آج کی تاریخ

گوادر میں خانیوال کے مزدوروں کا قتل

گوادر میں خانیوال کے مزدوروں کا قتل

بلوچستان کے ساحلی ضلع گوادر کے علاقے سربندر میں 9 مئی 2024ء کی صبح کے 3 بجے ایک المناک واقع پیش آیا جب وہاں ایک رہائشی کوارٹر میں نامعلوم مسلح افراد داخل ہوئے اور انہوں نے فائرنگ کرکے 7 افراد کو قتل اور ایک کو زخمی کردیا- گوادر پولیس کے ترجمان کے مطابق قتل ہونے والے 7 افراد میں سے 6 کا تعلق پنجاب کے ضلع خانیوال اور ایک کا تعلق ضلع لودھراں سے ہے اور زخمی ہونے والے کا تعلق خانیوال ضلع کی تحصیل میاں چنوں سے ہے۔ اور یہ سب لوگ پیشہ کے اعتبار سے نائی تھے جو وہاں ایک دکان پر کام کرتے تھے۔
ضلع خانیوال میں محکمہ تعلقات عامہ پنجاب کے دفتر سے جاری پریس ریلیز کے مطابق سانحہ گوادر میں قتل ہونے والے چھے نائیوں کا ایک ہی گھر سے تعلق تھا اور وہ تحصیل کبیروالہ میں شامل ٹاؤن کمیٹی عبدالحکیم کے چک 76 تھراجہ والہ کے گھرانے سے تعلق رکھتے تھے۔
یہ انتہائی المناک واقعہ ہے اور بے دست و پاء نہتے نوجوان مزدوروں کو نشانہ بنایا گیا ہے جس کا کوئی جواز کسی صورت نہیں بنتا –
ہم سمجھتے ہیں کہ بلوچستان میں پنجاب کے شناختی پتا کے ساتھ رہنے والے محنت کشوں کا بلوچستان جیسے جنگ زدہ علاقوں میں بار بار قتل کیا جانا یہ سوال پیدا کرتا ہے کہ جب بلوچستان میں کالعدم مسلح تنظیمیں بلوچستان روزی روٹی کی تلاش میں آنے والوں کا پہلی بار قتل ہوا تھا اور پیغام دیا گیا تھا کہ بندوبست پنجاب سے جو کوئی بلوچستان آئے گا وہ ان تنظیموں کے نشانے پر ہوگا تو وفاقی اور صوبائی حکومتوں نے بلوچستان سے باہر آکر صوبے میں روزی روٹی کمانے والے محنت کشوں کی حفاظت کے لیے ویسے معیاری آپریٹو پروسیجرز /ایس او پیز کیوں نہیں بنائے کئے جیسے بلوچستان میں غیر ملکی مزدوروں کے تحفظ کے لیے بنائے گئے ہیں –
ہم یہ سوال اٹھانے میں حق بجانب ہیں کہ کیا مرکزی حکومت اور صوبائی حکومت کی نظر میں پاکستان کے مزدوروں اور غیر ملکی مزدوروں کی جانیں برابر نہیں ہیں؟
جب بلوچستان کی کالعدم مسلح عسکریت پسند تنظیموں نے پنجاب سے آنے والے محنت کشوں کو قتل کی کھلی دھمکیاں دی ہوئی ہیں اور وہ ان دھمکیوں پر عمل پیرا بھی ہیں تو ان محنت کشوں کو بلوچستان کے بہت سے علاقوں میں بنائے گئے ہائی سیکورٹی زونز میں کیوں نہیں رکھا جاتا جن میں پہلے سے پاکستان کی سویلین و فوجی ایڈمنسٹریشن سے وابستہ لوگوں کے ساتھ ساتھ غیر ملکی مزدور خاص طور پر چینی مزدور بھی رہ رہے ہیں؟
