طارق قریشی
دنیا بھر میں ہر ملک کا اپناعدالتی نظام ہوتا ہے۔یہ نظام ملک کے آئین و قانون کے ساتھ ساتھ ہر ملک کے معروضی حالات کے تحت قائم ہوتا ہے۔ انسانی تاریخ میں ہر معاشرے میں عدالت اور منصف کا ذکر ملتا ہے۔ عدالتی فیصلوں پر تاریخ کے اپنے فیصلے ہوتے ہیں۔ سقراط کو زہر کا پیالہ پینے کی سزا ہو یا امام حسین کو باغی قرار دینے کا فیصلہ منصف کا اپنا فیصلہ ہوتا ہے اور تاریخ کا اپنا فیصلہ، ہر دور میں عدالتوں کی ضرورت ہوتی ہے اور اہمیت بھی ،ماضی قریب میں ہر قانون وزیراعظم چرچل کے حوالے سے عدالتوں کے کردار اور ان کی اہمیت بارے بیان کو عدالتوں کے حوالے سے دنیا بھر میں ایک خوب المثل کی حیثیت حاصل ہے۔ جنگ عظیم دوئم کے درمیان جرمن فضائیہ کے برطانیہ پر باالعموم اور لندن شہر پر بالخصوص ہوائی حملے اس شدت سے جاری تھے کہ ملک بھر میں زندگی کا نظام درہم برہم ہوگیا تھا۔ اس ماحول میں جب چرچل سے صحافیوں نے سوال پوچھا کہ برطانیہ کا کیا مستقبل ہے؟ چرچل نے جواب دیتے ہوئے پوچھا کہ کیا ملک میں عدالتیں کام کر رہی ہیں۔ صحافیوں نے جواب دیا کہ مشکلات کے باوجود عدالتیں تو کام کر رہی ہیں۔ چرچل نے کہا کہ اگر عدالتیں کام کر رہی ہیں تو پھر برطانیہ کو کچھ نہیں ہو سکتا۔ عوام کو ہر حالت میں انصاف ملنا چاہئے۔ اگر عدالتیں عوام کو انصاف دے رہی ہیں تو نہ برطانیہ کو کچھ ہو سکتا ہے نہ ہی عوام کو کسی قسم کی پریشانی یہ تو بات تھی برطانیہ کی جہاں بدترین حالات میں بھی عدالتیں کام کر رہی تھیں ، عوام کو انصاف مل رہا تھا اس لئے طویل ترین جنگ میں برطانیہ بھی قائم رہا عدالتیں بھی انصاف مہیا کرتی رہیں عوام بھی مطمئن رہے۔
قیام پاکستان کے بعد پاکستان میں عدالتی نظام انگریز حکمرانوں کے بنائے گئے قوانین کے مطابق ہی کام کرتا رہا آج بھی جب کہ ملک کے متفقہ منظور شدہ 1973کے آئین کے مطابق ملک ایک اسلامی جمہوریہ ہے مگر عدالتی نظام آج بھی انگریز حکمرانوں کے بنائے گئے قوانین کےتحت ہی کام کر رہا ہے۔ ملک میں چھوٹی عدالتوں میں یعنی سول جج ا ور سیشن جج کی عدالتوں سے لیکر ہر صوبہ میں عدالت عالیہ اور پھر ملک بھر کی سب سے بڑی عدالت عدالت عظمیٰ موجود ہے۔ گزشتہ ستر سال میں ہر سطح پر عدالتوں کی تعداد عدالت عالیہ کے مختلف شہروں میں نئے بنچ بننے کے ساتھ ساتھ ججز کی تعداد میں بھی بڑا اضافہ کیا گیا ہے۔ ہماری عدالتیں بھی میڈیا میں آنے والی خبروں کے مطابق دن ہو یا رات انصاف مہیا کر رہی ہیں۔ عدالت عظمیٰ آدھی رات کے بعد کھل جاتی ہے انصاف پہ مبنی فیصلے بھی ہوتے ہیں۔ عدالت عالیہ میں بھی کبھی قید میں موجود ملزم کو سزا یافتہ ہونے کے باوجود علاج کے لئے باہر جانے کی اجازت تیز رفتاری سے مل جاتی ہے تو کبھی ملزم کی ضمانت کے لئے منصف انتظار میں بیٹھے رہتے ہیں۔ عدالتی وقت ختم ہو جاتا ہے۔ ملزم نہیں پہنچتا مگر انصاف کی خاطر منصف عدالت میں موجود رہتا ہے۔ پل پل کی رپورٹ ملتی رہتی ہے۔ ملزم گھر سے نکل گیا ہے۔ راستے میں ہے۔ عدالت کے دروازے پر پہنچ گیا ہے۔ پیدل اندر نہیں آسکتا۔ گاڑی عدالت کے اندر آنے دی جائے آخر ملزم حاضر ہوتا ہے اور منصف انصاف مہیا کرنے کے بعد گھر واپس چلا جاتا ہے۔ انصاف کی فراہمی میں ان سہولتوں کو دیکھتے ہوئے یہ بھی ممکن ہے کہ مستقبل میں ہماری عدالتیں ملزمان کو حاضری کےلئے Drive through کی سہولت بھی مہیا کردیں آخر انصاف کی راہ میں رکاوٹ تو نہیں ہونی چاہئے۔ مگر یہ ساری سہولتیں ہماری عدالتوں میں عام آدمی کو بھی مل سکتی ہیں۔ فوری انصاف اور بروقت انصاف کی یہ سہولت ہم جیسے عام آدمی کےلئے ممکن نہیں۔ قانون کی نظر میں ہر پاکستانی برابر ہوگا۔ مگر عدالتی انصاف کے حصول میں ایسا نہیں ہے۔ خاص آدمیوں کےلئے خاص انصاف فوری اور بغیر کسی رکاوٹ کے عام آدمی کےلئے خواری طویل انتظار کے بغیر حصول انصاف ممکن ہی نہیں۔
