ہم زندہ قوم ہیں

گستاخ ( قسط4 )

Let him die in the chair

فرعون نے دعویٰ خدائی کیا تھا۔ وہ بچوں کو موت اور والدین کو اذیت دیتا۔ مصر کی عوام نے کہا کہ اللہ تو رازق بھی ہے اور اگر تو خدائی کا دعوے دار ہے تو پھر ہمیں کھانا بھی دے۔ روایت ہے کہ فرعون نے عوام کو دو وقت کا کھانا کھلانا شروع کر دیا اور خزانہ تیزی سے خالی ہونے لگا۔ یہ بھی روایات ہیں کہ حضرت موسیٰ فرعون کے مظالم اور بڑھتے ہوئے شرک پر اللہ سے شکایت کرتے تو حکم ہوتا، موسی ابھی انتظار کرو چند ہی ماہ میں فرعون کا خزانہ خالی ہونے لگا اور اس کے وزیر خزانہ نے کہا کہ اس سے تو سلطنت کنگال ہو جائے گی لہٰذا کھانا کھلانے کا سلسلہ محدود ہوتے ہوتے جہاں ہزاروں دیگیں روانہ پکتیں وہاں کم ہوتی ہوتی صرف محل تک ہی محدود ہو گئیں۔ جہاں روزانہ ہزاروں بکرے ذبح ہوتے وہاں صرف دو روزانہ محل کیلئے ذبح ہونے لگے اور عوام پر خوراک کی فراہمی کے دروازے فرعون نے بند کر دیئے تو رب ذوالجلال کا حکم ہوا کہ موسیٰ تیاری کرو فرعون کے خاتمے کا وقت آ گیا۔ اللہ نے کہا موسی میں وہ در کیوں بند کرتا جہاں سے لوگ کھانا کھاتے تھے اس نے کھانا کھلانے کا عمل بند کیا تو بس اس کا انجام قریب آ گیا پھر فرعون کو نہ مٹی نے قبول کیا اور اسے تا قیامت نشان عبرت بنا کر محفوظ کر دیا گیا ۔ شرک میں مبتلا فرعون روٹی چھینتا نہیں تھا بلکہ دیتا تھا اور رعایت پالتا رہا ۔ وہ تو ایک فرعون تھا آج تو ملک بھر میں کوئی بھی اینٹ اٹھائو نیچے سے ایک آدھ فرعون نکل ہی آئے گا بلکہ دو چار تو کسی نہ کسی اینٹ پر ہی بیٹھے ہوں گے جو ہر کسی کو اللہ کی مخلوق پر رزق، تحفظ، عزت اور بھرم کے دروازے بند کرتے اور ظلم کا شوق فرماتے ملیں گے۔
کئی سال گزر گئے نہ جانے اچانک اس آفیسر کو کیا ہوا کہ پاکستان سے کروڑوں اربوں کمانے اور اس ’’رزق‘‘ کو محفوظ کرنے کے بعد اس نے شب قدر میں تخلیق پانے والے پاکستان کو گالیاں دینا معمول بنا لیا۔ وہ دبئی منتقل ہو رہا تھا جہاں کسی کمپنی میں شائد اس کی سرمایہ داری تھی۔ نمرود کے تو ناک میں مچھر گھس کر زندہ رہا مگر اس کے کان میں کوئی حقیر سا کیڑا داخل ہو گیا اور پھر پاکستان سے علاج میں ناکامی کے بعد اسے لندن لے جایا گیا مگر تب تک معمولی اور اس کے کروفر کے سامنے حقیر سا کیڑا اپنا کام دکھا چکا تھا اور اسکے جان سے جانے کا سبب بن گیا تھا۔ یہاں تو ہر روز ہزاروں فرعون عوام پر تازیانوں کی طرح برس رہے ہیں۔ اسی مظفرگڑھ کے ایک ڈپٹی کمشنر نے 3 ملین کا پینٹ اپنے دفتر اور گھر کیلئے منگوایا کہ کہیں ویسا کوئی کیڑا رات کو سوتے میں ان کے کان میں نہ گھس جائے کہ افسران خوف کا شکار ہو چکے تھے۔ فرانس سے پینٹ اور کیمیکل آ گیا مگر اس سے پہلے کہ اس کا استعمال شروع ہوتا ان کا ٹرانسفر ہو گیا اور بھلا ہوا ٹرانسفر کا جس نے اس پینٹ سے ان کی نجی رہائش گاہ کو ’’محفوظ ‘‘بنا دیا۔
