کمشنر راولپنڈی اپنے دھماکہ خیز بیان کے ساتھ مسعتفی ہوگئے اور انہوں نے خود کو پنجاب پولیس کے حوالے کردیا ہے- الیکشن کمیشن پاکستان کے ترجمان کی جانب سے اس پر ردعمل دیا گیا- انہوں نے کہا کہ کمشنر کا الیکشن سے کوئی تعلق نہیں ہے اور نہ ہی آرآوز اس کے ماتحت ہوتے ہيں- یہ وہ موقف ہے جو بعد ازاں حکومت سازی کے لیے مذاکرات میں شریک پاکستان مسلم لیگ نواز اور پاکستان پیپلزپارٹی دونوں کی جانب سے دوہرایا گیا- صوبہ پنجاب کی ایڈمنسٹریشن نے بھی یہی موقف اپنایا ہے۔ کمشنر راولپنڈیڈویژن کے لگائے گئے الزامات انتہائی سنگین ہیں- یہ الزامات الیکشن اور الیکشن کمیشن کو مزید متنازعہ بنا گئے ہیں۔پاکستان ایسا ملک ہے جہاں پر تاریخ اپنے آپ کو دوہراتی رہتی ہے اور المیے سے مذاق بننے کے دائروی سفر سے گزرتی رہتی ہے۔ گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس سندھ کے سربراہ پیر پگارا نے کل لاکھوں کے اجتماع میں تقریر کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان مارشل لاء کی طرف بڑھ رہا ہے۔ ابھی ان کے بیان کی روشنائی بھی حشک نہیں ہو پائی تھی کہ بندوبست پنجاب میں وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کے سائے میں موجود راولپنڈی ڈویژن کے کمشنر لیاقت علی چھٹہ نے راولپنڈی ڈویژن کی قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلی کی تمام نشستوں پر دھاندلی کیے جانے کا اعتراف کیا- انہوں نے کہا کہ تمام ریٹرننگ افسران کو راولپنڈی کی نشستوں کے نتآئج بدلنے پر مجبور کیا گیا- انہوں نے دعوا کیا کہ جو امیدوار 70 ہزار ووٹوں سے ہار رہے تھے انہیں زبردستی جتوایا گیا۔پاکستان میں 8 فروری 2024ءکو منعقد ہونے والے عام انتخابات کے بارے میں ابھی تک کوئی جماعت ایسی نہیں ہے جس نے الیکشن کمیشن کی کارکردگی پر عدم اطمینان نہ ظاہر کیا ہو- پاکستان مسلم لیگ نواز جس کے تاحیات قائد میاں محمد نواز شریف ہیں نے نہ صرف خیبرپختون خوا کے انتخابی نتائج پر اعتراض کیا بلکہ اپنے گڑھ سمجھے جان والے وسطی پنجاب کے کئی اضلاع کی نشستوں پر مبینہ دھاندلی کا الزام بھی عائد کیا۔پاکستان پیپلزپارٹی کی مرکزی قیادت اور کئی ایک حلقوں کے امیواروں نے اب تک متعدد پریس کانفرنسوں میں کئی حلقوں میں انتخابات کو دھاندلی زدہ قرار دیا- ان کا خیال ہے کہ سندھ میں بھی کراچی کی درجنوں نشستوں پر دھاندلی ہوئی ہے۔ اے این پی ، جے یوآئی ، پشتون خوا ملی عوامی پارٹی الغرض کہ عام انتخابات میں حصّہ لینے والی اکثر جماعتوں کے نزدیک انتخابی نتائج جزوی یا اکثر جگہوں پر مشکوک تھے۔ پی ٹی آئی ، جے یو آئی ، جی ڈی اے پر مبنی کیمپ ایسا ہے کہ جو الیکشن کمیشن پاکستان کے ساتھ ساتھ اسٹبلشمنٹ کے اندر سابقہ اور موجودہ قیادت کو قصوروار ٹھہرارہے ہیں- اس فضاء میں کمشنر راولپنڈی کے کھلے اعترافات/ الزامات کے سامنے آنے نے الیکشن کمیشن پاکستان، پنجاب انتظامیہ اور غیرمنتخب ہئیت مقتدرہ سب پر شکوک و شبہات کی چادر ڈال دی ہے اور اس نے پی ٹی ائی کیمپ کا رویہ مزید جارحانہ کردیا ہے۔