ہم زندہ قوم ہیں

گستاخ (درسیرت سیاستدان) پانچویں قسط

ایک سو ایک سالہ سالہ سلائی مشین اور ہجرت

کارجہاں؛ تحریر میاں غفار

آج کا موضوع تو ضلع مظفرگڑھ کی انتظامیہ کی ’’خدمات‘‘ پر قلم کی سیاہی کا استعمال کرنا تھا مگر ایک قاریہ نے نئی ٹپ دے دی اور مجھے بھولے بسرے واقعات یاد آ گئے۔ قاریہ نے کہا کہ آپ نے کالم میں فرعون کا ذکر کیا تو جنوبی پنجاب کے نامور فرعون ’’بخاری گروپ‘‘ بارے ضرور لکھیں جن کی سیاست نسل در نسل کئی دہائیوں سے چل رہی ہے اور جن کی بڑی بڑی گاڑیوں میں ٹوٹی ہوئی سڑکوں پر الیکشن ہی میں نظر آتی ہیں۔
پہلی بات تو میں یہ عرض کر دوں کہ بخاری گروپ کو فرعون کہنا فرعون کی توہین ہے جناب۔ فرعون نے تو اللہ تبارک و تعالیٰ کو چیلنج کیا ہوا تھا جبکہ ان کے بڑے تو ایک ایس پی کے خوف سے ضلع اور گھر بار ہی چھوڑ کر بھاگ گئے تھے۔ آج سے 24 سال قبل راو طیب سعید مرحوم یہاں مظفرگڑھ میں ضلعی پولیس کے سربراہ تھے۔ بہت سخت مزاج اور اتنے ہی ایماندار۔ وہ نارووال میں تعیناتی کے دوران ایک غنڈے کی فائرنگ کی زد میں آ کر شہادت پا گئے۔ میری بھی ان سے ’’ہتھ جوڑی‘‘ ہو گئی تھی اور ان کی بے پناہ طاقت کا مقابلہ میں نے ان کے گمان کے مطابق ایک کمزور سے قلم کے ساتھ کیا تھا جس کے بعد الحمد اللہ وہ ایک ہی ہفتے میں نہ صرف ٹرانسفر بلکہ ایس پی سے اے ایس پی کے عہدے پر تنزلی کے بعد معطل بھی کر دیئے گئے تھے۔ مظفرگڑھ کے تمام سینئر صحافی ہمارے اس دور کے ’’ملاکھڑے‘‘ کے عینی شاہد ہیں۔ انہوں نے ضلعی انفارمیشن آفیسر اور ایک صحافی پر تشدد کرایا تھا جس پر میرا ان سے اختلاف شروع ہوا اور اللہ گواہ ہے میں نے ان سے کبھی بھی نہیں ملا تھا۔ وہ اتنے بااثر تھے کہ اس وقت کے چیئرمین واپڈا ریٹائرڈ لیفٹیننٹ جنرل راو زولفقار علی راو طیب سعید کے سگے ماموں تھے۔ ان کی سابق صدر جنرل پرویز مشرف سے ذاتی دوستی تھی اور اس ناطے سے صدر مشرف ایس پی مظفرگڑھ راو طیب سعید کو بھی اپنے بچوں کی طرح گردانتے تھے۔ اس عاجز نے تو قلم سے ان کے قلم اور اختیاراتی طاقت کا بھرپور مقابلہ کیا تھا البتہ مخدوم باسط سلطان بخاری کے والد عبداللہ شاہ بخاری مرحوم نے راو طیب سعید کے خوف سے اپنا علاقہ ہی چھوڑ دیا تھا وہ رات کے اندھیرے میں پیر خورشید کالونی ملتان میں واقع اپنی رہائشگاہ سے جتوئی جانے کیلئے بہاولپور، احمد پور شرقیہ، اوچ شریف، ہیڈ پنجند اور علی پور کا روٹ استعمال کرنے لگ گئے تھے ۔ بعض معاملات کے ثبوت ملنے پر سابق ایس پی مظفرگڑھ راو طیب سعید مرحوم نے انہیں وارننگ دی تھی اپنے آبائی شہر اور آبائی حلقے سے یہی وارننگ ان کی رننگ کا باعث بنی تھی۔ میں اس سے زیادہ کچھ نہیں لکھنا چاہتا کہ عبداللہ شاہ اب اللہ کے حضور پیش ہو چکے ہیں۔
اب آتے ہیں موجودہ مخدوم کی طرف جو کہ باسط سلطان بخاری کہلاتے ہیں ان کے والد کا ایک منشی نذر غزلانی ہوتا تھا جو آج بھی ہے مگر ظلم کے بوجھ نے اسے ناتواں کر دیا ہے مجھے علم ہے کہ وہ کس طرح کرسی رکھ کر تھانوں میں عوام کی چھترول کرایا کرتا تھا۔ نذر غزلانی کا داماد خوانچہ فروش تھا۔ یہ والے غزلانی خوبصورت اور گورے چٹے ہیں۔ ہوا یوں کہ نذر غزلانی کے نواسے نے جنوبی پنجاب کے ایک اہم علاقے سے ایک معزز اور انتہائی شریف خاندان کی لڑکی جو کہ اس کی شاگرد تھی، کو ورغلا کر اغوا کرکے اس سے شادی کر لی۔
