آج کی تاریخ

میرا قائد عمران خان فوجی آپریشن کیخلاف تھا، ہم بھی اس کے خلاف ہیں،نو منتخب وزیر اعلیٰ خیبرپختونخوا محمد سہیل آفریدی-میرا قائد عمران خان فوجی آپریشن کیخلاف تھا، ہم بھی اس کے خلاف ہیں،نو منتخب وزیر اعلیٰ خیبرپختونخوا محمد سہیل آفریدی-ایران کا غزہ امن کانفرنس میں شرکت سے انکار، "اپنے عوام پر حملہ کرنے والوں کے ساتھ نہیں بیٹھ سکتے"، ایرانی وزیرِ خارجہ-ایران کا غزہ امن کانفرنس میں شرکت سے انکار، "اپنے عوام پر حملہ کرنے والوں کے ساتھ نہیں بیٹھ سکتے"، ایرانی وزیرِ خارجہ-سپر ٹیکس کیس کی سماعت میں ججز اور وکلا کے درمیان دلچسپ تبادلہ خیال-سپر ٹیکس کیس کی سماعت میں ججز اور وکلا کے درمیان دلچسپ تبادلہ خیال-پاکستان اسٹاک ایکسچینج میں شدید مندی، کے ایس ای-100 انڈیکس 4 ہزار پوائنٹس گر گیا-پاکستان اسٹاک ایکسچینج میں شدید مندی، کے ایس ای-100 انڈیکس 4 ہزار پوائنٹس گر گیا-نیتن یاہو کی ہٹ دھرمی: غزہ میں دوبارہ فوجی کارروائی کا اشارہ-نیتن یاہو کی ہٹ دھرمی: غزہ میں دوبارہ فوجی کارروائی کا اشارہ

تازہ ترین

گلگت بلتستان میں گلیشیائی جھیلوں کے خطرات اور ریاستی غفلت

محکمۂ موسمیات کی تازہ ترین ہائی الرٹ وارننگ نے ایک بار پھر خطرے کی گھنٹی بجا دی ہے کہ گلگت بلتستان میں گلیشیائی جھیلوں کے اچانک پھٹنے کے واقعات بڑے پیمانے پر تباہی لا سکتے ہیں۔ درجہ حرارت معمول سے کہیں زیادہ بڑھ چکا ہے اور گلیشیائی تیزی سے پگھل رہے ہیں۔ ڈارکٹ، ہسپر، ہوپر، غندوس اور گلکن کی وادیاں ممکنہ تباہی کے دہانے پر کھڑی ہیں۔ حالیہ دنوں میں غذر ضلع میں ایک گلیشیائی جھیل پھٹنے کے نتیجے میں تین ہزار سے زائد افراد بے گھر ہوئے، دو سو سے زیادہ گھر تباہ ہو گئے اور اہم شاہراہیں منقطع ہو گئیں۔ پورے کے پورے دیہات خالی کرنے پڑے اور یہ المیہ صرف ایک چرواہے کی بروقت ہوشیاری سے کسی بڑے انسانی المیے میں نہ بدلا۔ اسی طرح دنیور میں سات رضا کار پانی کی نہروں کی مرمت کرتے ہوئے زندہ دفن ہو گئے۔ یہ واقعات اس تلخ حقیقت کو آشکار کرتے ہیں کہ جب آفت آتی ہے تو سب سے پہلے مقامی لوگ میدان میں اترتے ہیں، جبکہ ریاست تاخیر سے پہنچتی ہے یا پھر بالکل غیر حاضر رہتی ہے۔
یہ کوئی پہلا موقع نہیں کہ پاکستان کو اس خطرے کا سامنا ہے۔ غیر ملکی اداروں کی مدد سے چلنے والے منصوبے، جیسے گلوف ٹو، بڑے دعووں کے ساتھ شروع کیے گئے تھے۔ ان میں قبل از وقت انتباہی نظام، مضبوط انفراسٹرکچر اور مقامی برادریوں کی تیاری شامل تھی۔ لیکن ہر سال وہی غلطیاں دہرائی جاتی ہیں۔ ریلیف تاخیر سے پہنچتا ہے، اداروں میں ہم آہنگی نہیں پائی جاتی، سڑکیں اور پل عارضی مرمت کے بعد اگلے ہی سیلاب میں بہہ جاتے ہیں اور مقامی علم و تجربہ نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔ ہر سانحے کے بعد رسمی تعزیت اور معاوضے کے چیک تقسیم کیے جاتے ہیں لیکن پائیدار حکمت عملی اور پیشگی تیاری کے آثار کہیں نظر نہیں آتے۔
اب کی بار یہ روش بدلنی ہوگی۔ گلگت بلتستان کے حکام دریاؤں کے کنارے ٹوٹنے کا انتظار نہ کریں۔ انخلاء کے منصوبے پہلے سے تیار ہوں، محفوظ پناہ گاہوں کی نشاندہی کی جائے اور امدادی سامان کا ذخیرہ رکھا جائے۔ تلاش و بچاؤ کی ٹیمیں خطرے والے علاقوں میں پہلے ہی تعینات ہوں تاکہ آفت آنے پر فوری حرکت میں آسکیں۔ مقامی آبادی کو مبہم مشوروں کے بجائے واضح اور بروقت وارننگ فراہم کی جائے۔ رضا کاروں کو صرف ان کی جرات پر نہیں چھوڑا جا سکتا؛ انہیں مناسب تربیت اور حفاظتی سازوسامان دینا لازمی ہے۔ انفراسٹرکچر کو عارضی مرمتوں سے نہیں بلکہ مضبوط اور دیرپا اقدامات کے ذریعے محفوظ بنایا جائے۔ سب سے بڑھ کر شفافیت اور جواب دہی کی ضرورت ہے۔ آفات سے نمٹنے کے لیے مختص فنڈز کی باقاعدہ جانچ اور عوامی سطح پر انکشاف ہونا چاہیے تاکہ لوگ جان سکیں کہ کیے گئے وعدے عملی طور پر پورے بھی ہو رہے ہیں یا نہیں۔
یہ حقیقت تسلیم کرنا ہوگی کہ گلوبل وارمنگ کے باعث گلیشیائی جھیلوں کے پھٹنے کے واقعات ناگزیر ہیں۔ لیکن انسانی کوتاہیاں ناگزیر نہیں۔ گلگت بلتستان کے عوام محض تعزیت اور تاخیر زدہ امداد کے مستحق نہیں بلکہ ایسے انتظامی ڈھانچے کے حق دار ہیں جو ان کے خطرات کو سنجیدگی سے لے۔ اگر اس وارننگ کو بھی نظر انداز کر دیا گیا تو آنے والی تباہی کا ذمہ دار صرف قدرت کو نہیں ٹھہرایا جا سکے گا بلکہ ریاستی غفلت بھی برابر کی شریک ہوگی۔ یہ وقت عملی قدم اٹھانے کا ہے، ورنہ کل پھر آنسو اور افسوس کے سوا کچھ باقی نہ رہے گا۔

شیئر کریں

:مزید خبریں