آج کی تاریخ

سخی سرور کی تاریخ کا سب سے بڑا لینڈ سکینڈل، اوقاف کی 2 لاکھ 56 ہزار کنال اراضی فروخت-سخی سرور کی تاریخ کا سب سے بڑا لینڈ سکینڈل، اوقاف کی 2 لاکھ 56 ہزار کنال اراضی فروخت-بہاولپور: کارپوریشن ملی بھگت، فلڈ ایریا سمیت مختلف علاقوں میں غیر قانونی ٹاؤنز کی سنچری-بہاولپور: کارپوریشن ملی بھگت، فلڈ ایریا سمیت مختلف علاقوں میں غیر قانونی ٹاؤنز کی سنچری-گندم بحران شدت اختیار کر گیا، کاشتکار برباد، ذخیرہ اندوز آزاد، چھوٹے سٹاکسٹس کی پسائی-گندم بحران شدت اختیار کر گیا، کاشتکار برباد، ذخیرہ اندوز آزاد، چھوٹے سٹاکسٹس کی پسائی-کبیر والا: 25 کروڑ کی گندم سیلاب میں بہنے کا ڈرامہ، 4 شہروں میں تاجروں کو فروخت-کبیر والا: 25 کروڑ کی گندم سیلاب میں بہنے کا ڈرامہ، 4 شہروں میں تاجروں کو فروخت-انسپکٹر طرخ گینگ کی معافیاں و دھمکیاں ساتھ ساتھ، ٹاؤٹ محمد اللہ خان کا تاجر کو سپاری کا پیغام-انسپکٹر طرخ گینگ کی معافیاں و دھمکیاں ساتھ ساتھ، ٹاؤٹ محمد اللہ خان کا تاجر کو سپاری کا پیغام

تازہ ترین

گندم بحران شدت اختیار کر گیا، کاشتکار برباد، ذخیرہ اندوز آزاد، چھوٹے سٹاکسٹس کی پسائی

ملتان (عوامی رپورٹر) ملک بھر میں سرکاری طور پر رواں سال گندم کی خریداری نہ ہونے کے باعث کے پی کے میں آٹے اور گندم کا بحران پیدا ہو گیا ہے جبکہ کاشتکار کو برباد اور کنگال کرنے کے بعد اب حکومت بڑے بڑے ذخیرہ اندوزوں کو چھوڑ کر چھوٹے چھوٹےسٹاکسٹوں پر چھاپے مار کر ان کی زندگی تنگ کر رہی ہے اور ان کی محفوظ کردہ گندم پر چھاپے مارے جا رہے ہیں جبکہ شوگر مل مافیا اور ایل ڈی سی نامی غیر ملکی کمپنی جس نے لاکھوں ٹن گندم خریداری کرکے سٹاک کر رکھی ہے اس کی طرف کسی کی کوئی توجہ نہیں اور نہ ہی ان کے کرائے پر حاصل کردہ گوداموں پر کسی بھی حکومت کو چھاپہ مارنے کی جرات ہو سکی ہے۔ روزنامہ قوم نے جو معلومات حاصل کی ہیں ان کے مطابق پاکستان میں سرکاری سطح پر گندم کا سٹاک نہ ہونے کے برابر ہے۔ صرف پاسکو کے پاس 2.2 ملین ٹن گندم موجود ہے جبکہ پنجاب کا محکمہ خوراک اس سال ایک بوری گندم بھی خرید نہیں سکا جس کی وجہ سے صوبے بھر کا کاشت کار برباد اور کنگال ہو گیا۔ پاکستان اور بھارت جو کہ ایک ہی وقت میں آزاد ہوئے، کا گندم کے حوالے سے اگر تقابلی جائزہ لیا جائے تو گزشتہ 78سال کے دوران ایک مرتبہ بھی بھارت میں گندم کی قلت پیدا نہیں ہوئی اور اس سال بھی فوڈ کارپوریشن آف انڈیا کی طرف سے 30 ملین ٹن سے زائد گندم خرید کی گئی ہے۔ گندم کے حوالے سے پاکستان کی وفاقی حکومت اور صوبائی حکومتوں کے پاس مارچ 2024 کے بعد سے خریداری کا کوئی ڈیٹا ہی موجود نہیں ہے اور نہ ہی یہ تصدیق ہو رہی ہے کہ پاکستان میں صوبائی و مرکزی حکومتوں کے پاس کتنی گندم سٹاک میں پڑی ہے جبکہ پچھلے سال کے اعداد و شمار کے مطابق پاسکو اور چاروں صوبائی حکومتوں کی کل ملا کر پانچ ملین ٹن گندم کی ملک میں موجودگی کا دعویٰ کیا گیا تھا جبکہ اسی سٹاک سے گزشتہ ڈیڑھ سال کے دوران ملک بھر کی ضروریات کے لیے استعمال بھی کی جا چکی ہے۔ افسوسناک امر یہ ہے کہ بھارت کی آبادی تو پاکستان کے مقابلے میں پانچ تقریبا ًساڑھے پانچ گنا زیادہ ہے مگر سرکاری سطح پر بھارت میں گندم کا سٹاک پاکستان کے مقابلے میں ایک محتاط اندازے کے مطابق سات سے آٹھ گنا زیادہ ہے۔ رواں سال وفاقی حکومت اور پنجاب حکومت کی بروقت خریداری کے حوالے سے پالیسی نہ بننے کی وجہ سے گندم کا زمیندار تباہ و برباد ہو گیا اور مرکزی و صوبائی حکومتوں کی طرف سے یہ فیصلہ ہی نہ ہو سکا کہ گندم کی خریداری کے حوالے سے پالیسی کیا بنائی جانی ہے۔ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ کاشت کار نے جو گندم 2 ہزار روپے فی من بیچی تھی اس وقت حکومت وہی گندم چھوٹے سٹاک ہولڈروں سے قبضے میں لے کر تین ہزار روپے میں فلور ملوں کو جاری کر رہی ہے جبکہ کے پی کے میں گندم اور آٹے کا شدید وہ بحران پیدا ہو رہا ہے جبکہ پنجاب کی طرف سے کے پی کے کو آٹے اور گندم کی سپلائی روکی جا چکی ہے۔

شیئر کریں

:مزید خبریں