اعلیٰ عدالتوں میں اس وقت سینکڑوں ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں مقدمات زیر التوا ہیں۔ خبروں کے مطابق ہمارے ملک میں یہ بھی ہوا کہ اعلیٰ عدالتوں سے جب ملزم کی رہائی کے احکامات جاری ہوئے تو علم ہوا کہ ملزم جیل میں انتقال کرگیا ہے۔ ایک آدھے کیس میں تو یہ بھی ہوا کہ ملزم رہائی کے احکامات سے پہلے ہی پھانسی پر چڑھا دیا گیا۔ ایک عام پاکستانی کو حصول انصاف کی خاطر کس قدر انتظار اور کتنا خوار ہونا پڑتا ہے۔ حال ہی میں ایک سادہ سے کیس کی روداد بغیر کسی تبصرے کہ آپ کے سامنے رکھتا ہوں۔ آپ کو اندازہ ہو جائے گا کہ ہم عوام کےلئے حصول انصاف کتنا بھیانک خواب ہے۔ 2010 کے سال میں جون اور اگست کے مہینے میں محکمہ متروک وقف املاک(E.P.T.B) نے ماڈل ٹائون ملتان میں واقع116 کمرشل پلاٹوں کا نیلا عام کیا۔ نیلامی کے بعد محکمہ کے بورڈاور اس کے چیئرمین نے باضابطہ منظوری دےدی۔ ان پلاٹوں کا خریدار حضرات کو قبضہ دینے کےلئے ملتان ترقیاتی ادارے کو باقاعدہ خط بھی ارسال کردیا۔ دو دن کے بعد چیئرمین وقف املاک نے کسی شکایت کی بنا پر قبضہ دینے سے روکنے کا حکم جاری فرما دیا۔ خریداروں کو قبضہ دینے سے روک دیا گیا مگر خریداروں کو کسی قسم کی نہ معلومات دی گئیں اور نہ ہی کوئی کارروائی۔ تنگ آکر مختلف خریداروں نے ہائیکورٹ ملتان بنچ میں درخواستیں دائر کردیں۔ ملتان بنچ میں جسٹس عباد الرحمان لودھی نے خریداروں کے حق میں فیصلہ دیتے ہوئے فوری قبضہ کا حکم مورخہ16-12-2013 کو جاری کردیا۔ متروکہ وقف محکمہ نے اس حکم کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل دائر کردی۔
سپریم کورٹ کے فاضل جج صاحبان نے کچھ ہدایات کے ساتھ اپیل واپس ملتان بنچ میں بھیج دی کہ دوبارہ سماعت کے بعد فریقین کو تفصیل سے سن کر نیا فیصلہ جاری کردیا۔ یہ فیصلہ12-06-2014 کو جاری کیا گیا۔ ہائی کورٹ ملتان بنچ میں کیس مذکورہ کی دوبارہ سماعت ہوئے14-03-2014 کو ملتان بنچ کے فاضل جج جناب عباد الرحمان لودھی نے دوبارہ تفصیلی فیصلہ جاری کرتے ہوئے فوری طور پر خریداروں کو قبضہ دینے کا حکم جاری کردیا۔ اس فیصلے کے خلاف ایک بار پھر وقف املاک محکمہ نے عدالت عظمیٰ میں اپیل دائر کردی۔ اپیل کے نتیجے میں عدالت عظمیٰ نے خریداروں کو اپیل کے فیصلے تک کسی کارروائی سے روک دیا۔2014سے لے کر21021 تقریباً آٹھ سال سے ٓزائد عرصہ یہ اپیل عدالت عظمیٰ میں اپنی باری کا انتظار کرتی رہی۔116 پلاٹوں کے خریدار اپنے کروڑوں روپے ایک سرکاری محکمہ کو ادا کرنے کے باوجود انتظار کی اذیت برداشت کرتے رہے۔ نومبر2021 کو عدالت عظمیٰ کے چیف جسٹس جناب عمر عطا بندیال اورجناب جسٹس سجاد علی شاہ پر مشتمل بینچ نے ایک بار پھر خریدار حضرات کو فوری قبضہ دینے کے احکامات جاری کئے مگر خریدار حضرات کی آزمائش کے دن ابھی باقی تھے۔ عدالت میں فیصلہ سنا دیا گیا مگر تحریری فیصلہ جاری ہونے میں نو ماہ کا مزید عرصہ لگا۔11-08-22 کو تحریری فیصلہ جاری ہوا خریدار حضرات کی منزل ابھی بھی دور تھی۔ محکمہ نے ایک بار پھر نظر ثانی کی اپیل عدالت عظمیٰ میں دائر کردی۔14-02-2023ج کو عدالت عظمیٰ میں اس نظر ثانی کا فیصلہ بھی خریدار حضرات کے حق میں ہوگیا۔ اس طرح تیرہ سال بعد خریدار حضرات کو انصاف مل گیا۔ اس سے آپ خود اندازہ لگائیں کہ ہماری عدالتیں عام آدمی کو کس رفتار سے انصاف مہیا کر رہی ہیں۔ عام آدمی اور خاص آدمی کے انصاف میں کیا فرق ہے۔