آٹھ فروری کے عام انتخابات کتنے صاف شفاف تھے یا نہیں ان کا جواب تو شاید حتمی انداز سے دینا کبھی ممکن نظر نہ آئے لیکن ایک تاثر جس کو رد کرنا اب ممکن نہیں وہ یہ ہے کہ عام انتخابات دھاندلی زردہ تھے۔ پی ٹی آئی اور جی ڈی اے کے تیور دیکھتے ہوئے ہمیں یہ اندیشہ ہے کہ حالات 77ء جیسے ہوسکتے ہیں اور پی ٹی آئی کی قیادت میں انتخابی دھاندلی کے خلاف بڑا اتحاد تشکیل پاسکتا ہے؟ اور تاریخ کا سبق یہ ہے کہ ایسے اتحادوں کے زیراثر جو احتجاجی تحریک منظم ہوئی وہ اکثر نئے مارشل پر جاکر ختم ہوئی اور پاکستان کو ایک بنانا ری پبلک تک کہا جاتا رہا ہے۔ کیا ہم پھر اسی طرف سفر کررہے ہیں؟ اس کا جواب جلد مل جائے گا
پاکستان سپر لیگ 2024 کے چیلنچز
پاکستان سپر لیگ (پی ایس ایل) کا نواں ایڈیشن کرکٹ کے سب سے متحرک ڈومیسٹک مقابلوں میں سے ایک کے ارتقاء میں ایک اور باب کی نشاندہی کرتا ہے۔ اپنے قیام کے بعد سے، پی ایس ایل اعلیٰ معیار کی ٹی ٹوئنٹی کرکٹ کا ایک مینار رہا ہے، جو نہ صرف مقامی ٹیلنٹ کو ایک پلیٹ فارم فراہم کرتا ہے بلکہ بین الاقوامی ستاروں کو بھی پاکستان کی طرف راغب کرتا ہے۔ اس ٹورنامنٹ نے پاکستان میں بین الاقوامی کرکٹ کو بحال کرنے میں ایک اہم کردار ادا کیا ہے- پاکستان میں کھیل کے میدانوں کی ویرانی کو رونق میلوں میں بدلا ہے۔پاکستان سپر لیگ انڈین پریمئیر لیگ- آئی پی ایل کے مقابلے میں شروع کی گئی تھی- اس کا ہدف دنیا کی دوسری سب سے بڑی ٹی ٹوئنٹی لیگ بننا تھا لیکن ٹی ٹوئنٹی انٹرنیشنل کی لینڈاسکیپ میں کافی اہم تبدیلیاں رونما ہو چکی ہیں- جنوبی افریقہ اور متحدہ عرب امارات بھی اب ان مقابلوں کے اہم حریف میزبان بن کر سامنے آچکے ہیں- اس نے دنیا بھر سے کھلاڑیوں کی دستیابی اور ان مقابلوں کے شیڈول کو ترتیب دینے کے عمل کو پیچیدہ بناکر رکھ دیا ہے۔اس سال پی ایس ایل کو بے مثال چیلنجز کا سامنا ہے جس نے اس کی چمک کو کسی حد تک مدھم کر دیا ہے۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ افغانستان کے راشد خان اور جنوبی افریقہ کے لونگی نگیڈی جیسے بین الاقوامی کرکٹ اسٹارز کی عدم موجودگی، جو دونوں ٹورنامنٹ سے دستبردار ہوچکے ہیں، لیگ کی اسٹار پاور کے لیے ایک اہم دھچکا ہے۔ یہ انخلاء پی ایس ایل کو ایک پرہجوم بین الاقوامی کرکٹ کیلنڈر پر نمایاں کرنے میں درپیش مشکلات کی نشاندہی کرتے ہیں۔ ٹورنامنٹ کے شیڈولنگ کی وجہ سے صورتحال مزید پیچیدہ ہو گئی ہے، جو کہ پاکستان کے عام انتخابات اور رمضان کے مقدس مہینے کے ساتھ ملی ہوئی ہے- اس سے ممکنہ طور پر کھلاڑیوں کی دستیابی اور تماشائیوں کی مصروفیت دونوں متاثر ہونے کا خدشہ موجود ہے۔
