پاکستان میں گیس کا شعبہ ایک عرصے سے ریاستی اجارہ داری، انتظامی پیچیدگیوں اور پالیسی جمود کی زنجیروں میں جکڑا ہوا ہے۔ مسابقتی کمیشن آف پاکستان (سی سی پی) کی حالیہ رپورٹ نے نہ صرف مائع قدرتی گیس (ایل این جی) کے شعبے میں مقابلے کی صورتحال کو بے نقاب کیا ہے بلکہ اس اہم بحث کو بھی زندہ کر دیا ہے جسے برسوں سے نظرانداز کیا جاتا رہا: کیا ہمارا گیس کا موجودہ بند اور اجارہ داری پر مبنی نظام ملک کی توانائی ضروریات کے لیے موزوں ہے؟ یا وقت آ چکا ہے کہ ہم اس پرانی عمارت کو گرا کر ایک شفاف، کھلی اور مسابقتی منڈی کی بنیاد رکھیں؟
یہ سوال معمولی نہیں۔ اس کا تعلق صرف درآمدی گیس یا چند کمپنیوں سے نہیں بلکہ پاکستان کی معاشی بقاء، توانائی تحفظ اور صنعتی ترقی سے جڑا ہوا ہے۔
پاکستان کا گیس کا شعبہ بنیادی طور پر سوئی ناردرن گیس پائپ لائنز لمیٹڈ (ایس این جی پی ایل) اور سوئی سدرن گیس کمپنی (ایس ایس جی سی) کے گرد گھومتا ہے۔ یہ دونوں کمپنیاں نہ صرف گیس کی ترسیل اور تقسیم کی مکمل اجارہ دار ہیں بلکہ پائپ لائن نیٹ ورک کی مکمل ملکیت بھی رکھتی ہیں۔ ایک وقت میں یہ ’’ورٹیکلی انٹیگریٹڈ ماڈل” (یعنی ایسا نظام جس میں ایک ہی ادارہ پیداوار سے لے کر صارف تک تمام مراحل پر قابض ہو) مؤثر سمجھا جاتا تھا — جب ملک میں پالیسی ہم آہنگی، وسائل کی کمی اور تکنیکی صلاحیت کی ضرورت تھی — لیکن آج یہی ماڈل ترقی کی راہ میں ایک بڑی رکاوٹ بن چکا ہے۔
نئے سرمایہ کار، چاہے مقامی ہوں یا بین الاقوامی، جب گیس کے شعبے میں داخل ہونا چاہتے ہیں تو انہیں پیچیدہ لائسنسنگ، ناقابلِ پیش گوئی قیمتوں کے تعین کی پالیسیاں، اور بنیادی ڈھانچے تک محدود رسائی جیسے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس صورتحال میں “مقابلے” کا مطلب ہی ختم ہو جاتا ہے — کیونکہ میدان میں صرف ایک کھلاڑی ہے، جو خود ریفری بھی ہے اور کھلاڑی بھی۔
دلچسپ امر یہ ہے کہ پاکستان کا گیس سیکٹر کبھی ایسا نہیں تھا۔ 1954 میں جب سوئی گیس ٹرانسمیشن کمپنی (ایس جی ٹی سی) قائم ہوئی، تو اس کا ماڈل ایک متحرک، کاروباری ذہن رکھنے والا اور بین الاقوامی تعاون پر مبنی تھا۔ بین الاقوامی بینکوں اور مقامی اداروں کی سرمایہ کاری سے 347 میل طویل پائپ لائن نے کراچی کو سوئی سے جوڑا — یہ ایک انقلابی قدم تھا۔ یہ کمپنی کراچی اسٹاک ایکسچینج پر درج بھی تھی، جس کا مطلب ہے کہ شفافیت، احتساب اور عوامی شمولیت موجود تھی۔
وقت کے ساتھ ایس جی ٹی سی کو دیگر کمپنیوں کے ساتھ ضم کر کے 1989 میں سوئی سدرن گیس کمپنی (ایس ایس جی سی) کی شکل دی گئی، یہ سوچ کر کہ اداروں کا ادغام ترقی کا ضامن ہے۔ افسوس کہ یہ استحکام جمود میں بدل گیا، اور آج ہمارا گیس نظام اسی جمود کا شکار ہے۔
سی سی پی کی رپورٹ واضح طور پر “ان بنڈلنگ” (یعنی ادارہ جاتی علیحدگی) کی بات کرتی ہے — یعنی ترسیل (Transmission) اور تقسیم (Distribution) کو فروخت اور مارکیٹنگ کے کاروبار سے علیحدہ کرنا۔ اس کا مقصد ریاستی اثاثوں کی نجکاری نہیں بلکہ شفافیت، مقابلے، اور صارف کے مفاد کو اولین حیثیت دینا ہے۔ جب پائپ لائن کی ملکیت اور اس کے استعمال کا نظام علیحدہ ہو جائے، تو مختلف کمپنیاں ایک ہی انفرا اسٹرکچر استعمال کر سکتی ہیں، اور صارفین کو بہتر، سستی اور متنوع خدمات حاصل ہو سکتی ہیں۔
یہ ماڈل دنیا کے کئی ترقی یافتہ ممالک میں کامیابی سے اپنایا جا چکا ہے۔ جاپان کی مثال ہمارے لیے خاص اہمیت رکھتی ہے۔ جاپان نے 1995 سے بتدریج اپنی گیس مارکیٹ کو آزاد کرنا شروع کیا۔ 2015 کے گیس بزنس ایکٹ اور 2022 تک قانونی علیحدگی کے مکمل نفاذ نے وہاں گیس کا شعبہ نہ صرف زیادہ شفاف بنایا بلکہ قیمتوں میں کمی اور صارف کی سہولت میں نمایاں بہتری آئی۔
پاکستان میں اس ماڈل کو اپنانے کے لیے ضروری ہے کہ تیل و گیس ریگولیٹری اتھارٹی آرڈیننس (اوگرا آرڈیننس) میں ضروری ترامیم کی جائیں، تیسرے فریق کو رسائی کے قواعد (تھرڈ پارٹی ایکسیس رولز) پر مؤثر عملدرآمد کیا جائے، اور تمام منظوریوں کے لیے ایک کھڑکی کے تحت سہولت نظام (ون ونڈو آپریشن) نافذ کیا جائے۔ حکومت کا کردار ایک کھلاڑی کے بجائے ایک منصف کا ہونا چاہیے — جو منڈی کے اصول بنائے، ان کی نگرانی کرے، اور سب کو برابر مواقع دے۔








