آج کی تاریخ

گولڈن جوبلی اور آئین پاکستان کی کہانی

تحریر : طارق قریشی

10 اپریل 2023 آئین پاکستان کی گولڈن جوبلی کا جشن منایا گیا۔ تاریخی اعتبار سے یہ پاکستان کا تیسرا آئین ہے جسے 10 اپریل 1973 کو اس وقت کی قومی اسمبلی نے متفقہ طور پر منظور کیا تھا۔ کسی رکن نے بھی اس کے خلاف ووٹ نہیں دیا تھا۔اگست1947 میں ہندوستان اور پاکستان کو برطانوی حکمرانوں نے ایک ایکٹ کے تحت آزادی دی تھی اس ایکٹ کے تحت باضابطہ آئین بننے تک ریاست کی سربراہی برطانوی حکومت کے زیر نگرانی رہے گی۔ ریاست کا سربراہ گورنر جنرل کہلائے گا جس کی تقرری کی قانونی منظوری ملکہ برطانیہ سے لینی ہو گی۔ ہندوستانی سیاسی قائدین نے دو سال کے قلیل عرصے میں ہی باضابطہ آئین بنا لیا اس طرح1949 میں ہندوستان ایک خود مختار جمہوری ریاست بن گیا۔ پاکستان میں پہلے قائداعظم کے انتقال بعد میں لیاقت علی خان کے قتل نے ملک میں سیاسی عدم استحکام پیدا کر دیا۔ غیر جمہوری عناصر نے اس عدم استحکام کا بھر پور فائدہ اٹھایا اس وقت کی مضبوط اسٹیبلشمنٹ نے گورنر جنرل کے عہدے پر اپنے نمائندے ملک غلام محمد کو بٹھا دیا۔ گورنر جنرل کے عہدے کے ذریعے وزیراعظم کے عہدے کو ایک مذاق بنا دیا کبھی کسی سرکاری افسر کو تو کبھی امریکہ میں موجود سفیر کو برآمد کرکے وزیراعظم کے عہدے پر بٹھا کر اسمبلی ممبران سے اس کی منظوری بھی دلوا دی گئی۔ اس سارے گھنائونے کھیل کے باوجود پاکستان کے سیاسی اکابرین نے حسین شہید سہروردی کی قیادت میں اکٹھے ہو کر1956 میں باضابطہ آئین اسمبلی سے منظور کرالیا۔ ابھی اس آئین کی سیاہی خشک نہ ہوئی تھی کہ ملک میں پہلا مارشل لاء لگا دیا گیا۔ ایوب خان جسے بڑے عرصے سے اس کام کے لیے تیار کیا جارہا تھا فوجی حکمران کے طور پر ریاست و حکومت کے سربراہ بن گئے۔ امریکہ پاکستان کو روس کے خلاف فرنٹ لائین سٹیٹ کے طور پر استعمال کرنا چاہتا تھا اس کام کے لیے اسے پاکستان میں ایک فوجی ڈکٹیٹر کی ضرورت تھی پاکستان کے ابتدائی ایام میں ہی ایوب خان کو اس مقصد کے لیے چن لیاگیا۔ پہلے جونیئر ہونے کے باوجود ترقی دلائی گئی بعد میں ٹھیک وقت کے انتظار میں ملازمت کی مدت میں بار بار توسیع دلوائی گئی ۔ آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کی بیماری ابتدا ہی سے اس ملک میں لاحق ہو گئی تھی۔ پہلے باضابطہ آئین کی منسوخی اور ماشل لا ءکے نقاد کے بعد ایوب خان کو فوجی جنرل کے بجائے سیاستدان بننے کا شوق ہوا۔ پہلے اپنی سیاسی پارٹی بنائی بعد میں اپنی ذات کو مرکز بناتے ہوئے 1962 میں پاکستان میں دوسرا آئین نافذ کرا دیا۔ بنیادی جمہوریت کے نام پر اس آئین میں طاقت کا منبع صدر کی ذات یعنی ایوب خان ہی تھی۔ اسی آئین کے تحت ایوب خان نے ملک میں الیکشن کرائے 1962 کے آئین کے تحت ہونے والے ان انتخابات میں ایوب خان کے مقابلے میں حزب اختلاف کی مشترکہ امیدوار محترمہ فاطمہ جناح سامنے آئیں۔ مشرقی پاکستان کے ساتھ ساتھ کراچی میں فاطمہ جناح تمام دھاندلی کے باوجود کامیاب رہیں لیکن ایوب خان نے دھونس دھاندلی کے ساتھ آخری نتائج میں اپنے آپ کو کامیاب قرار دلوالیا۔ اس دھونس اور دھاندلی نے مشرقی پاکستان میں اسٹیبلشمنٹ کے خلاف نفرت کے وہ بیج بوئے جس کا اختتام علیحدگی پر ہوا اور مشرقی پاکستان بنگلہ دیش بن گیا۔ ایوب خان بھی اپنے خود ساختہ آئین سے اپنے آپ کو عوامی نفرت سے نہ بچا سکا۔ عوامی نفرت کے ہاتھوں اقتدار سے محروم ہونا پڑا اپنے ہی بنائے آئین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے نئے انتخابات کے لیے اقتدار قومی اسمبلی کے سپیکر کے حوالے کرنے کے بجائے ملک میں ایک بار پھر مارشل لا نافذ کر دیا گیا۔ یحییٰ خان نے آئین منسوخ کرتے ہوئے ملک میں ون یونٹ کا بھی خاتمہ کر دیا مغربی پاکستان میں چار صوبے جبکہ مشرقی پاکستان پانچویں صوبہ کے طور پر پاکستان میں پانچ صوبے قائم کر دیئے گئے۔