ان چیلنجوں کے باوجود پی ایس ایل پاکستان کرکٹ کے لیے انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ یہ مقامی ٹیلنٹ کو پروان چڑھانے اور انہیں بین الاقوامی سطح پر اپنی شناخت بنانے کا موقع فراہم کرنے کے لیے ایک اہم پلیٹ فارم ثابت ہورہا ہے کیونکہ جون میں امریکہ اور ویسٹ انڈیز میں ہونے والے ورلڈکپ کی وجہ سے بین الاقوامی اسٹار کھلاڑیوں کی پی ایس ایل میں شرکت نہ ہونے کے برابر ہے۔پی ایس ایل میں کھاڑیوں کی مخفی صلاحیتوں کو تلاش کرنے اور چمکانے کا ایک ٹریک ریکارڈ ہے، جس میں کئی کھلاڑی بین الاقوامی کامیابی حاصل کرنے کے لیے لیگ سے فارغ التحصیل ہیں۔ اس سال، پاکستان کی انڈر 19 ٹیم کے ارکان کی شمولیت، جس نے آئی سی سی ورلڈ کپ میں قابل ستائش کارکردگی کا مظاہرہ کیا، ٹورنامنٹ میں ایک دلچسپ جہت کا اضافہ کر دیا۔ ان نوجوان کرکٹرز کے پاس بابر اعظم، محمد رضوان اور شاہین شاہ آفریدی جیسے قومی ہیروز کے ساتھ میدان میں حصہ لینے کا موقع ہے، جو انہیں انمول نمائش اور تجربہ فراہم کرتے ہیں۔میدان سے باہر، پی ایس ایل کا پاکستان کے سماجی اور ثقافتی تانے بانے پر گہرا اثر ہے۔ پاکستان میں کرکٹ صرف ایک کھیل نہیں ہے۔ یہ ایک متحد کرنے والی قوت ہے جو سیاسی اور سماجی تقسیم سے بالاتر ہوکر قوم کو اکٹھا کرتی ہے۔ سیاسی پیش رفت کے خلفشار اور ٹورنامنٹ کے وقت کے باوجود، پی ایس ایل میں قوم کے تصور کو دوبارہ حاصل کرنے کی صلاحیت ہے، جو ہر ایک کو اس خوشی اور جذبے کی یاد دلاتا ہے جو ملک بھر میں کرکٹ کو متاثر کرتا ہے۔مزید یہ کہ بین الاقوامی کرکٹ سیاست میں پی ایس ایل کے کردار کو زیادہ نہیں سمجھا جا سکتا۔ بین الاقوامی ستاروں کی کامیابی کے ساتھ میزبانی کرکے اور سیکیورٹی خدشات کے درمیان ٹورنامنٹ کے ہموار آپریشن کو یقینی بنا کر، پاکستان نے کھیلوں کے بڑے ایونٹس کی میزبانی کرنے کی اپنی صلاحیت کا مظاہرہ کیا ہے، جس سے ماضی میں اس کو درپیش بین الاقوامی تنہائی کو بتدریج ختم کیا گیا ہے۔ اس کے عالمی کرکٹ کمیونٹی میں پاکستان کی پوزیشن پر وسیع تر اثرات مرتب ہوں گے، جو بین الاقوامی ٹیموں کے مستقبل کے دوروں اور آئی سی سی کے اہم ایونٹس کی میزبانی کرنے کی پاکستان کی صلاحیت کو ممکنہ طور پر متاثر کرے گا۔پی ایس ایل کے معاشی اور ترقیاتی پہلو بھی ذکر کے مستحق ہیں۔ یہ لیگ پاکستان کرکٹ بورڈ (پی سی بی) کے لیے آمدنی کا ایک اہم ذریعہ بن گئی ہے، جس میں نشریاتی حقوق، کفالت، اور ٹکٹوں کی فروخت ملک میں کھیل کی مالی صحت میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ مزید برآں، پی ایس ایل نے بنیادی ڈھانچے کی ترقی کی حوصلہ افزائی کی ہے اور کھیلوں کے انتظام سے لے کر مہمان نوازی تک بے شمار ملازمتیں پیدا کی ہیں، جس سے پاکستان میں کرکٹ کے ارد گرد کے مجموعی ماحولیاتی نظام میں اضافہ ہوا ہے۔جیسے ہی پی ایس ایل اپنے نویں ایڈیشن کا آغاز کر رہا ہے، اسے ایک لمحہ فکریہ اور موقع کا سامنا ہے۔ اگرچہ کچھ بین الاقوامی ستاروں کی عدم موجودگی ایک دھچکا ہے، لیکن اس سے مقامی ٹیلنٹ کے سامنے آنے اور اسپاٹ لائٹ حاصل کرنے کے دروازے کھل جاتے ہیں۔ لیگ کو اس سال درپیش چیلنجوں سے نمٹنے میں کامیابی اس کے مستقبل کی رفتار کو نئے سرے سے متعین کر سکتی ہے، جس سے نہ صرف پاکستان کرکٹ بلکہ عالمی ٹی ٹوئنٹی منظر نامے کی بنیاد کے طور پر اس کی پوزیشن کو یقینی بنایا جا سکتا ہے۔ جیسے ہی قوم اپنے کرکٹرز کے پیچھے کھڑی ہو جائے گی، پی ایس ایل کا اصل جوہر — اس کی حوصلہ افزائی اور متحد ہونے کی صلاحیت — بلاشبہ چمکے گی، جو پاکستان کی ثقافتی اور کھیلوں کی شناخت میں کرکٹ کے اہم کردار کی تصدیق کرے گی۔
