تحریر : طارق قریشی
عنوان کے پہلے حصے کے حوالے سے تو میرے قارئین کو واضح ہو گیا ہو گا کہ اس وقت ملک میں سیاسی میدان میں کیا ہو رہا ہے۔ ایک بات طے ہے کہ پاکستان کی سیاست میں جو آج ہو رہا ہے وہ اس سے قبل کبھی نہیں ہوا۔ یہاں کھل کھلا کر مارشل لاء بھی لگتے رہے اور نقاب پوش مارشل لاء بھی‘ سیاست دان پھانسی بھی لگے‘ جلا وطن بھی ہوئے۔ اسٹیبلشمنٹ کے خلاف سیاسی جماعتوں نے اکیلے بھی آواز بلند کی اور سیاسی اتحاد بنا کر بھی اسٹیبلشمنٹ کے خلاف آواز اٹھائی گئی۔ یہ ساری تاریخ اپنی جگہ‘9 مئی کو جو ہوا نہ پاکستانی سیاست میں اس کی کوئی مثال ملتی ہے نہ ہی کسی سیاسی جماعت نے اس طرح دفاعی تنصیبات پر کبھی حملے کئے۔ بلوچستان اور خیبر پختونخواہ میں اس طرح کے واقعات ہوتے رہے ہیں۔ 9 مئی کے بعد پاکستان میں سب سے بڑی تبدیلی اسٹیبلشمنٹ کی پوزیشن میں آئی ہے۔ 9 مئی سے پہلے اسٹیبلشمنٹ پاکستان کی تاریخ میں سب سے کمزور پوزیشن جبکہ موجودہ آرمی چیف ایک کمزو ر فوجی سربراہ کے طور پر نظر آ رہے تھے۔ 9 مئی کے واقعات نے یکدم ساری صورتحال یکسر تبدیل کر دی۔ آج پاکستان کی تاریخ کی سب سے طاقتور اسٹیبلشمنٹ اور طاقتور ترین آرمی چیف جنرل عاصم منیر کی صورت میں موجود ہیں۔ تحریک انصاف تو رہی ایک طرف‘ اس وقت تمام سیاسی جماعتیں اسٹیبلشمنٹ کے فیصلوں کے رحم و کرم پر نظر آ رہی ہیں۔ ان زمینی حقائق کی موجودگی میں اب یہ دیکھتے ہیں کہ آئندہ دنوں میں کیا ہونے جا رہا ہے۔ 9 مئی سے پہلے بظاہر ایسا دکھائی دیتا تھا کہ ملک میں مقررہ وقت پر انتخابات کا انعقاد ممکن نہ ہو سکے گا۔ اس حوالے سے کبھی ایوان کے ذریعے حکومت اور اسمبلی کی مدت میں توسیع تو کبھی مالی ایمرجنسی لگا کر انتخابات کو سال دو سال کیلئے ملتوی کی بات سامنے آتی تھی تو کبھی موجودہ حکومت کی مدت کے خاتمے کے بعد آنے والی نگران حکومت کو غیر معینہ مدت تک توسیع دینے کی بات سامنے آ رہی تھی۔ 9 مئی کے واقعات کے بعد تحریک انصاف کی بحیثیت سیاسی جماعت کمزور پوزیشن‘ عمران خان کے خلاف سیاست میں دروازے بند ہونے کے ساتھ ساتھ آئی ایم ایف کی جانب سے حقارت آمیز سلوک نے سارا منظر تبدیل کر دیا ہے۔
اب ایک طرف تو پاکستان کے قریبی دوست ممالک دوسری طرف عالمی مالی اداروں کی جانب سے پاکستان میں مستقبل کی مالی سرمایہ کاری اور امداد کے حوالے سے ایک باضابطہ اور مستحکم حکومت کے حوالے سے اشارے مل رہے ہیں تو دوسری طرف معاشی میدان میں چھائے مکمل جمود کے خاتمے کیلئے ایک نئی منتخب حکومت کی ضرورت پہلی ترجیح بن گئی ہے۔ تحریک انصاف کی ٹوٹ پھوٹ سندھ میں بلدیاتی انتخابات میں بڑی کامیابی کے بعد آصف زرداری نے آئندہ حکومت بنانے کے حوالے سے باقاعدہ منصوبہ بندی شروع کر دی تھی۔ پنجاب میں مسلم لیگ (ن) کی کمزور پوزیشن جبکہ جنوبی پنجاب کے الیکٹیبلز کی تحریک انصاف سے جدائی نے آصف زرداری کے اس منصوبے کو بظاہر ممکن اور آسان ہدف بنا دیا تھا۔ جہانگیر ترین کی یوسف رضا گیلانی اور مخدوم احمد محمود سے قریبی رشتہ داری کے باعث پیپلز پارٹی کو یہ خیال تھا کہ جہانگیر ترین گروپ کا وزن بھی ان کے ساتھ ہو گا۔ اس طرح سندھ سے واضح اکثریت جبکہ جنوبی پنجاب میں 25 سے 30 نشستوں کے ساتھ پیپلز پارٹی خیبر پختونخواہ اور بلوچستان میں اپنے اتحادیوں کے ساتھ بآسانی وفاقی حکومت بنا لے گی۔ جہانگیر ترین کی جانب سے علیحدہ سیاسی جماعت کے قیام کے بعد تحریک اانصاف کے الیکٹیبلز نے جس طرح جوق در جوق اس جماعت میں شمولیت کی‘ اس سے پیپلز پارٹی اور آصف زرداری کو بڑا دھچکا لگا۔ جہانگیر ترین کی نوزائیدہ جماعت کے اکابرین کی جانب سے نواز شریف سے ملاقاتیں اور انتخابات میں مسلم لیگ (ن) کے ساتھ سیٹ ایڈجسٹمنٹ کی باتوں نے پیپلز پارٹی کو اپنی ساری منصوبہ بندی ناکام ہوتی دکھائی دینے لگی۔ ان تمام باتوں سے پیپلز پارٹی کے وزراء کے ساتھ ساتھ دیگر اکابرین کا لہجہ تلخ ہونے کے ساتھ ساتھ خود بلاول بھٹو بھی دھمکی آمیز تقاریر کرنے لگے۔
دوسری طرف پاکستان کے دوست ممالک کے ساتھ ساتھ خود اسٹیبلشمنٹ میں یہ سوچ سامنے آ رہی ہے کہ سیاسی استحکام کی خاطر موجودہ مخلوط نظام ہی بہتر ہے۔ مخلوط حکومت کی سربراہی کے حوالے سے بھی شہباز شریف آہستہ آہستہ سب کیلئے قابل قبول وزیر اعظم کے طور پر سامنے آ رہے ہیں۔ اس صورتحال میں اب یہ تو قریباً طے ہو گیا ہے کہ عام انتخابات اپنے مقررہ وقت پر ہی ہوں گے۔ یہ بھی لگ رہا ہے کہ نواز شریف بھی اب آئندہ حکومت شہباز شریف کے ذریعے ہی جاری رکھنے پر قائل ہو گئے ہیں۔ اس منصوبہ بندی کے تحت شہباز شریف حکومت کے سربراہ ہوں گے پارٹی معاملات مریم نواز کے ذریعے چلائے جائیں گے۔ اس طرح آہستہ آہستہ پارٹی مکمل طور پر مریم نواز شریف کے حوالے کر دی جائے گی۔ اس سارے انتظام میں یہ بھی طے کیا گیا کہ حمزہ شہباز شریف نہ وزیر اعلیٰ کے امیدوار ہوں گے نہ ہی پارٹی معاملات میں ان کا زیادہ عمل دخل ہو گا۔ سیاسی منظر نامے کی موجودہ صورتحال نے پیپلز پارٹی اور آصف زرداری کی مایوسی کے ساتھ ساتھ بلاول بھٹو و دیگر اکابرین بھی جھنجھلاہٹ کا شکار نظر آ رہے ہیں۔ پیپلز پارٹی میں یہ سوچ بھی دکھائی دے رہی ہے کہ بجٹ میں عوام کو ریلیف نہ دینے کا بہانہ بنا کر حکومت سے علیحدگی اختیار کر لی جائے مگر اسٹیبلشمنٹ کی ناراضگی کے ساتھ کسی بڑے فائدے کی امید نہ ہونے کے حوالے سے اس پر ابھی اتفاق نظر نہیں آ رہا۔ دوسری طرف مولانا فضل الرحمن مکمل طور پر نواز شریف کے ساتھ مستقبل کی سیاست کرتے نظر آ رہے ہیں۔ پنجاب میں قومی اسمبلی کی 160 نشستیں ہیں تمام تر مشکلات و مسائل کے باوجود آج بھی مسلم لیگ (ن) پنجاب میں سب سے بہتر پوزیشن میں نظر آتی ہے۔ شہباز شریف سے اسٹیبلشمنٹ کی پرانی محبت اگر باقاعدہ طور پر اشارے کے طور پر سامنے آ جاتی ہے جس کا امکان روز بروز بڑھتا جا رہا ہے تو آنے والے دنوں میں یہی ہوتا نظر آ رہا ہے کہ وفاق میں ایک مخلوط حکومت جس کی سربراہی شہباز شریف کے پاس ہو گی۔ خیبر پختونخواہ میں اتحادی حکومت جس کی سربراہی مولانا فضل الرحمن کی جماعت کے پاس ‘بلوچستان میں ’’باپ‘‘ پارٹی پر اعتماد جاری رہے گا اور سندھ میں پیپلز پارٹی۔ میرا ذاتی تجزیہ یہ بھی ہے کہ سندھ میں پیپلز پارٹی انتخابات کو جتنا آسان سمجھ رہی ہے اتنا آسان ہو گا نہیں۔ آخر میں یہ بتانا ایک بار پھر ضروری سمجھتا ہوں کہ میرا تجزیہ نہ علم نجوم کے حوالے سے ہے نہ کسی ’’چڑیا‘ نہ کسی چڑیل‘‘ کی خبروں کے حوالے سے ہے۔ سیاست اور تاریخ کے طالب علم ہونے کے ناطے سے ماضی اور موجودہ زمینی حقائق کے حوالے سے آئندہ دنوں میں ملک عزیز میں کیا ہونے جا رہا ہے اسے تجزئیے کے طور پر ہی پڑھیں گے نہ پیش گوئی سمجھیں نہ ہی اندرونی خبر۔۔