تاہم وہ گھر جلد ہی فروخت کرنا پڑا کہ بیگم صاحبہ اس گھر سے اکتا گئی تھیں کہ پینٹ سے وہ خود کو ان ایزی خیال کرتی تھیں۔ مظفرگڑھ کے شہریوں کیلئے ایک خوبصورت تلیری باغ ہوا کرتا جو ہٹ تو اب بھی مگر ایسے بہت زیادہ سکیڑ دیا گیا ہے ۔ ایک سابق ڈپٹی کمشنر نے محسوس فرمایا کہ یہ سرکاری رہائش گاہ پرانی ہو گئی ہے لہٰذا انہوں نے تلیری باغ میں ایکڑوں جگہ اپنی سرکاری رہائش گاہ کیلئے پسند کر لی اور پرانی رہائش گاہ کو اپنا نام باقی رکھنے کے لئے ایک ایسا پبلک پارک بنا دیا جو گزشتہ دو دہائیوں سے ہر ضلعی سربراہ کیلئے سامان رزق فراہم کرنے کا ایک معقول ذریعہ بنا ہوا ہے مظفرگڑھ میں ماضی کے سیشن جج کیلئے بھی تلیری باغ میں رہائش گاہ کا انتخاب کیا گیا مگر انہوں نے انکار کر دیا مگر بعد میں آنے والوں نے انکار کرنا مناسب نہ سمجھا اور پھر یہاں تعمیر ہونے والی رہائش گاہوں کو جنت ارضی بنا دیا گیا۔
اپنا اپنا سکول آف تھاٹ ہے کوئی سردار کوڑے خان جتوئی کی طرح ساری جائیداد دے کر لاولد ہونے کے باوجود اپنا نام زندہ کر گیا اور اس شہر کو سینکڑوں ایسے بھی نصیب ہوئے جو عوام سےچھین کر اور عوام کو اذیت دے کر چلے جانے کے باوجود اپنا نام زندہ رکھے ہوئے ہیں ویسے بھی بعض لوگ قابیل کی طرح بھی تو زندہ رہنا چاہتے ہیں۔ اس شہر نے تو ایسے بھی انتظامی افسران بھگتے اور چپ سادھ رکھی جو رات کے وقت سرکاری ہسپتال کے سفید یونیفارم والے سٹاف کو انٹرویو کے لئے اپنی رہائشگاہ پر طلب فرمایا کرتے تھے۔
جنوبی پنجاب کے ہر شہر کی طرح اس شہر کا بھی گلدستہ گروپ بہت مشہور ہے ۔ کہتے ہیں کہ ایک آفیسر کی تعیناتی ہوئی تو ان پر اتنے پھول ڈالے گئے کہ انہوں نے دوستوں سے کہا کہ اتنے پھول تو داتا دربار پر شائد سال بھر میں نہ ڈالے جاتے ہوں جتنے چند دن میں مجھ پر لاد دیئے گئے ہیں ۔ مظفرگڑھ کی ’’سلطنت عثمانیہ‘‘ بارے بہت سی معلومات گزشتہ 24 گھنٹوں میں سامنے آئی ہیں جو تصدیقی مراحل میں ہیں جس کے مکمل ہوتے ہی قارئین کی خدمت میں انہیں ایک ایک کرکے پیش کر دیا جائے گا۔ گزشتہ کالم میں چند دوستوں نے اعتراض کیا کہ براہ راست بات کہنے اور کرنے والا یہ کالم نگار اشاروں کنایوں کا سہارا کیوں لینے لگا۔ لگتا ہے کہ بڈھا ہو گیا ہے تو ان کی خدمت میں عرض ہے کہ جب صحافت چھوڑ کر سرکار کی نوکری اور پھر چند ہی سالوں میں سرکار کی نوکری سے جان چھڑا کر واپس صحافت کی طرف آیا تو ایک عظیم استاد نے مجھے ایسی نصیحت کی جو میں نے پلے باندھ رکھی ہے۔
کہنے لگے، میاں غفار سولہ سال کی لڑکی کو میک اپ کی ضرورت نہیں ہوتی وہی جب 30 سال کراس کرتی ہے تو پھر میک اپ اس کی ضرورت بن جاتا ہے۔ تم اپنی عمر کو تو روک نہیں سکتے مگر اپنے کام کو جوان رکھنا۔ بس کام کی عمر نہ بڑھنے دینا۔ میں نے اس بات کو پلے سے باندھ رکھا ہے تو جناب گزشتہ کالم میں جنوب کا مطلب ڈیرہ غازی خان اور مشرق کا مطلب لاہور تھا۔ (جاری ہے)