1971 میں انتخابات نئی قانون ساز اسمبلی کے طور پر کرائے گئے ان انتخابات نے ملک کو ناقابل اصلاح نقصان سے دوچار کیا مشرقی پاکستان نے علیحدگی اختیار کرلی بنگلہ دیش کی صورت میں ایک آزاد ملک بن گیا۔ اس علیحدگی کی وجوہات آج کے کالم کا موضوع نہیں سو یہ دلخراش داستان پھر کبھی آج بات پاکستان کے آئین تک ہی رہنے دیتے ہیں۔ سقوط مشرقی پاکستان کے بعد دسمبر1971 میں ذوالفقار علی بھٹو نے پاکستان میں اقتدار سنبھالا۔ ابتدا میں انہوں نے چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر کے طور پر حکومت سنبھالی اس طرح دنیا میں وہ واحد بغیر وردی کے چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر بن گئے۔ مغربی پاکستان کے چاروں صوبوں سے منتخب ہونے والے اراکین اسمبلی اب نئے پاکستان کی قانون ساز اسمبلی کے اراکین قرار پائے۔ ذوالفقار علی بھٹو نے فوری طور پر پاکستان کے نئے آئین کی تیاری شروع کر دی آئین سازی کے لیےحزب اقتدار اور حزب اختلاف کے اراکین پر مشتمل کمیٹی تشکیل دی گئی۔ اس اسمبلی میں پاکستان کے تمام سرکردہ سیاسی اکابرین شامل تھے۔ جن میں بڑے نام جناب ولی خان‘ غوث بخش‘ بزنجو‘ عطا اللہ مینگل‘ پروفیسر عبدالغفور‘ مفتی محمود اور شاہ احمد نورانی کے ساتھ دیگر نام بھی تھے۔ مشترکہ کوششوں سے 10 اپریل 1973 کو پاکستان کا تیسرا باضابطہ آئین منظور ہوگیا۔ آئین حزب اختلاف اور حزب اقتدار کے تمام اراکین نے متفقہ طور پر منظور کیا۔ آئین کی منظوری کے ساتھ ہی ذوالفقار علی بھٹو نے اپنا جمہوری چہرہ تبدیل کر دیا پہلے بلوچستان اور پھر خیبرپختونخواہ کی صوبائی حکومتوں کو غیر جمہوری طریقے سے برطرف کیا بعد میں ملک بھر میں حزب اختلاف کے قائدین کے خلاف ناجائز مقدمات بنا کر انہیں سزائیں دلوانی شروع کر دیں۔ یہاں تک کہ عوامی نیشنل پارٹی جسے بلوچستان اور صوبہ خیبرپختونخواہ میں اکثریت حاصل تھی پر پابندی لگا کر ان کے مرکزی قائدین کے خلاف بغاوت کے مقدمات قائم کر دیئے۔ اسی غیر جمہوری ماحول میں بھٹو صاحب 1977 میں نئے انتخابات کا اعلان کرتے ہیں ۔ انتخابات میں دھاندلی کے الزامات پر ملک میں ایک بڑی تحریک کا آغاز ہوتا ہے جس کا اختتام پاکستان میں ایک نئے مارشل لاء پر ہوتا ہے۔ جنرل ضیا الحق اقتدار سنبھالتے ہیں مگر اس بار آئین منسوخ نہیں ہوتا بلکہ معطل ہوتا ہے آئین کی یہ معطلی1986 تک چلتی ہے ۔جب وزیراعظم محمد خان جونیجو آئین کی بحالی کے احکامات جاری کرتے ہیں۔ جنرل ضیاء نے اقتدار سنبھالنے کے بعد پاکستانی عدلیہ سے آئین میں تبدیلی کا اختیار بھی حاصل کرلیا مزے کی بات یہ ہے کہ پاکستان کی اعلیٰ عدالتیں وزیراعظم کو آئین تو کیا عام قانون بھی تبدیل کرنے کی اجازت نہیں دیتیں مگر فوجی جرنل وہ ضیاء الحق ہو یا مشرف انہیں تبدیلی کا ہر بار باضابطہ اجازت مل جاتی۔1986میں آئین بحال ہوا مگر 1999 میں ایک بار پھر جنرل مشرف نے “نقاب پوش” مارشل لاء لگادیا آئین میں من پسند تبدیلی بھی کی اور گیارہ سال اقتدار کے مزے بھی لیے۔ اب جس آئین کی آج گولڈن جوبلی منائی جارہی ہے ان پچاس سالوں میں 23 سال تک ریاست فوجی جرنیلوں کے قبضے میں رہی جبکہ2018 سے 2022 تک ہائبرڈ نظام کے تحت بالواسطہ فوج کی حکمران رہی یہ میرا خیال نہیں خود سابقہ وزیراعظم عمران خان کا اقراری بیان ہے۔ گرتے پڑتے اس تیسرے آئین نے پچاس سال تو پورے کر لیے دیکھنا یہ ہے کہ کیا اس آئین نے پاکستان کے جمہوری تشخص کو بہتر بنانے میں مدد دی۔ آئین کی موجودگی کے باوجود اقتدار اعلیٰ کا اصل مرکز آج بھی اسمبلی سے باہر ہی ہے۔ کبھی کسی ادارے کے پاس تو کبھی لائیک مائینڈڈ منصفوں کے پاس۔ آئین کسی بھی ریاست کے لیے ایک سماجی معاہدہ ہوتا ہے اگر اس کے ذریعے عوام کی حالت میں بہتری نہیں آتی تو پھر گولڈن جوبلی ہو‘ ڈائمنڈ جوبلی یا پھر پلاٹینیم جوبلی عوام کو اس کاغذ کے ٹکڑے سے کچھ لینا دینانہیں۔

شیئر کریں

:مزید خبریں