آج کی تاریخ

ہائبرڈ بیانیے کی حقیقت: دعوے، سوالات اور خدشات

حالیہ دنوں میں ملکی سیاست اور معیشت کے منظرنامے پر ایک نیا بیانیہ تیزی سے ابھرتا نظر آ رہا ہے: کہ پاکستان میں قائم موجودہ “ہائبرڈ نظام” زمینی حقائق سے ہم آہنگ ہو کر حکمرانی کے ہر شعبے — بالخصوص خارجہ پالیسی اور معیشت — میں نمایاں کامیابیاں حاصل کر رہا ہے۔ الیکٹرانک میڈیا، اخبارات اور تھنک ٹینکس میں اس بیانیے کو پذیرائی مل رہی ہے، اور اس کے حق میں شواہد کے طور پر بعض خارجی اور اقتصادی پیش رفتوں کا حوالہ دیا جا رہا ہے۔تاہم، ایک سنجیدہ تجزیہ اس بیانیے کے بعض دعووں پر سوال بھی اٹھاتا ہے، اور یہ سوالات محض تنقید برائے تنقید نہیں، بلکہ حقیقت پر مبنی وہ خدشات ہیں جو اگر نظر انداز کیے گئے، تو یہ وقتی کامیابیاں پائیدار ترقی میں تبدیل نہیں ہو پائیں گی۔حکومتی مؤقف کے مطابق پاکستان کی خارجہ پالیسی میں نمایاں بہتری آئی ہے، بالخصوص مغربی ممالک کے ساتھ تعلقات میں۔ اس تناظر میں سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی قیادت میں پاک امریکہ تعلقات کی بحالی، بھارت کے ساتھ جنگ بندی کا قیام، اور چیف آف آرمی اسٹاف فیلڈ مارشل عاصم منیر کو دی گئی وائٹ ہاؤس کی دعوت جیسے اقدامات کو “سفارتی کامیابیاں” قرار دیا جا رہا ہے۔ مزید برآں، وزیر اعظم شہباز شریف کی جانب سے ٹرمپ کو نوبل انعام کے لیے نامزد کرنا ایک خیر سگالی کا اشارہ سمجھا گیا، اگرچہ اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو کی جانب سے اسی قسم کی نامزدگی نے اس اقدام کی داخلی معنویت کو دھندلا دیا۔تاہم، سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ تمام سفارتی کامیابیاں کس حد تک دیرپا اور حقیقی مفادات سے جڑی ہیں؟ کیا ان تعلقات کی بحالی، پاکستان کی خارجہ پالیسی کی مکمل خودمختاری کی عکاسی کرتی ہے یا محض بڑی طاقتوں کے بدلتے ہوئے مفادات کے ساتھ چلنے کی مجبوری؟ ٹرمپ حکومت کی روس، چین، اور ایران مخالف پالیسیوں کے تناظر میں پاکستان کا ان طاقتوں کے ساتھ متوازن تعلق برقرار رکھنا ایک چیلنج بنا ہوا ہے، بالخصوص جب خطے میں امریکی-اسرائیلی اتحاد کے اثرات بڑھتے جا رہے ہیں۔اسی تناظر میں آرمینیا-آذربائیجان امن معاہدے کی حمایت پر بھی سوال اٹھتے ہیں، جو واشنگٹن ڈی سی میں طے پایا اور جس کے نتیجے میں “زنگیزور کاریڈور” امریکہ کو 99 سال کے لیے لیز پر دے دیا گیا — ایک ایسی پیش رفت جسے ایران اور روس سخت نظر سے دیکھ رہے ہیں۔ پاکستان کو ایسے حساس معاملات پر محتاط اور مکمل مشاورت کے بعد ہی پوزیشن اختیار کرنی چاہیے، ورنہ خطے میں اس کی سفارتی پوزیشن کمزور ہو سکتی ہے۔جہاں تک معیشت کی بات ہے، ہائبرڈ بیانیے کا سب سے کمزور پہلو یہی معلوم ہوتا ہے۔ حکومتی دعویٰ ہے کہ امریکی تجارتی معاہدے کے تحت برآمدات پر محصولات میں کمی ہوئی ہے، اور ملک کو علاقائی سطح پر ایک فائدہ مند مقام حاصل ہوا ہے۔ تاہم، اس دعوے کا حقیقت سے میل کم ہی نظر آتا ہے۔ برآمدات پر محصولات میں 29 فیصد سے 19 فیصد کی کمی کوئی غیرمعمولی کامیابی نہیں، خاص طور پر جب اس میں بھی صرف امریکہ شامل ہے، جبکہ خطے کے بڑے ممالک — چین اور بھارت — نے اب تک اس قسم کے کسی معاہدے کو قبول نہیں کیا۔