ہم زندہ قوم ہیں

گستاخ (دوسری قسط )

ایک سو ایک سالہ سالہ سلائی مشین اور ہجرت

کار جہاں، تحریر : میاں غفار

مجھے مظفر گڑھ کے “تاجداروں” پر کالم کی دوسری قسط میں کچھ انکشافات کرنے تھے مگر رانا عبدالمنان کی ایسے مقدمے میں گرفتاری نے قلم کا رخ موڑ دیا۔ میں 1997 میں لاہور سے ملتان آیا تو میرا رانا عبدالمنان سے تعارف ہوا تب وہ جتوئی سے ہمارا نمائیندہ ہوا کرتا تھا۔ میں اس وقت روزنامہ خبریں کا اجرا کرنے لاہور سے ملتان آیا تھا۔ رانا منان میرے ان چند ایسے نمائندگان میں سے تھا جو بہت ہی نرم مزاج، سمجھدار، عاجز اور دلیل سے بات کرنے والا بندہ تھا۔ میں اس سے اکثر خفا ہو جاتا تھا کہ رانا عبدالمنان تمہیں ساری دنیا ہی اچھی لگتی ہے تو وہ ہنس کر بات کو ٹال دیتا تھا۔ میں تصور بھی نہیں کر سکتا کہ رانا منان کسی پر ہاتھ اٹھائے گا یا وہ ایسی کسی بھی قسم کی سازش کا حصہ بنے گا۔ اپنی 35 سالہ انویسٹی گیٹو رپورٹنگ کے تجربے اور مختلف ذرائع، جو درجن سے زائد ہیں، سے میں نے فروری الیکشن اور اس مقدمے، جس میں ایم پی اے رانا منان کی گرفتاری ہوئی ہے، بارے معلومات لیں۔ میں ان معلومات کو اپنے معزز قارئین سے شیئر کر رہا ہوں کیونکہ خبر اور کالم میں بنیادی فرق یہ ہے کہ آپ نیوز میں ویوز یعنی اپنے تاثرات کو شامل نہیں کر سکتے جبکہ کالم خالصتاً کالم نگار کی ذاتی رائے، معلومات اور مشاہدے کے نتائج پر منحصر ہوتا ہے اس لیے ادارتی صفحے پر یہ نوٹ لکھا جاتا ہے”ادارے کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں‘‘
رانا عبدالمنان حیران کن طور پر مظفر گڑھ ضلع کے سب سے بڑے برج کو الٹا کر کامیاب ہوا تھا اور اس حلقے کے فارم 45 و فارم 47 یکساں ہیں۔ مجھے یہ بھی علم ہے کہ ضلع مظفر گڑھ میں کامیابی کے حوالے سے جتوئی اور چوک سرور شہید کے حلقوں سے کس کس کی مبینہ ڈیل کی آوازیں الیکشن سے پہلے ہی مارکیٹ مین نکل آئیں تھیں اور پولنگ کے فوری بعد رانا عبدالمنان نے طارق بشیر چیمہ والی حکمت عملی اپنائی اور ریٹرنگ آفس کا گھیراو کرکے پرُامن دھرنا دے دیا اور دوسری عقل مندی یہ کی کہ اسسٹنٹ کمشنر جتوئی ملک طارق جو کہ ٹرانسفر ہو چکے ہیں، کا وائی فائی کوڈ کسی طرح حاصل کر لیا کیونکہ موبائل سروس تو بند تھی۔ البتہ وائی فائی سے رابطہ ممکن تھا۔ کوڈ ملنے کے بعد رانا عبدالمنان بااثر حکام کو من وعن صورتحال سے آگاہ کرتے رہے اور پھر اس حلقے میں باوجود کوشش رزلٹ تبدیل نہ ہو سکا۔ انتظامیہ بے بس ہو گئی اور رانا عبدالمنان نے باسط سلطان کو ہرا دیا۔
اب چلتے ہیں سابق اسسٹنٹ کمشنر جتوئی پر حملہ اور مار پیٹ کے حوالے سے دستیاب حقائق اور گھڑی گئی کہانی کی طرف
1۔ مظفر گڑھ کے ڈپٹی کمشنر میاں عثمان اور جتوئی کے سابق اسسٹنٹ کمشنر طارق ملک جن کی بطور اے سی پہلی پوسٹنگ تھی، نے اپنے کیریئر کا آغاز سیکرٹریٹ سروس میں کلرک کے طور پر کیا تھا۔ ان دونوں حضرات کی تعیناتی باسط سلطان بخاری کی آشیر باد سے ہوئی جو رجیم چینج آپریشن کے دوران پی ڈی ایم کے سرگرم رکن بن چکے تھے۔
