ہم زندہ قوم ہیں

گستاخ (قسط7)

ایک سو ایک سالہ سالہ سلائی مشین اور ہجرت

بہت سے دوستوں اور قارئین نے پوچھا کہ سابق ایس پی مظفر گڑھ راو طیب سعید مرحوم سے میڈیا کے کیا اختلافات تھے تو ان تمام دوستوں کے لئے لکھ رہا ہوں کہ ڈسٹرکٹ انفارمیشن آفیسر اور ایک جرنلسٹ پر تشدد کا معاملہ الگ ہے اور راو طیب سعید مرحوم جس ایشو پر معطل اور تنزلی کے بعد دوبارہ اے ایس پی بنا دیئے گئے اور مختلف معاملہ تھا۔ ہوا یوں کہ دریائے سندھ کے اس پار راجن پور سے ملحقہ ضلع مظفر گڑھ کے چند گاوں بھی ہیں۔ ایک رات وہاں کی بستی پتانی میں سادہ کپڑوں والے پولیس اہلکار کسی بد نیتی پر دیواریں پھلانگ کر ایسے گھرمیں داخل ہو گئے جن کی برادری میں دشمنی چل رہی تھی، وہ رات بھر مسلح پہرہ دیتے تھے۔ مخالفین نے خود جانے کی بجائے پولیس سے کارروائی ڈلوانے کی کوشش کی پیشگی ’’خدمت‘‘ کے بعد پولیس کے نچلے عملے کو ویسے ہی چار چاند لگ جاتے ہیں اور وہ چلتے پھرتے “قانون” بن جاتے ہیں۔ پولیس اہلکاروں نے جب دیواریں پھلانگیں تو پہرے پر موجود افراد نے وارننگ دی اور جواب نہ ملنے پر فائرنگ کر دی جس سے پولیس اہلکار جاں بحق ہو گئے۔ اگلے روز سابق ایس پی مظفر گڑھ بھاری فورس کے ساتھ ڈیڑھ درجن گھرون پر مشتمل بستی پتافی پہنچ گئے اور انہوں نے اپنی موجودگی میں ساری بستی کو آگ لگوا دی پھر بستی کے تمام نوجوانوں کو قریبی جنگل میں لائن میں کھڑے کرکے فائرنگ سکواڈ کو حکم جاری کیا کہ ہم نے اپنے ایک نوجوان کے بدلے گیارہ لینے ہیں۔ مجھے نام یاد نہیں مگر اس وقت راجن پور میں تعینات ایک ڈی ایس پی نے آگے بڑھ کر راو طیب سعید مرحوم کے سامنے ہاتھ باندھ دیئے اور واسطے دیئے کہ ایسا نہ کریں جس پر ایک دو کے سوا باقی تمام لوگوں کی جان بخشی ہو گئی۔ اخبارات میں اس واقعہ کی اپنے اپنے انداز میں رپورٹنگ ہوئی۔ میں نے ابتدائی معلومات کے بعد فوٹو گرافر اور ساتھی رپورٹرز کے ہمراہ ملتان سے اس دریائی بستی پتانی پہنچ کر جو حالات کی سنگینی اور پولیس کی بربیت دیکھی وہ ناقابل بیان تھی۔ تمام گھروں سے ہر طرح کا سامان باہر نکال کر ایک ایک چیز کو آگ لگا دی گئی تھی۔ جہیز کا سامان، چارپائیاں، رضائیاں، تمام تر کپڑے حتیٰ کے زخیرہ کی گئی گندم بھی جل کر کوئلہ ہوئی پڑی تھی اور آگ اتنی شدید تھی کہ 25 سے 30 فٹ اونچے سرسبز درخت بھی جل کر راکھ ہو گئے تھے۔ لوگ خوف سے ایک لفظ بھی نہ بول پا رہے تھے البتہ عورتوں کی گریہ وزاری نے ماحول سوگوار کر رکھا تھا۔ بمشکل وہ لوگ راضی ہوئے کہ اپنے ساتھ ڈھائے جانے والے ظلم سے آگاہ کر سکیں۔ میں نے ظلم کی اس داستان کو مرحلہ وار لکھنا شروع کیا تو راو طیب سعید نے جلال میں مجھے فون کیا، کہنے لگے انسان بن جاو۔ “میں تیری دھون بھن دیاں گا‘‘۔ (میں تمہاری گردن توڑ دوں گا) دو طرفہ تلخ جملوں کا تبادلہ بڑھتا گیا میں نے کہا کہ جنوبی پنجاب صلح جو اور دبے ہوئے لوگوں کا علاقہ ہے ۔ اس قسم کا ظلم آپ نے اپر پنجاب بلوچستان یا سرحد میں کیا ہوتا تو اپنے پاوں پر واپس نہ آتے ۔اللہ مجھے معاف کرے بعض اوقات منہ سے نکلی بات پوری ہو جاتی ہے اس لئے تو سوچ کر بولنے کا حکم ہے۔ اللہ جنت میں اعلیٰ مقام دے، 3 سال معطل رہنے کے بعد بحال ہونے پر راو صاحب نارووال میں ڈی پی او تعینات ہوئے اور ایک بدمعاش کی گولی کا نشانہ بن گئے۔
مظفرگڑھ پولیس کے بستی پتافی پر ڈھائے جانے والے ظلم اور اس پر ہونے والی فوری انکوائری کی تفصیلات روزانہ کی بنیاد پر میں اخبار میں شائع کر رہا تھا۔ ایک رات دفتر سے دیر سے گھر کے لئے نکلا تو خیال آیا کہ اہلیہ اور بچے سو رہے ہوں گے۔ انہیں کیا ڈسٹرب کرنا، گاڑی ملتان کینٹ میں ذائقے اور سروس کے حوالے سے معروف فوڈ پوائنٹ ’’ بیل اینڈ ٹیل‘‘ کی طرف موڑ دی۔ اس وقت وہاں رش کا نام و نشان نہ ہوتا تھا رات دس بجے کرسیوں کے ایک دائرے میں میرے استاد محترم شوکت اشفاق، سابق ڈی جی ایم ڈی اے ممتاز قریشی، ڈائریکٹر آئی بی شیخ افضل، اس وقت کے ایس پی ٹریفک اور بعد ازاں بطور آئی جی بلوچستان ریٹائرڈ ہونے والے محمد ایوب قریشی، کالم نگار نسیم شاہد اور دو انجان لوگ موجود تھے۔ ان کی گپ شپ چل رہی تھی مگر ممتاز قریشی صاحب اور ایوب قریشی صاحب اتھ کر ایک طرف چلے گئے اور پھرکی مجھے بلا لیا۔ میں ئے محسوس کیا کہ میرے آنے سے ماحول اچانک ٹھنڈا ہو گیا۔ دونوں قریشیوب نے ڈانٹنے کے انداز میں کہا اب بس کرو روک دو راو صاحب کیخلاف مہم۔ میں نے کہا وہ تو کہتے تھے میں گردن توڑ دوں گا کیا انہوں نے آپ سے کہا ہے یا آپ اپنی طرف سے کہہ رہے ہیں تو ممتاز قریشی کہنے لگے۔ تم انہیں پہچانتے ہی نہیں، تمہارے ساتھ والی کرسی پر تو بیٹھے ہیں۔ اب جبکہ وہ آ گئے ہیں تو بس ختم کرو یہ سب۔ میں نے کہا کہ آج کی تو خبریں شائع ہونے کے لئے چلی گئی ہیں اگر کل تک راو صاحب ٹرانسفر نہ ہوئے تو میں نظر ثانی کروں گا مگر اگلے ہی روز سابق چیئرمین واپڈا لیفٹیننٹ جنرل (ر) راو ذوالفقار علی خان کے بھانجے راو طیب او ایس ڈی بنا دیئے گئے تھے۔
بہت سی زندگی گزر گئی، اب وقت عصر ہے۔ میں نے بہت سی تنی ہوئی گردنیں بھی دیکھیں اور پھر اللہ نے سبق سکھانے کیلئے میرے جیسے فقیر کو وہی گردنیں جھکتی ہوئی بھی دکھا دیں۔ میں اللہ کے ہر سبق پر راضی ہوں کہ میری تو پسندیدہ دعا ہی یہ ہے ’’ اے اللہ، تیری طرف سے جو بھی عنایت ہو، یہ فقیر اس کا طلب گار ہے۔
اس فقیر نے 16ایم پی او اور شیڈول فور ذاتی خواہشات پر لگتے اور اترتے بھی دیکھے ہیں۔ ان عارضی طاقتوں پر کیا اترانا، ان کی کیا حیثیت۔ ’’نہ جانے کس گلی میں زندگی کی شام ہو جائے‘‘۔ (جاری ہے)