انرجی سیکٹر میں بڑھتا ہوا گردشی قرضہ
پاکستان کا توانائی کا شعبہ ایک بظاہر پیچیدہ مسئلہ میں پھنسا ہوا ہے اور وہ ہے بڑھتا ہوا گردشی قرض۔ یہ قرضہ جو کہ اسٹرکچرل نا اہلی اور مالی عدم توازن کی علامت ہے، طویل عرصے سے اس شعبے کے لیے نقصان دہ بنا ہوا ہے، جو اس کی ترقی اور پائیداری میں رکاوٹ ہے۔ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے ساتھ حالیہ مذاکرات کے دوران یہ مسئلہ زیادہ زیربحث رہا ہے، جس دوران ایک گہرے چیلنج کا انکشاف ہوا ہے جو فوری اور پائیدار اصلاحات کا مطالبہ کرتا ہے۔آئی ایم ایف کی جانب سے ٹیرف ریشنلائزیشن اور گردشی قرضوں کے انتظام کی تجاویز کو مسترد کرنا ایک اہم تعطل کی نشاندہی کرتا ہے۔ ایک پائیدار اصلاحاتی منصوبے پر فنڈ کا اصرار ضمنی گرانٹس جیسے عارضی اصلاحات کی ناکافی کو نمایاں کرتا ہے، جس نے تاریخی طور پر مالی کھاتوں پر بوجھ ڈالا ہے۔ یہ صورتحال اس بات میں ایک مثالی تبدیلی کا مطالبہ کرتی ہے کہ پاکستان اپنے توانائی کے شعبے کی مالی صحت سے کیسے رجوع کرتا ہے۔ٹیرف میں اضافے کے ساتھ اصلاحات کو آگے بڑھنے کا واحد راستہ قرار دیا گیا ہے۔ گیس کی قیمتوں میں حالیہ اضافہ، جس کا مقصد کم آمدنی والے گھرانوں اور صنعتوں پر بوجھ کو محدود کرنا ہے، حکومت کی سماجی ذمہ داری کے ساتھ مالی استحکام کو متوازن کرنے کی کوشش کا ثبوت ہے۔ تاہم، بجلی کی قیمتوں میں آنے والا اضافہ ایک گہرے ہوتے ہوئے بحران کی نشاندہی کرتا ہے، جو کہ زندگی گزارنے کی لاگت اور اوسط پاکستانی گھرانے کے معاشی استحکام کو متاثر کرتا ہے۔حکومت نے کزشتہ دو سال سے گردشی قرض سے نمٹنے کے لیے جو حکمت عملی اپنائی وہ بجلی کی بنیادی قیمتوں میں اضافے، اضافی سرچارج جیسے پاور ہولڈنگ چارج – پی ایچ ایل کا نفاذ وغیرہ کرنا رہی ہے۔ مالیاتی اعتبار سے اس حکمت عملی کی افادیت کے حق میں کچھ دلائل نکل آتے ہوں گے لیکن اس نے عام آدمی کے اخراجات میں بے تحاشا اضافہ کیا ہے۔ بجلی کے بل ایک عام گھرانے کی آمدن کا بہت بڑا حصّہ لے جاتے ہیں اور اس نے بجلی کی کھپت کے رجحان میں بھی کافی کمی کی ہے۔نیپرا کی جو سٹیٹ آف انڈسٹری رپورٹ 2023ء تھوڑی امید دلاتی ہے اور مجموعی بل ریکوری میں جزوی اضافہ دکھاتی ہے۔ یہ بہتری اس لحاظ سے بھی ہے کہ بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں نے سرکاری محکموں سے بجلی کے بلوں کی مد میں 100 فیصد ریکوری دکھائی ہے۔ عرصہ دراز سے سرکاری محکموں کے ذمہ جو بجلی کے بلوں کی مد میں بقیہ واجبات تھے وہ وصول کیے گئے ہیں- یہ ریکوری متاثر کن تو ہے لیکن کیا یہ عمل یونہی مستقبل میں جاری رہے گا اس بارے میں کچھ کہنا قبل از وقت ہوگا کیونکہ حکومت نے سرکاری محکمووں کے بجلی کی مد میں یہ واجبات کمرشل بینکوں سے بھاری شرح منافع پر قرض حاصل کرکے ادا کرنے کا انتظام کیا ہے اور اس سے وفاقی حکومت پر جو مجموعی مالیاتی بوجھ ہے وہ بڑھ گیا ہے اور اس وجہ سے سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایسے قرض اٹھاکر انرجی سیکٹر کو کب تک مستحکم ظاہر کیا جاسکے گا؟ ایک تجویز یہ سامنے آئی ہے کہ بجلی کی فروخت کو بڑھاکر ادائیگیوں کی صلاحیت کو بہتر بنایا جاسکتا ہے کیونکہ بجلی کی فروخت میں کمی گردشی قرضے میں بڑھوتری کی بنیادی وجہ ہے۔ لیکن پاکستان کی اس وقت جو موجوعی معاشی صورت حال ہے اس کے ہوتے ہوئے یہ تجویز قابل عمل نہیں لگتی ہے۔مالیاتی سال 2024-25 میں کہا جارہا ہے کہ کیپسٹی چارجز انرجی چارچز کو دوگنا کردیں گے اور یہ بجلی کے عام صارفین اور انڈسٹری کے لیے بھی ناقابل برداشت ہوجائیں گے۔ ایسی صورت میں پاکستان کے حکام کو مجموعی معاشی حالات میں سدھار اشد ضروری ہوگا- توانائی کا شعبہ بجلی کی پیداوار، تقسیم اور کھپت کے باہم مربوط نیٹ ورک پر مشتمل ہے۔ انرجی سیکٹر کی یہ پیچیدگی ایک وسیع باہم مربوط تناظر کو اپنانے کا تقاضا کرتا ہے جس سے پائیدار اور طویل المعیاد حل میسر آئيں- ڈنگ ٹپاؤ فیصلوں سے اس شعبے میں درکار اصلاحات متعارف نہیں کرائی جاسکیں گی-سابقہ حکومتوں نے انرجی سیکٹر کو درپیش چیلنجز کے مقابلے میں قلیل المعیاد حل اپنائے س سے مسئلہ کچھ وقت کے لیے ٹلا لیکن حل کبھی نہیں ہوا- آئی ایم ایف کی طرف سے انرجی سیکٹر میں بنیادی اصلاحات کا مطالبہ اور آئی پی پیز سے ان کے واجبات کی واپسی کے معاملے پر مذاکرات ایک بار پھر پائیدار حل اور ٹھوس اسٹرکچرل اصلاحات کے اطلاق کی اشد ضرورت کی یاد دہانی ہیں- پاکستان کے انرجی سیکٹر کے مستقبل کے لیے ان اصلاحات کا نفاذ اور اس کے لیے سیاسی و معاشی استحکام انتہائی ضروری ہے۔انرجی سیکٹر کا گردشی قرضہ صرف ایک مالیاتی مسئلہ نہکں ہے بلکہ یہ ایک زیادہ گہرے نظام کے اندر موجود مسائل کا عکس ہے جن کو حل کرنے کے لیے جرآت مند قیادت اور بصیرت افروز فیصلہ سازی کی ضرورت ہے۔ پاکستان آج ایک ایسے دوہرائے پر کھڑا ہے جہاں پر آج کے کیے کئے فیصلے انرجی سیکٹر اور پاکستان کے معاشی مستقبل کا تعین کریں گے۔ استحکام کا راستا خطرات سے اٹا پڑا ہے اور اس راستے کے خطرات سے نمٹ کر ہی اس شعبے کو بہتر کیا جاسکتا ہے اور قوم کی خوشحالی کا یہی واحد طریقہ ہے۔آخر میں ہم صرف یہی کہیں گے کہ پاکستان کے انرجی سیکٹر میں گردشی قرضہ متنوع چیلنجز پر مشتمل ہے جس کے لیے انرجی سیکٹر کے موجودہ ڈھانچے کی تزویراتی اوورہال کی ضرورت ہے۔ آئی ایم ایف کا عارضی حل کی بجائے پائیدار اصلاحات پر زور اس مسئلے کی پیچیدگی اور اس کے فوری حل کی یاد دہانی ہے۔ پاکستان اس وقت جس کٹھن راستے پر گامزن ہے وہاں جدت کے حامل حل، سیاسی عزم اور اجتماعی ذمہ داری کی جتنی ضرورت آج ہے اتنی پہلے کبھی نہیں تھی- پائیدار انرجی سیکٹر کے حصول کا سفر طویل اور کٹھن ضرور ہے لیکن پاکستان کو اس سفر پر پورے جوش وعزم اور بصیرت کے ساتھ گامزن ہونا ہوگا-