مزید یہ کہ امریکہ کی جانب سے جس براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری -ایف ڈی آئی کا وعدہ کیا گیا تھا، وہ تاحال زمین پر نظر نہیں آتی۔ 2024-25 میں ایف ڈی آئی کا حجم صرف 1.8 ارب ڈالر رہا، جو کہ گزشتہ سال کے 1.96 ارب ڈالر سے کم ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ پورٹ فولیو سرمایہ کاری میں منفی 650.9 ملین ڈالر کا انخلا بھی تشویشناک ہے۔اسپیشل انویسٹمنٹ فسیلیٹیشن کونسل” -ایس آئی ایف سی کی تشکیل کے دو سال بعد بھی مطلوبہ سرمایہ کاری کی عدم دستیابی اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ محض ادارہ جاتی اصلاحات سے نتائج حاصل نہیں ہوں گے جب تک بنیادی معروضی مسائل — سیاسی غیر یقینی، پالیسی کی تسلسل کی کمی، اور قانونی پیچیدگیاں — کو حل نہ کیا جائے۔علاوہ ازیں، معیشت میں استحکام کی موجودہ حکمت عملی کا مرکز صرف مہنگائی میں کمی اور کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کو قابو میں رکھنا ہے، لیکن ان اقدامات کی قیمت پر جو غربت اور بے روزگاری کی شکل میں عوام کو ادا کرنی پڑ رہی ہے، وہ تباہ کن ہے۔ عالمی بینک کے مطابق پاکستان میں غربت کی شرح 44.2 فیصد ہو چکی ہے جبکہ بے روزگاری کی شرح 22 فیصد تک جا پہنچی ہے۔ یہ اعداد و شمار نہ صرف خطرے کی گھنٹی ہیں بلکہ آئندہ معاشرتی بے چینی اور بدامنی کے خدشات کو بھی جنم دیتے ہیں، جو آئی ایم ایف پروگرام کے استحکام کو بھی خطرے میں ڈال سکتے ہیں۔حکومت کی معاشی ٹیم آئی ایم ایف پروگرام پر عملدرآمد کو اپنی کامیابی قرار دیتی ہے، لیکن یہ پروگرام نہ غریب دوست ہے اور نہ ہی ترقی پسند۔ سخت مالیاتی پالیسی کے تحت ڈسکاؤنٹ ریٹ 21 فیصد سے کم کر کے 11 فیصد کر دیا گیا ہے، مگر یہ شرح اب بھی کاروبار اور سرمایہ کاری کے لیے حوصلہ شکن ہے۔ اسی طرح مالیاتی پالیسی میں ٹیکس نظام کی اصلاح کی بجائے بالواسطہ ٹیکسوں کا دائرہ مزید بڑھا دیا گیا ہے، جس کا بوجھ کم آمدنی والے طبقات پر زیادہ پڑتا ہے۔یہ سب اس وقت ہو رہا ہے جب ملک کے زرمبادلہ کے ذخائر محض 14.5 ارب ڈالر پر رہ گئے ہیں اور 16 ارب ڈالر کے قرضے صرف رول اوور پر چلائے جا رہے ہیں — ایک ایسا ماڈل جو نہ پائیدار ہے اور نہ قابل اعتماد۔ہائبرڈ نظام کے بیانیے میں کچھ مثبت پیش رفتیں ضرور موجود ہیں، بالخصوص خارجہ محاذ پر کچھ وقتی سفارتی کامیابیاں۔ لیکن ان کامیابیوں کو بنیاد بنا کر پورے نظام کو کامیاب قرار دینا قبل از وقت اور غیر سنجیدہ ہوگا، خاص طور پر جب اقتصادی اور سماجی میدان میں حقیقی بہتری کے آثار معدوم نظر آ رہے ہوں۔اب وقت ہے کہ حکومت اپنی پالیسیوں کو محض بیانیاتی کامیابیوں سے نہیں، بلکہ زمینی حقائق سے پرکھے۔ داخلی اصلاحات، ٹیکس اصلاحات، تعلیم، صحت، اور روزگار کے شعبوں میں فوری اور سنجیدہ اقدامات کی ضرورت ہے، ورنہ معاشرتی دباؤ اور مایوسی اس “ہائبرڈ کامیابی” کو ایک عارضی سراب میں بدل سکتے ہیں۔یہ عوامی جذبات کا وہ “پریشر کُکر” ہے جس کا ڈھکن اگر جلد نہ ہٹایا گیا، تو نتائج نہ صرف نظام کے لیے بلکہ ریاست کے استحکام کے لیے بھی خطرناک ہو سکتے ہیں۔

شیئر کریں

:مزید خبریں