آج کی تاریخ

الیکشن میں دھاندلی،عمران خان کسے خط لکھنے والے ہیں ؟ بیرسٹر علی ظفر نے بتا دیا

کیا پاکستان میں پارلیمانی جمہوریت ناکام ہورہی ہے؟

موڈی انویسٹرز سروسز پہلی انٹرنیشنل ریٹنگ ایجنسی ہے جس پاکستان کی عام انتخابات کے بعد کی صورت حال پر تبصرہ کیا ہے- اس نے اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ اگرچہ سیاسی جماعتوں کے درمیان حکومت کی تشکیل کے لیے مذاکرات ہورہے ہیں جس کے نتیجے میں اگر مخلوط حکومت بنتی ہے تو وہ بہت زیادہ متحد اور سیاسی طور پر مضبوط نہیں ہوگی-ریٹنگ ایجنسی نے کہا ہے نئی حکومت کے سامنے مشکل ترین مگر ناگزیر اصلاحات کرنے کے لیے اتفاق رائے حاصل کرنے جیسا چیلنج ہوگا- یہ ایک ایسا تبصرہ ہے جو پاکستان کے موجودہ ادارہ جاتی سٹیٹس کو میں قرین قیاس نہیں لگتا ہے۔ کیونکہ پاکستان کے مقامی سیاسی اور معاشی پنڈت سب کے سب ایک ایسے ادارے کی ان معاملات میں پیروی کر رہے ہیں جس کا نام ‘سپیشل انوسیٹمنٹ فیسیلیٹشن کونسل – ایس آئی ایف سی ہے۔ اس کونسل میں چاروں صوبوں اور وفاق کے انتظامی سربراہان کے ساتھ ساتھ سول و ملٹری نوکر شاہی کے سربراہان شامل ہیں اور انہوں نے سٹینڈ بائی ارینجمنٹ- ایس بی اے کے نام سے عالمی مالیاتی فنڈ- آئی ایم ایف سے کیے جانے والے معاہدے میں درج شرائط کے ساتھ جڑے سیاسی چیلنچز کا مقابلہ کیا ہے اور اکثر شرائط پوری کی ہیں- 16 ماہ کی سابقہ پی ڈی ایم حکومت اور اس کے بعد نگران حکومت دونوں ادوار میں وفاقی کابینہ نے جو انتہائی سخت ترین فیصلے کیے وہ فیصلے کبھی نافذ نہ ہوپاتے اگر ایس آئی ایف سی انہیں مکمل سپورٹ نہ دیتی۔ایس بی اے معاہدے میں جو شرائط طے کی گئیں ان پر عمل درآمد بارے اس وقت پاکستان میں موجود دو بڑے سیاسی کیمپوں میں کسی ایک جماعت کے اندر بھی اختلاف نہیں پایا جاتا- ان میں سے ایک کیمپ کی دو بڑی سیاسی جماعتیں پاکستان مسلم لیگ نواز اور دوسری پاکستان پیپلزپارٹی ہے۔ دونوں جماعتوں کی قیادت نے پی ڈی ایم میں شامل دیگر جماعتوں کے ساتھ ایس بی اے معاہدے کی حمایت کی تھی اور جاتے ہوئے یہ ترمیم کی تھی کہ نگران سیٹ اپ ان شرائط کے تحت واجب اصلاحات کے عمل کو جاری رکھے گا اور کابینہ اس کے لیے درکار اقدامات کی مںطوری دے گی- ایس بی اے معاہدے کی رسمی منظوری سے پہلے آئی ایم ایف کے پاکستان مشن نے پی ٹی آئی سے ملاقات کرکے ان کی رضامندی بھی لی تھی جو اس وقت پاکستان کے دوسرے بڑے سیاسی کیمپ کی نمائندگی کر رہی ہے۔ دیکھا جائے تو پاکستان کی حکمران اشرافیہ کی سیاسی پرت ہوں یا سول و ملٹری پرت ہوں سب کی سب ایس بی اے کے تحت وہ اقدامات اٹھانے میں زرا بھی ہچکچا نہیں رہے جن کا براہ راست اثر اس ملک کے درمیانے ، محنت کش طبقے اور غریبوں پر پڑ رہا ہے۔ ان اقدامات میں سے سب سے بڑا قدم براہ راست ٹیکسز کی بجائے بالواسطہ ٹیکسز کی بھرمار ہے جس سے سب سے زیادہ متاثر غریب اور لوئر مڈل کلاس طبقہ ہوتے ہیں- پاکستان کے ٹیکسز کے نظام میں 65 فیصد ٹیکسز ان ڈائریکٹ/ بالواسطہ ہیں جبکہ 35 فیصد ٹیکسز ڈائریکٹ کیٹیگری میں شامل ہیں- ان میں ود ہولڈنگ ٹیکس بھی ہے جسے فنانس ڈویژن غلط طور پر ڈائریکٹ ٹیکس کہتا ہے جبکہ یہ بھی بالواسطہ ٹیکس ہے جو عام آدمی کو ادا کرنا پڑتا ہے۔ پاکستان میں ٹیکسز کو اکٹھا کرنے والا وفاقی ادارہ ایف بی آر ہے- یہ آج تک ایسا سسٹم ترتیب نہیں دے پایا جس سے فارمل ٹیکس نیٹ ورک سے باہر انفارمل سیکٹر کو دائرہ ٹیکس میں لایا جاسکے اور بدقسمتی سے پاکستان کی حکمران اشرافیہ چاہے وہ منتخب ہئیت مقتدرہ میں ہے یا غیر منتخب ہئیت مقتدرہ میں ان کی اکثریت ایسا نو دولیتیہ اور رینٹئر کلاس ہے جس کی آمدنی کے زرایع مشکوک اور اس کے بزنس اکثر ٹیکس نیٹ ورک سے باہر ہیں- پاکستان کے فوجی اور سویلین نوکر شاہی کے بگ باسز کے پاس انٹرنیشنل اور نیشنل سرمائے کے مفادات کے مطابق پالیسی سازی کے اختیارات ہیں اور جو پارلیمنٹ میں بیٹھی رینٹئر کلاس سے ہیں وہ ان اختیارات کو واپس پارلیمنٹ کو دلانے میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتے۔ اس رینٹئر کلاس سے تعلق رکھنے والے جتنے بھی لوگ پارلیمنٹ میں پہنچے انہوں نے سرکاری سبسڈیز کا 90 فیصد پاکستان کی اشرافیہ کے لیے مختص کیا- باقی کا جو دس فیصد تھا اس میں بھی قواعد و ضوابط کی باضابطگیاں پائی گئیں اور وہ بھی پاکستان کے غریبوں اور سفید پوش طبقے کے اکثر لوگوں کو نہ مل سکیں- دیکھا جائے تو پاکستان کی مقتدر اشرافیہ نے اپنا وتیرہ بنالیا ہے کہ اس نے سب سے زیادہ بوجھ ان پر ڈالنا ہے جو اس کے ٹیکس ڈائرے میں پہلے سے موجود ہیں جبکہ جو غیرموجود ہیں انہیں اس دائرے میں لانے کی زحمت نہیں کرنی- موڈی کی رپورٹ کا خلاصہ یہ ہے کہ پاکستان کی جانب سے آئی ایم ایف سے نئے پروگرام کے لیے مذاکرات کرنے کی جو اہلیت اور قابلیت ہے جو مجموعی بے یقینی کی صورت حال کے سبب بہت زیادہ خطرے کا شکار ہے جو جون 2023ء میں ایس آئی ایف سی بننے سے پہلے آئی ایم ایف سے ہر بار معاہدے کے ہونے کے آڑے آتی رہی-موڈی کی پاکستان کی سیاسی صورت حال کے بے یقینی ہونے کی پیشن گوئی اس رپورٹ کے شایع ہونے کے محض دو دن بعد ہی سچ ہوتی نظر آرہی ہے- کل سندھ میں موٹرے وے ایم نائن جامشورو انٹرچینچ کے قریب گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس نے سندھ میں انتخابات میں مبینہ دھاندلی کے الزامات کے خلاف احتجاجی دھرنا دیا اور ایم نائن موٹروے پر کارگو اور پسنجر ٹریفک مکمل طور پر بند ہوگئی- جمعیت علمائے اسلام کے مرکزی امیر مولانا فضل الرحمان نے نہ صرف شہباز شریف کی وزیراعظم کے آنے والے انتخاب میں حمایت کرنے سے انکار کردیا بلکہ انہوں نے پی ڈی ایم سے علیحدگی اختیار کرتے ہوئے ایک کمیٹی بنادی جو پی ٹی آئی کے ساتھ مل کر مبینہ انتخابی دھاندلی کے خلاف احتجاجی تحریک چلانے کا لائحہ عمل بنائے گی- پی ٹی اور جے یو ائی ایف کا باہمی اتحاد حرت انگیز پیش رفت سمجھا جارہا ہے۔ مولانا فضل الرحمان نے نواز لیگ سے اپنا سیاسی راستا الگ نہیں کیا بلکہ انہوں نے پی ڈی ایم کی 16 ماہ کی حکومت کے جواز کو بھی مشکوک بنانے کی کوشش کی جب انہوں نے یہ دعوا کیا کہ عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد سابق سربراہ مسلح افواج اور کورکمانڈر پشاور کا برین چائلڈ تھی-
ہفتے سے پاکستان تحریک انصاف آج سے انتخابات میں دھاندلی کے خلاف احتجاجی تحریک شروع کرنے جارہی ہے۔ پاکستان پیپلزپارٹی نے بھی ٹھٹھہ میں جلسہ عام کے زریعے جی ڈی اے کو جواب دینے کا اعلان کردیا ہے۔ جبکہ بلوچستان میں نیشنل پارٹی کے سربراہ ڈاکٹر مالک بزنجو نے بھی ایک پریس کانفرنس میں انتخابی نتائج کے خلاف تحریک چلانے کا اعلان کردیا ہے۔ بلوچستان نیشنل پارٹی -مینگل گروپ کے سربراہ سردار عطاء اللہ مینگل بھی انتخابی صورت حال سے خوش نہیں ہیں اور ان کا خیال ہے کہ پی پی پی میں شامل جمال ریئسانی، حضدار سے رکن صوبائی اسمبلی بننے والے سرفراز بگٹی اور وڈھ کے علاقے میں ان کے حریف شفیق مینگل کو اسٹبلشمنٹ نے ان کے مدمقابل لاکر کھڑا کیا ہے۔ ابھی تک انہوں نے احتجاج کا اعلان تو نہیں کیا لیکن کیا بعید ہے کہ وہ ایجی ٹیشن کے عروج پر پہنچنے پر بھی حاموش ہی رہیں گے؟ بلوچستان سے پشتون خوا ملی عوامی پارٹی کے محمود خان اچکزئی اپنی شکست کا ذمہ دار بھی اسٹبلشمنٹ کو قرار دے رہے ہیں-مذکورہ بالا تفصیل سے صاف پتا چل رہا ہے کہ پاکستان میں وہ سیاسی قوتیں جو موجودہ انتخابات میں اپنے آپ کو کسی کے اشارے پر ‘باہر’ رکھے جانے کو محسوس کررہی ہیں وہ سب کی سب احتجاج اور تحریک کے موڈ میں ہیں اور یہ سارے فریق ہوسکتا ہے کسی بڑے الائنس کا حصّہ بن جائیں اور ایک بڑے پیمانے پر ایجی ٹیشن سامنے آجائے۔ اس صورت حال نے سیاسی افق پر واقعی وہ سخت بے یقینی پیدا کی ہے جس کی طرف موڈی انویسٹرز سروسز کی حالیہ رپورٹ اشارہ کرتی ہے۔ موڈی کی رپورٹ بتاتی ہے کہ پاکستان کے اندر گزشتہ ڈیڑھ سال سے جو بلند ترین افراط زر معشیت کے سر پر منڈلاتا رہا جو 30 فیصد کے قریب قریب رہا ہے اس کی بڑی وجہ حکومت کے پاس پیسے کی کمی رہی ہے جسے پورا کرنے کے لیے نگران حکومت اور اس سے پہلے 16 ماہی پی ڈی ایم حکومت نے مقامی بینکوں سے بے تحاشہ قرض لیا۔ یہ بلند ترین شرح سود پر لیا گیا قرض ہے۔ اور افراط زر کی بلند ترین شرح نے سٹیٹ بینک پاکستان کی طرف سے شرح سود کو 21 فیصد تک جا پہنچایا جس کے پاکستان کے پرائیویٹ بڑنس سیکٹر پر بدترین اثرات مرتب ہوئے جس نے بینکوں سے زیرو فیصد کمرشل قرض لیا- درجنوں کارخانے بند ہوگئے اور اس نے بے روزگاری کی شرح میں بدترین اضافہ بھی کیا- افواط زر کے بڑھنے کی دوسری وجہ یہ ہے کہ ایس بی اے معاہدے کے مطابق پاکستان نے گیس ، بجلی کی پیداوار اور تقسیم کے سرکاری کارپوریٹ سیکٹر کے خساروں کو کم کرنا ہے اور اشرافیہ پرست ریاستی انتظامیہ نے اس کا طریقہ یہ نکالا ہے کہ غریب اور مڈل کلاس کو ملنے والی گیس و بجلی کے بلوں میں سبسڈی ختم کی جائے اور پوری لاگت وصول کرنے کے نام پر بلوں میں بے تحاشہ اضافہ کیا جائے- ایک روز پہلے گیس کی قیمتوں میں 67 فیصد اضافہ بھی اسی طرف اٹھایا گیا ایک قدم ہے۔پاکستان میں اس وقت غربت کی شرح 40 فیصد ہے- اگر افراط زر کی بلندی کا یہ سفر یونہی جاری رہا تو غربت میں اضافے کا یہ رجحان اور بڑھے گا- موڈی رپورٹ افراط زر اور غربت کی شرح میں اضافے کے رجحان کو مدنظر رکھ کر یہ پیشن گوئی کرتی ہے کہ پاکستان میں اگر سیاسی جماعتیں کسی احتجاجی تحریک کی طرف گئیں تو لامحالہ بدترین مہنگائی اور غربت میں بے تحاشا اضافے جیسے مسائل اس تحریک کے بنیادی مسئلے بن جائیں گے اور دھاندلی کے خلاف شروع ہونے والی احتجاجی تحریک کے ساتھ مہنگائی اور غربت کے سائے عوام کی ایک بہت بڑی تعداد جڑے گی- اور اس وقت اس تحریک مین شامل سیاسی جماعتیں کسی بھی حکومت کی جانب سے بجلی ، تیل اور گیس کی قیمتیں بڑھائے جانے سے جیسے اقدامات کی حمایت نہیں دیں گی- جس کا صاف صاف مطلب یہ ہوگا کہ حکومت کے لیے عالمی مالیاتی اداروں کی شرائط کا احترام کرنا مشکل تر ہوتا چلا جائے گا۔پاکستان میں اگر مہنگائی، غربت کے خلاف بڑے پیمانے پر احتجاج اگر پھوٹ پڑتا ہے تو اس صورت میں ایف آئی سی جیسا ادارہ بھی کچھ نہیں کرپائے گا۔موڈی سروسز ہو یا فچ ریٹنگ ایجنسی ہو ان جیسی عالمی ریٹنگ ایجنسیوں نے پاکستان کی کریڈٹ ریٹنگ کو اپ گریڈ نہیں کیا ہے۔ اس ریٹنگ کے اپ گریڈ نہ ہونے کے سبب پی ڈی ایم کی حکومت میں جو مالیاتی سال 2023-24 کا بجٹ تھا اس میں غیرملکی کمرشل بینکوں اور سکوک و یورو بانڈز کے زریعے سے 6 ارب ڈالر اکٹھا کرنے تھے وہ ابھی تک نہیں ہوئے ہیں- نکران وزیر حزانہ نے 15 نومبر 2023ء کو آئی ایم ایف کے ساتھ اسٹاف لیول ایگریمنٹ ریویو کے کامیابی سے تکمیل پذیر ہونے کا دعوا کیا لیکن اس کے باوجود کسی ریٹنگ ایجنسی نے پاکستان کی کریڈٹ ریٹنگ کو منفی سے مثبت نہیں کیا۔موڈی کی جاری ہونے والی تازہ ترین رپورٹ اور عالمی برادری کے پاکستان میں ہونے والے انتخابات پر تحفظات کے اظہار پر موجودہ نگران حکومت کا ردعمل ماضی کی ایڈمنسٹریشن سے مختلف نہیں ہے۔ ترجمان وزرات خارجہ ممتاز زھرا بلوچ نے ہفتہ وار بریفینگ کے زریعے حکومت پاکستان کا موقف بیان کرتے ہوئے انتخابی عمل کو پاکستان کا اندرونی معاملہ قرار دیا اور کہا کہ اس معاملے پر پاکستان کو غیر ملکی نصحیتوں کی ضرورت نہیں ہے۔ یہ ردعمل بالواسطہ طور پر پاکستان کی سیاسی صورت حال کے آئینے میں ملکی معشیت کو دیکھنے کے بارے میں بھی ردعمل کہا جاسکتا ہے۔ عالمی ریٹنگ ایجنسیز کی جانب سے پاکستان کی مالیاتی حالت اور میکرو اکنامک اشاریوں کی ابتری کو سیاسی صورت حال سے جوڑے جانے پر اس سے پہلے پی ڈی ایم کی حکومت میں وزیر حزانہ اسحاق ڈار نے بھی اسی طرح کا رد عمل دیا تھا- انھوں نے 6 دسمبر 2022ء کو موڈی کی جانب سے پاکستان کی کریڈٹ ریٹینگز گرائے جانے کو جتاؤنی دی تھی اور اسی روز پاکستان کے ایکسپورٹرز کو ایک کھرب دس ارب روپے کی سبسڈی بجلی کی مد میں جاری کردی تھی حالانکہ یہ ایکسپورٹرز اس سے پہلے 200 ارب روپے کی سبسڈی بجلی کی مد میں پی ٹی آئی حکومت سے لے چکے تھے جبکہ پوسٹ کرونا پیریڈ میں انھوں نے 5 فیصد مارک اپ پر کھربوں روپے کے قرضے بھی حکومت سے حاصل کیے تھے۔ لیکن اس کے باوجود یہ پاکستانی ایکسپورٹ کی گروتھ منفی ہونے سے بچا نہیں سکے تھے۔یہاں پر ایس ایف آئی سی سے بھی لوگ برملا یہ سوال کرتے ہیں کہ وہ بجلی، گیس، تیل سمیت یوٹیلٹی بلوں میں اضاے پر مبنی 16 ماہی پی ڈی ایم حکومت اور بعد والی نگران حکومت کے فیصلوں کے کامیابی سے نفاذ کا تو کریڈٹ لیتی ہے اور یہ بھی تاثر دیتی ہے کہ اس کونسل کے بغیر ان فیصلوں کا نفاذ ممکن نہیں تھا- لیکن دوسری جانب ایس ایف آئی سی نہ تو وفاقی حکومت کے خرچوں میں کمی لانے میں کامیاب ہوئی جو 30 فیصد کم کرنا تھے جو نہ ہوئے بلکہ مزید 25 فیصد اس میں اضافہ ہوگیا- ایسے ہی صوبائی اور ضلعی ایڈمنسٹریشنوں کے اخراجات میں بھی بے تحاشا اضافہ دیکھنے کو ملا- یوٹیلٹی بلوں میں اضافے کا براہ راست منفی اور تباہ کن اثر سفید پوش اور غریب طبقات پر پڑا لیکن حکومتی اخراجات پرکنٹرول نہ ہونے اور ان میں اضافے کا بھی تباہ کن اثر غریب اور عام آدمی کو ہی بھگتنا پڑ رہا ہے اور ایس ایف آئی سی اپنی اس ناکامی کو کیسے دیکھتی ہے، یہ سوال کیا اس کونسل کے اراکین اپنے آپ سے پوچھ سکتے ہیں؟ایس ایف آئی سی کے اراکین پاکستان کی مقتدر اشرافیہ کے طاقتور اراکین ہیں جن کے خرچوں میں 25 سے 30 فیصد اضافے نے پاکستان کو مقامی کمرشل بینکوں سے بلند شرح سود پر مزید قرضے لینے پر مجبور کیا اور اس سے قرضوں کی اقساط میں مزید اضافہ ہوگیا- اس نے پاکستان کی کریڈٹ ریٹنگ کو منفی کیا ہے جس کے سبب پاکستان کو آگے چل کر غیرملکی کمرشل بینکوں سے قرص اور سکوک بانڈز کی فروخت سے پیسے ملے بھی تو وہ انتہآئی بلند شرح سود پر ہوں گے اور ان کے ساتھ دیگر سخت ترین شرائط جڑی ہوں گی- ایسے میں اگر پاکستان کی غریب اور درمیانے طبقے سے تعلق رکھنے والے عوام حکومت کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں گے تو پاکستان کی معشیت کیسے سدھرے گی؟ اور ایسے میں سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ ان حالات میں پاکستان کی پارلیمانی جمہوریت پر مبنی نظام کیسے چل پائے گا؟

شیئر کریں

:مزید خبریں