہار کے مسلمان اپنی تاریخ کے ایک نازک موڑ پر کھڑے ہیں، تو ان کے دلوں میں شاید وہی دعا گونجتی ہو جو مولانا الطاف حسین حالی نے سرکارِ دو عالم ﷺ کے حضور پیش کی تھی:
اے خاصۂ خاصانِ رسل، وقت دعا ہے امت پہ تری آ کے عجب وقت پڑا ہے
یہ دعا آج صرف بہار کے مسلمانوں کی نہیں، بلکہ پوری امتِ مسلمہ کی زبان پر ہونی چاہیے۔ کیونکہ بھارت میں مسلمانوں پر ہونے والا ظلم کسی ایک خطے کا نہیں بلکہ عالمی ضمیر کا امتحان ہے۔ اگر دنیا نے اس ظلم پر خاموشی اختیار کیے رکھی تو تاریخ یہ گواہی دے گی کہ ہم نے ایک اور نسل کو نفرت کی بھینٹ چڑھنے دیا۔
اس وقت ضرورت ہے کہ ہندوستان کے روشن خیال طبقات، صحافی، اساتذہ، طلبہ اور عدلیہ کے ارکان اٹھ کھڑے ہوں۔ کیونکہ اگر نفرت کی یہ آگ بجھائی نہ گئی تو یہ صرف بہار کے مسلمانوں کو نہیں بلکہ پورے ہندوستانی معاشرے کو جلا کر راکھ کر دے گی۔
دنیا کے ہر جمہوری ضمیر کو اب یہ فیصلہ کرنا ہوگا کہ وہ نفرت کے ہندوستان کے ساتھ کھڑا ہے یا انسانیت کے ہندوستان کے ساتھ۔ بہار کے مسلمان اب بھی امید رکھتے ہیں کہ کبھی وہ صبح ضرور آئے گی جب محبت کی روشنی نفرت کے اندھیروں کو چیر دے گی — اور تب شاید اقبال کا یہ شعر ایک بار پھر سچ ہو جائے:
ہزار خوف ہو لیکن زباں ہو دل کی رفیق یہی رہا ہے ازل سے قلندروں کا طریق

شیئر کریں

:مزید خبریں