معزز راجپوت خاندان کی وہ لڑکی چار بہنوں کی بڑی بہن تھی۔ اس کا والد کئی کلو میٹر کا سفر کرکے میرے پاس آیا۔ تمام حالات سن کر میں نے سید باسط سلطان بخاری کو فون کیا تو معلوم ہوا کہ وہ کینیڈا میں ہیں اور 6 دن بعد واپس ملتان آ رہے ہیں۔ انہوں نے فون پر میری ساری بات سنی اور پھر ازخود معلومات لے کر ایک گھنٹے بعد واپسی فون پر بتایا کہ میں نے معلومات لے لی ہیں ۔ آپ کی بات سو فیصد درست ہے کہ اگر انہوں نے نکاح کر ہی لیا ہے تو چند دن کیلئے لڑکی کو واپس بھیج دیں تاکہ والدین خاموشی سے چند رشتے دار بلا کر رخصتی کر دیں کہ خاندان میں عزت رہ جائے اور بھرم بھی نہ کھلے۔ میرے اور باسط سلطان بخاری کے درمیان کئی مرتبہ رابطہ ہوا اور انہوں نے وعدہ کیا کہ کچھ بھی ہو لڑکی کی والد کے گھر ہی سے رخصتی ہو گی۔ میں بھی بہن بیٹی والا ہوں، آپ فکر نہ کریں۔
میں نے اپنے طور پر پتہ چلایا تو میری معلومات کے مطابق لڑکی اس وقت پیر خورشید کالونی ملتان میں سید باسط سلطان بخاری ہی کے گھر پر ہی تھی کیونکہ تحصیل علی پور اور جتوئی کے نواحی قصبے میں راجپوت فیملی لڑکے کے گھر تک پہنچ چکی تھی جو کہ کچا سا گھر تھا جس میں کوئی ڈھنگ کا باتھ روم بھی نہ تھا جبکہ جس گھر سے وہ آئی تھی اس میں چھ تو صرف ایئر کنڈیشنز ہی تھے جبکہ لڑکے کا باپ خوانچے پر برفی فروخت کرتا تھا۔ سید باسط سلطان کے دباو پر ان کے والد کا منشی نذرا غزلانی میرے پاس ملتان آیا اور کہنے لگا کہ مخدوم صاحب کا حکم ہے وہ جونہی واپس پاکستان آٓتے ہیں میں بچی آپ کے حوالے اس گارنٹی کے ساتھ کر دوں گا کہ اسے کوئی نقصان نہ پہنچے۔ اسی دوران باسط سلطان واپس آ جاتے ہیں اور مجھے مطلع کرتے ہیں کہ میں نے لڑکی اور لڑکے کو بلا لیا ہے آپ کل میرے گھر ان کے والدین کو بلوا لیں میں اپنی کمٹمنٹ پوری کروں گا، پھر اچانک انہوں نے فون سننا بند کر دیا۔ بار بار کال ملانے پر کسی نے فون اٹھایا اور بتایا کہ مخدوم صاحب کی طبیعت ناساز ہے۔ مجھے ذرائع نے بتایا کہ مخدوم کی طبیعت کا معاملہ نہیں شائید نیت کا معاملہ ہے، میرے بار بار کہنے پر ان کے گھر پیر خورشید کالونی ملتان اس بچی کے والدین اور پھر میں بھی پہنچ گیا مگر صورتحال تبدیل ہو چکی تھی جس لڑکی نے واپسی پر آمادگی ظاہر کر دی تھی وہ ’’ تحفظ مخدوماں‘‘ میں آنے کے بعد شیر ہو چکی تھی اور پھر میں نے دیکھا کہ مخدومی پناہ ملنے کے بعد اس بچی کی والدہ کے جڑے ہاتھ، باپ کے بیٹی کے پاوں پر رکھے ہاتھ، مسلسل بہتے آنسو اور بھائی کے ترلے بھی’’ دست مخدوم‘‘ کے سامنے بے بس ہو گئے تھے۔ اس وقت مجھے مخدوم باسط سلطان کے چہرے پر کیا اور کس قسم کی ۔۔۔۔۔۔۔ محسوس ہوئی، وہ میں دیکھ اور پہچان چکا تھا۔ رات 9 بچے شدت کی سردی میں شروع ہونیوالے مذاکرات رات تین بجے بلا نتیجہ ختم ہو گئے ۔
آل رسول کہلانے کے خود ساختہ دعوے دار نے جب اپنے نانا کے قول کا بھرم نہ رکھا تو اور کسی کا کیا رکھتے۔ جی ہاں وہی عظیم ترین نانا کہ جو صادق اور امین تھے۔ جو وعدہ کرتے اسے پورا کرتے مگر کوئی ڈی این اے کے دور میں آل رسول کہلانے والوں کی تصدیق تو کرے۔
ہمارے ایک مہربان سید دوست کو نہ جانے کیا سوجھی، کہ انہوں نے باقاعدہ رقم ادا کرکے اپنے ڈی این اے کا تفصیل کے ساتھ مطالعہ کرایا تو معلوم ہوا کہ اس ’’خالص سید‘‘ کا ڈی این اے برصغیر ہی میں کہیں گھوم پھر رہا ہے اور کہیں سے بھی ان کے ڈی این اے کا ربط عربوں سے نہ ملا بلکہ ڈی این اے کی تحقیق نے انہیں لے جا کر انڈین مرہٹوں سے ملا دیا تھا جس پر انہوں نے اپنے نام کے ساتھ ہاشمی اور سید لکھوانا بند کر دیا مگر بعد میں خاندانی دباو پر خود ہی اپنا سابقہ سٹیٹس بحال کر لیا۔ وجہ پوچھی تو کہنے لگے میں چھوڑ بھی دوں لوگ کہاں چھوڑتے ہیں تو سوچا، چلنے دیں (جاری ہے)