2۔ جن دنوں سابق اسسٹنٹ کمشنر پر حملہ ہوا ان دنوں گندم کی خریداری کا سیزن تھا اور جتوئی میں پاسکو ہر سال بڑے پیمانے پر گندم خرید کرتی ہے جبکہ باردانہ کی سپلائی پر سارا کنٹرول پاسکو سے ضلعی انتظامیہ کی طرف منتقل ہو گیا تھا تو ضلعی انتظامیہ نے کھل کر ’’رزق‘‘ کمایا۔ ان دنوں جتوئی میں اے سی کے گھر ہر رات کو بیوپاریوں کی محفل جمتی تھی اور رات کو سارا ’’ لین دین‘‘ ہوتا تھا۔ ایف ائی آر میں تشدد کے علاوہ سابق اے سی جتوئی کی سرکاری رہائش گاہ سے 5 لاکھ روپے اڑھائی لاکھ کی گھڑیاں اور 80 ہزار کا موبائل چوری ہونا اور شدید تشدد ہونا لکھوایا گیا جبکہ ذرائع کے مطابق ان پر تشدد کے دوران ان کے گھر سے مبینہ طور پر 2 کروڑ روپیہ نقد اور 10قیمتی موبائل چوری ہوئے۔ ظاہر ہے کہ یہ رقم جس نوعیت کی تھی اسے بینک میں تو نہیں رکھا جا سکتا۔ مجھے تو ان بیوپاریوں میں چند کے نام بھی معلوم ہیں جو سابق اے سی کے نام پر 1200 سے 1500 روپیہ فی بوری کاشت کاروں سے لیتے رہے تھے۔
3۔ رات 12 بجے تک باسط سلطان بخاری کے دو بااعتماد ساتھی ساجد سٹھاری اور میاں ابوزر چچھڑا سابق اے سی کے گھر پر موجود ہوتے ہیں۔ 12 بجے کے بعد اے سی جتوئی پر حملہ، تشدد اور ڈکیتی ہوتی ہے جس میں نااہلی اور نالائقی پر مشتمل ایک رویتی ایف آئی آر نمبر 532/24 تھانہ جتوئی ضلع مظفر گڑھ میں درج ہوئی جس میں طارق ملک بیان دے رہے ہیں کہ ان پر تشدد کرنیوالے رانا عبدالمنان سے فون پر دوران تشدد بات کراتے رہے ۔ یہی جملہ ایف آئی آر کا سارا بھرم کھول دیتا ہے۔
4۔ جتوئی میں دو ایم پی اے ہیں ۔ شہری حلقے سے داود خان جتوئی اور شہر سلطان کے حلقے سے رانا عبدالمنان۔ دوران تفتیش پولیس 10افراد نامزد کرتی ہے جن میں سے کسی کا بھی کوئی خاص تعلق راناعبدالمنان سے ثابت نہیں ہوتا۔ ایک نام راناعبدالمنان کے کارکنان میں سے رانا اشراف کا شامل کیا گیا جبکہ حیران کن طور پر داود خان جتوئی کے چار ذاتی گارڈ بھی نامزد ہیں۔ ان میں ایسے بھی نامزد ہیں جن پرڈکیتی و چوری کے متعدد پرچے ہیں اور سارا شہر جانتا ہے کہ انکی پشت پناہی کون کرتا ہے۔
5۔ سوال یہ ہے کہ اس ڈکیتی اور تشدد کے لیے رانا عبدالمنان کے ساتھ داود خان جتوئی کے گارڈز کیوں ہوتے ہیں۔
6۔ کیا اس ڈکیتی کے بعد لین دین پر سابق اے سی اور دو بیوپاریوں میں جو اختلاف ہوا تھا وہ کس بات پر ہوا تھا۔ پولیس نے یہ معلومات لیں۔ یہ کون کہتا تھا کہ ہم نے یہ کچھ دیا اور کون کہتا تھا کہ میرے پاس نہیں آیا۔
7۔ رات 12سے 2 بجے کے دوران سابق اے سی پر تشدد ہوا اور انہوں نے کسی بھی ذریعے سے ڈی سی کو مطلع کرنا مناسب کیوں نہ سمجھا اور اگر وہ صبح خود گاڑی چلا کر ہسپتال جا سکتے تھے تو کسی سے مدد بھی لے سکتے تھے۔
8۔ رانا عبدالمنان نے باردانہ کی فروخت اور بھاری نذرانے کی شکایات ڈپٹی کمشنر کے علاوہ اور کس کس کو دیں؟ میری معلومات کے مطابق ڈویژنل اور صوبائی حکام کو بھی مطلع کیا گیا تو کیا تفتیش میں ان امور پر غور کیا گیا۔
9۔ کیا جس خاکروب کو بقول اسے سی باندھا گیا اسے اے سی جتوئی خود کھول کر مدد کے لیے بھجوا نہیں سکتے تھے کہ تھانہ جتوئی اور اے سی کی رہائش گاہ کے درمیان 2 سے 3 منٹ کا پیدل فاصلہ بھی نہ ہے۔
10۔ کیا جتوئی پولیس کو گرفتار شدہ گارڈز نے بتا نہیں دیا کہ رقم انہوں نے کس کو دی اور کتنی تھی۔ کیا وہ برآمد ہوئی۔ میری معلومات کے مطابق ایف آئی آر میں درج شدہ رقم سے کہیں زیادہ برآمدگی ہو چکی ہے اور یہ برآمدگی طارق ملک کے تبادلے سے پہلے ہو چکی تھی جس کا پولیس اور انتظامی افسران کو علم ہے۔
کیا یہ محض اتفاق ہے کہ جس قسم کی کرپشن کی نشاندہی رانا عبدالمنان نے کی کم و بیش اس قسم کی عامر اسماعیل چانڈیہ نے کی بس فرق یہ ہے کہ راناعبدالمنان زبانی بتاتے رہے اور عامر اسماعیل نے ان شکایات کو تحریری شکل دیدی اور پھر قرآن مجید سے بھی ہمیں معاملات کو تحریر میں لانے کی ہدایات ہی ملتی ہیں۔ (جاری ہے)