اگر مذکورہ بالا تجویز پر عمل کسی وجہ سے ممکن نہیں ہے تو ان کے لیے الگ سے سیکورٹی زون کیوں ںہیں بنائے جاتے؟ اس مرتبہ بھی گوادر شہر سے قریب قریب 25 کلومیٹر دور سربندر کے علاقے میں جس علاقے میں مسلح افراد داخل ہوکر بہیمانہ جرم کے مرتکب ہوئے وہاں پر سیکورٹی کا سرے سے کوئی انتظام نہیں تھا-
سانحہ سربندر گوادر کو ہم الگ تھلگ رونما ہونے والا واقعہ قرار نہیں دے سکتے۔ اس طرح کے واقعات کی وقتی روک تھام کے لیے جہاں ہنگامی / کانٹی جینسی سیکورٹی پلان کی تشکیل فوری اقدام ہوسکتا ہے۔ اس کا مستقل حل بلوچستان کے دیرینہ اور سب سے پرآشوب مسئلے کے حل میں چھپا ہوا ہے۔
اس وقت بلوچستان کے ساتھ تعلق رکھنے والے جتنے جمہوریت پسند بڑے قد کاٹھ کے سیاست دان ہیں وہ یہ شکوہ کر رہے ہیں کہ: “بلوچستان کی عوام سے حق حکمرانی مسلسل چھینا جا رہا ہے۔ ان کے وسائل ان کی مرضی و منشاء جانے بغیر بانٹے جا رہے ہیں۔ پے در پے بلوچستان کے عوام کی اکثریت کو فوجی آپریشنوں کا سامنا رہا ہے اور اس آپریشن کے دوران مبینہ طور پر ان کے سیاسی، آئینی، قانونی اور شہری حقوق کو بدترین طریقے سے پامال کیا گیا- ماورائے عدالت قتل، جبری گمشدگیاں بلوچ آبادی کے مرد و خواتین کے لیے بڑی اذیت ناک ہیں- بلوچوں کی بہت بڑی تعداد یہ خیال کرتی ہے کہ سی پیک جیسے منصوبوں میں بلوچ عوام کی فعا ل شراکت داری نہیں ہے بلکہ وہ اس کے متاثرہ بنتے جا رہے ہیں۔”
یہ رائے کس قدر حقیقت کے قریب ہے اور کس طرح سے اس صورت حال سے نجات مل سکتی ہے؟ یہ مرکزی اور صوبائی حکومتوں کو سوچنا چاہئيے کہ بلوچستان کے نمائندہ سیاست دان ان کے بارے میں ایسی رائے کیوں رکھتے ہیں-
بلوچستان میں موجود ہر دو اطراف کے تشدد کے خاتمے کے لیے بلوچستان میں ایک حقیقی اور پائیدار جمہوریت کو بحال کرنا ہوگا اور بلوچستان کے اندر سیکورٹی آپریٹس کو آئین و قانون کے دائرے میں رہنے کو یقینی بنانا ہوگا-
ہم یہ بھی سمجھتے ہیں کہ پاکستان کی جمہوری سیاسی جماعتوں کی مرکزی قیادتوں کو ایک میز کے گرد مل بیٹھنے کی اشد ضرورت ہے تاکہ وہ ملک میں عوام کے حکمرانی کے حق کو مکمل طور پر واپس دلوانے کا لائحہ عمل تیار کرنا ہوگا۔ بلوچستان کا مسئلہ سیکورٹی اپریٹس کے زریعے نہ ماضی میں حل ہوا اور نہ ہی اب حل ہوگا اور مستقبل میں بھی یہ حل نہیں ہوگا- سیاسی مسئلے سیاست دان ہی حل کرسکتے ہیں#

