ہم زندہ قوم ہیں

گستاخ (قسط اول)

گستاخ (قسط اول)

کار جہاں ؛تحریر میاں غفار

مثل مشہور ہے “بات کو منہ سے نکالو تو منہ سے نکلی وہی بات تم کو شہر سے نکال دے گی” حضرت بایزید بسطامی کے قول کو میں بہت ہی زیادہ Dilute کرکے لکھ رہا ہوں کیونکہ بعض اوقات الفاظ کی کاٹ بہت کچھ کاٹ کر رکھ دیتی ہے۔ اس قول کو من و عن نہیں لکھ رہا بس نرم کرکے مفہوم لکھ رہا ہوں۔ چھوٹے پن کی لڑائی میں جیتنے والا ہی اصل میں چھوٹا ہوتا ہے۔ بہت سال پہلے جب میں پنجاب یونیورسٹی کا طالبعلم تھا ان دنوں پجارو گاڑیاں نئی نئی آئیں تھیں اور اس کی قیمت 6 لاکھ 40 ہزار ہوا کرتی تھی۔ میرے ایک دوست نے خریدی تو ہم دونوں اس گاڑی پر لاہور کے پرانے ایئر پورٹ کی وی آئی پی پارکنگ میں داخل ہوئے تو گاڑی کی وجہ سے ہمیں کسی نے نہ روکا۔ ہمارے مشترکہ دوست نے برطانیہ سے آنا تھا۔ ہم ایئر پورٹ پر مسافر لاونچ کے باہر کھڑے تھے کہ میرے دوست کی جوتی اور شلوار پر صفائی کرنے والے نے گیلا پوچا لگا دیا اس نے ڈانٹا تو اے ایس ایف میں اس خاکروب کا سہولت کار اردلی میرے دوست سے دست و گریباں ہونے کی کوشش میں تھپڑ کھا بیٹھا۔ بات ایئر پورٹ منیجر تک پہنچ گئی، عملے نے ہم دونوں کو گھیر لیا اور ایئر پورٹ منیجر کے کمرے کا بھی گھیراو کر لیا ایئر پورٹ منیجر نے حلیئے سے دیکھا کہ ہم کسی اچھے گھر کے لگتے ہیں تو ساری بات سن کر میرے دوست سے کہا، ہاتھ میں قیمتی گاڑی کی چابی۔ گلے میں موٹی سونے کی چین، شکل و صورت سے مہذب دکھائی دینے والوں کا اردلی سے جھگڑا آپ کو زیب نہیں دیتا۔ ہمارا غصہ چند ہی لمحوں میں شرمندگی میں تبدیل ہو چکا تھا اور ایئر پورٹ منیجر نے ہمیں بمشکل وہاں سے نکالنے سے قبل کسی کو بھیج کر ہمارے مہمان کو بھی اپنے کمرے میں بلا لیا اور احتجاج کرنے والوں کو کسی میٹنگ روم میں بھجوا کر ہمیں گاڑی تک پہنچا دیا۔ نصیحت ہو گئی کہ اول تو لڑنا نہیں اور لڑنا بھی ہوا تو کم از کم مد مقابل کو دیکھ کر۔
مظفرگڑھ انتظامیہ اور پولیس کا آجکل ھائی ٹارگٹ ایک عام سا صحافی عامر اسماعیل چانڈیہ ہے جس کو ایمانداری کا بخار رہتا ہے اور کرپشن و حرام خوری کے حوالے سے پنجاب کے سالہا سال سے سرفہرست ضلع مظفرگڑھ، جو کم از کم تین دہائیوں سے لوٹ مار اور حرام خوری میں ایوارڈ یافتہ چلا آ رہا ہے۔ اس ضلع میں ہر مرتبہ کسی نہ کسی سیاستدان کو مال پانی بنانے کا بھرپور موقع فراہم ہو جاتا ہے ہر دور میں کسی نہ کسی تحصیل کی لاٹری نکل آتی ہے۔ ایک سابق ضلع ناظم کے دور میں دفاتر ہی رات کو لگتے تھے اور فجر سے ذرا پہلے اس دور کے بااختیاروں کا سونے کا وقت شروع ہو جاتا تھا جو دن ڈھلے تک چلتا تھا۔یہ وہ بدقسمت ضلع ہے جس کی عوام کو اکثر “سخٹ ضرورت مند” سیاستدانوں کی اکثریت سے واسطہ ہی پڑتا رہا تو دوسری طرف افسران کے حوالے سے اس ضلع میں اپنی ذات کے حصار کا ایک سے بڑھ کر ایک قیدی ” پروانہ تعیناتی” حاصل کرتا رہا۔ معلوم نہیں کہ اللہ بخش ملک، ثاقب علیم، سیف انور جپہ، امجد شعیب اور طارق نجیب نجمی جیسے چند گنے چنے نجیب نام کس کی “غلطی” سے یہاں تعیناتی پا گئے وگرنہ یہاں کا میرٹ اور ہی رہا ہے ۔ ٹرسٹ کا مال تو غریبوں اور مساکین کیلئے ہوتا ہے مگر سردار کوڑے خان ٹرسٹ کے سالہا سال تک آمدن کے “اصل حقدار‘‘ اس ضلع کے افسران اور اہلکار ہی رہے پھر عدلیہ نے بہت حد تک کنٹرول تو کر لیا ہے مگر لوٹ مار اور جعلی بل بنانے کے نشے کی لت میں مبتلا سرکاری نوکر شاہی کو یہ نشہ کسی نہ کسی طرح مل ہی جاتا ہے سردار کوڑے خان ٹرسٹ کی بہترین اراضی کا انتظام جب ضلع کونسل کے پاس ہوتا تھا اور ڈپٹی کمشنر حضرات کے قدموں کے نیچے اس کی ایڈمنسٹریٹری ہوا کرتی تھی جو کہ اب بھی کئی سالوں سے ہے، تو کوڑے خان ٹرسٹ کی زمین نیلامی پر اگر 2 ہزار روپے فی ایکڑ کے حساب سے دی جاتی تھی تو اس اراضی سے ملحقہ پرائیوٹ اراضی کا ٹھیکہ 12 سے 15 ہزار ہوا کرتا تھا جو کہ اب تو لاکھوں میں ہے ۔
میں نے کرپشن اور حرام خوری پر لکھنا بہت کم کر دیا ہے کیونکہ جن کو قرآن مجید کی صورت التکاثر راہ راست پر نہ لا سکی اور ان کے دلوں پر لگی مہریں ختم نہ کرا سکی تو میرے جیسا عاجز قلم کی نوک سے سسٹم کے ساتھ کتنا لڑ سکتا ہے۔ میرے سامنے بیٹھا عامر اسماعیل باوضو ہو کر ایسے ایسے ثبوت برحلف دے رہا ہے کہ الامان الحفیظ۔ اس کے علاوہ بھی بہت سے دیگر دوستوں نے ایسا ایسا مواد مجھے دیا ہے کہ حرام خوری پر کئی جلدوں پر مشتمل کتاب مکمل کی جا سکتی ہے۔ کس نے کہاں قبضہ کر رکھا ہے۔ کس نے اپنی سہولت کے جنگل میں ڈیزل سے چلنے والا آرا لگا رکھا تھا کہ ہر رات تیار شدہ مال لکڑ منڈی بھیجا جا سکے تو کسی کا خالی آئیل ٹینکر دیگر فرنس آئیل سے بھرے ہوئے آئیل ٹینکروں کے درمیاں لائن میں لگوا کر پاور پلانٹ میں جاتا اور خالی ہی واپس آ جاتا ہے اور کسی کے دبائو پر فرنس آئیل سے بھرا آئیل ٹینکر کسی دوسری جگہ بک جاتا ہے تاہم ادائیگی پاور پلانٹ سے ہو ہی جاتی رہی ہے۔ یہ سلسلہ وار کہانی اب چلتی رہے گی اور یادوں کے دریچے وا ہوتے رہیں۔
عامر اسماعیل چانڈیہ پاکستان میں صحافیوں کی سب سے بڑی تنظیم APNA کا جنوبی پنجاب کا عہدیدار ہے مسلم لیگ کے اس سرگرم کارکن کے ساتھ ہے مسلم لیگ کے دور میں جو ہو رہا ہے وہ از خود پنجاب کی لیگی حکومت پر سوالیہ نشان ہے۔ عامر اسماعیل کے گھر چار چار ڈالوں پر تین تین درجن پولیس اہلکار چھاپے مار رہے ہیں اور کیوں نہ چھاپے مارے جائیں کہ اس نے جرم ہی ایسا کیا ہے جس کی معافی ہو ہی نہیں سکتی۔ اس کا جرم یہ ہے کہ اس سے گزشتہ سے پیوستہ ہفتے ڈپٹی کمشنر میاں عثمان کو رائیٹ آف انفارمیشن ایکٹ کے تحت ایک درخواست دی ہے لہٰذا وہ یا تو نظر بند ہو گا یا کسی نہ کسی طرح شیڈولی بنا دیا جائے گا۔ ڈپٹی کمشنر کی رٹ کو چیلنج کرنا مظفر گڑھ جسے ازلی غلام بنا کر رکھے جانے والے ضلع میں بہت بڑا جرم ہے ۔ وہ کون ہوتا ہے کسی سیاہ و سفید( یہاں سفید تو میں نے علامتی طور پر لکھا ہے ) کے مالک سے سوال پوچھے ( جاری ہے)