آج کی تاریخ

ہارون دو راستہ لو

تحریر؛طارق قریشی

ملک عزیز میں اگر آپ کسی بھی ہائی وے پر سفر کر رہے ہیں تو بسوں اور ٹرکوں کے پیچھے بڑے معنی خیز جملے لکھے نظر آئیں گے یہ جملے جہاں ایک طرف ہمارے ثقافتی اور معاشرتی طرز زندگی کی عکاسی کر رہے ہوتے ہیں تو دوسری طرف فوک وزڈم کا بھر پور اظہار کرتے نظر آتے ہیں۔ ایسا ہی ایک جملہ جو سب سے زیادہ آپ کو ٹرکوں اور بسوں کے پیچھے لکھا نظر آئے گا وہ ہے ’’ ہارن دو راستہ لو‘‘ اب اس چار حرفی جملے میں معنی کا ایک جہاں چھپا ہے یہی میرے آج کے اس کالم کا عنوان اور وجہ تحریر ہے۔ ہارن دو راستہ لو سے مراد پیچھے آنے والوں کو یہ باور کرانا ہے کہ اگر آپ آگے جانا چاہتے ہیں تو پھر آپ کو درخواست کرنا ہوگی اب آپ اگر اپنی گاڑی پر بیٹھ کر آگے نکلنا چاہتے ہیں تو اس کام کے لیے آپ کو ہارن بجا کر درخواست دینا ہوگی تب ہی اگلی گاڑی والا اس درخواست پر سڑک کی ٹریفک کی صورتحال کے مطابق آپ کو راستہ دے دیگا۔ اگر دیکھا جائے تو ہمارے معاشرے میں اس وقت ہر طرف یہی صورتحال نظر آ رہی ہے ہر کوئی آگے نکلنا چاہ رہاہے مگر آگے نکلنے کے لیے پہلے سے آگے موجود افراد یا اداروں کو درخواست کرنا ضروری ہے ورنہ نہ راستہ ملے گا نہ ہی منزل پر پہنچنے کا امکان ہو گا۔ اس وقت سیاست کے میدان میں خاص طور پر یہ صورتحال نظر آتی ہے ہر سیاسی جماعت اپنی منزل مقصود پر پہنچنے کی جلدی میں ہے مگر ہر قدم پر راستہ بلاک ہے ور مطالبہ ایک ہی ہے کہ ہارن دو راستہ لو۔ تحریک انصاف اور اس کا کپتان جلد از جلد واپس اقتدار میں آنا چاہتے ہیں مگر حکومت انہیں راستہ دینے کے لیے تیار نہیں گزشتہ ایک سال سے تحریک انصاف نے ہر طرح کے ہارن اور بھونپو بجا کر راستہ لینے کی ہر ممکن کوشش کر لی سریلا ہارن بھی بجا لیا کان پھاڑ دینے والی آواز والا بھونپو بھی بجا لیا مگر حکومت نے اپنے کانوں پر ایسا ہیڈ فون چڑھایا ہوا ہے کہ اسے باہر سے کوئی آواز ہی سنائی نہیں دے رہی تنگ آ کر کپتان نے خطرناک طریقے سے آگے نکلنے کی بھی کوشش کر کے دیکھ لی اس میں کپتان کی گاڑی کو بھی نقصان ہوا کچھ سواریوں کو جان سے بھی ہاتھ دھونے پڑے تو کچھ سواریاں شدید زخمی بھی ہو گئیں مگر کپتان کی گاڑی کو کسی نے راستہ نہیں دیا۔ غصہ میں آ کر کپتان نے اپنی گاڑی کے دو ٹائر ہی گاڑی سے علیحدہ کر دیئے اب غصہ میں کی گئی اس “حرکت” سے کپتان کی گاڑی چلنے ہی سے معذور ہو گئی ہے اور یہ گاڑی زمان پارک لاہور میں پارک ہے نئے سے نئے ہارن لگا کر راستہ مانگا جارہا ہے مگر بغیر ٹائروں کے یہ گاڑی فی الحال آگے جاتی نظر نہیں آرہی۔ اس ساری صورتحال میں تنگ آ کر کپتان کے کچھ سابقہ دوستوں اور کچھ نئے دوستوں نے دائیں بائیں موجود گاڑیوں سے مدد طلب کرنے کا سوچا اور منصوبہ یہ بنایاگیا کہ سب مل کر ہارن بجاتے ہیں تاکہ اتنی بلند آواز پیدا ہو اور حکومت راستہ دینے پر مجبور ہو جائے۔ سب دوست تو جمع ہو بھی گئے اپنی اپنی گاڑیاں بھی لے آئے مگر حکومت ٹس سے مس ہوتی نظر نہیں آ رہی۔ ایسا لگتا ہے کہ حکومت کو مکمل اعتماد ہے کہ ان کی گاڑی بھی مضبوط ہے انجن بھی بہترین حالت میں ہے اور ٹائر بھی نئے اس لیے ابھی کسی اور گاڑی کو راستہ دینے کی ضرورت ہی نہیں کھلی سڑک پر فراٹے بھرتے ہوئے سفر جاری رکھا جائے اپنے مقررہ وقت پر ہی منزل پر پہنچنا ہے۔ اس ساری کھینچا تانی میں کپتان نے آخر مجبور ہو کر عدالتی گاڑی پر سوار ہو کر آگے نکلنے کا منصوبہ تیار کیا۔ زنانے مردانے تعلق نکالے گئے عدالتی گاڑی میں خصوصی بندوبست کرانے کے لئے بھی ہاتھ پاوں مارے گئے تاکہ کپتان کی کوئی جگہ بن سکے گاڑی میں سوار بھی ہو گئے عدالتی گاڑی نے فوری طور پر پریشر ہارن بجاتے ہوئے راستہ مانگا مگر حکومت اس بار اپنی گاڑی کے حوالے سے اس قدر پراعتماد نظر آرہی ہے کہ اس نے پریشر ہارن کی آواز پر بھی کوئی کان نہیں دھرے۔ اب صورتحال یہ ہے کہ راستہ دینا تو درکنار عدالتی گاڑی کا راستہ ہی مکمل طور پر بلاک کرنے کا منصوبہ تیار کر لیا گیا۔ بظاہر یکدم صورتحال اس نہج پر پہنچ گئی کہ عدالتی گاڑی اور حکومتی گاڑی میں تصادم کا خطرہ پیدا ہوگیا حکومتی گاڑی راستہ دینے کو قطعاً تیار نہیں جبکہ عدالتی گاڑی اور اس کے ڈرائیور بھی ہر صورت میں آگے جانے پر تلے ہوئے نظر آئے اس ساری صورتحال میں ہائی وے پر ٹریفک کنٹرول کرنے والے بھائی لوگ حرکت میں آئے کسی کو تیز رفتاری سے پرہیز کا مشورہ دیا تو کسی کو خطرناک ڈرائیونگ ترک کرنے کا مشورہ ہر گاڑی کے مالک اور ڈرائیور کو ایک دوسرے کا ہارن سن کر سڑک اور ٹریفک کے مطابق راستہ دینے کا مشورہ ساتھ ساتھ حادثہ کی صورت میں سب کو پہنچنے والے نقصان سے بھی آگاہ کیا گیا۔ مشورہ یہ بھی دیا گیا کہ نہ حکومتی گاڑی سے عدالتی گاڑی کا تصادم ہونا چاہئے نہ ہی سڑک پر ایک ہی گاڑی کا مکمل قبضہ ہو البتہ راستہ سب کو دینا چاہئے۔ راستہ کیسے دینا ہے کس نے کس کا ہارن کب سننا ہے اس کے لیے سب مل کر فیصلہ کرلیں لگتا ہے ٹریفک کنٹرول کرنے والے بھائیوں کا مشورہ سب کو سمجھ آ گیا ہے اور ہارن بجنے کسی حد تک بند ہو گئے ہیں مگر کتنی دیر تک، یہ دیکھنا ہوگا مگر یہ طے ہے کہ اب پھر سے سب کو سمجھ آ گیا ہے کہ راستہ لینے کے لیے ہارن ہی دینا ہوگا نہ عدالتی گاڑی پر سوار ہو کرآگے جاسکتے ہیں نہ خطرناک ڈرائیونگ کے ذریعے۔

شیئر کریں

:مزید خبریں