مقبوضہ جموں و کشمیر کے انتخابی دنگل سے بی جے پی کا فرار

وزیر اعظم نریندر مودی کی بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) اس سال مقبوضہ کشمیر (آئی او کے) میں انتخابات میں حصہ نہیں لے رہی ہے، جو 1996 کے بعد سے پہلی غیر حاضری ہے۔ نئی دہلی کے کنٹرول کے خلاف طویل عرصے سے جاری آزادی کی تحریک والے خطے میں اصل حریف مقامی جماعتیں، نیشنل کانفرنس اور پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی (پی ڈی پی) ہیں، دونوں ہی بی جے پی کی مخالفت کرتی ہیں اور کانگریس پارٹی کی قیادت والے اپوزیشن کے ساتھ اتحاد بناتی ہیں۔
تجزیہ کاروں اور اپوزیشن کا کہنا ہے کہ بی جے پی کا فیصلہ مودی کے دعووں کے برعکس ہونے کی عکاسی کرتا ہے، جن کا کہنا ہے کہ 2019 میں خطے کی نیم خود مختار حیثیت کو ختم کرنے کے بعد مقبوضہ جموں و کشمیرامن اور انضمام کا منظر پیش کیا گیا تھا۔ بی جے پی بھارت میں دیگر مقامات پر اپنی ہندو-پہلی موقف کے ساتھ طاقت کا مظاہرہ کرتی رہتی ہے۔
مقبوضہ جموں و کشمیرمیں زمینی حقائق، جیسا کہ سابق جموں و کشمیر کے وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ اور دیگر کے مطابق، بی جے پی کے معمول کے دعووں کے برعکس ہیں۔ مودی اپنی پالیسیوں کے خطے کو مستحکم کرنے کا دعویٰ کرتے ہیں اور مستقبل میں معاشی ترقی کا وعدہ کرتے ہیں۔ وزیر داخلہ امیت شاہ تنازعات سے جدیدیت کی جانب ایک تبدیلی پر زور دیتے ہیں، اور کہتے ہیں کہ اب نوجوان لوگ تشدد کے بجائے ٹیکنالوجی کو ترجیح دیتے ہیں۔
ان دعووں کے باوجود، مقبوضہ جموں و کشمیرنے 2019 کے بعد سخت لاک ڈاؤن کا سامنا کیا، جس میں مقامی رہنما، بشمول عبداللہ، مہینوں تک حراست میں رہے۔ بی جے پی کا مقبوضہ جموں و کشمیرکے انتخابات میں امیدواروں کی حمایت کرنا، مگر خود حصہ نہ لینا، کھلے مقابلے کی بجائے حکمت عملی کے احتیاط کی طرف اشارہ کرتا ہے۔
زمینی انٹرویوز مقبوضہ جموں و کشمیرکے رہائشیوں کے درمیان جاری ناراضگی اور الگ تھلگ ہونے کی صورتحال کو ظاہر کرتے ہیں۔ خطہ اب بھی بھاری فوجی موجودگی کے ساتھ مسلح ہے، اور انسانی حقوق کے مسائل اور وقفے وقفے سے تشدد جاری ہے، جو امن اور معمول کی سرکاری کہانی کو چیلنج کرتا ہے۔
وفاقی حکومت کی مقبوضہ جموں و کشمیرحلقہ بندیوں کو دوبارہ ترتیب دینے کی بھی تنقید ہوئی ہے، جس پر مسلم اکثریتی علاقوں کو کمزور کرنے کے لئے ووٹر ڈیموگرافکس کو ہیرا پھیری کرنے کا الزام ہے۔ ان تبدیلیوں کے باوجود، بی جے پی نے براہ راست مقابلہ کرنے کے بجائے دستبردار ہونے کا فیصلہ کیا ہے، جسے کچھ لوگ مقبوضہ جموں و کشمیرکی سیاسی منظرنامے کی چیلنجنگ نوعیت کا اعتراف سمجھتے ہیں۔ یہ اقدام جموں اور لداخ جیسے زیادہ حمایت یافتہ علاقوں میں ان کی فعال مہمات کے ساتھ متضاد ہے۔
کل ملا کر، بی جے پی کی کشمیر میں الیکٹورل حکمت عملی ان کی پالیسیوں کی موثریت اور قبولیت کے بارے میں سوالات اٹھاتی ہے، جو دہائیوں کے تنازعات اور پیچیدہ سماجی-سیاسی تانے بانے والے خطے میں موجود ہیں –

شیئر کریں

:مزید خبریں