آج کی تاریخ

کیا وزیراعظم کرپائیں گے؟

اتوار 3 مارچ 2024ء پاکستان مسلم لیگ نواز کے مرکزی صدر میاں محمد شہباز شریف دوسری بار وزیراعظم پاکستان منتخب ہوگئے۔ انھوں نے ایک ایسے وقت میں تقریر کی جب ایوان میں حزب اختلاف کے اراکین کے شور سے کان پڑی آواز سنائی نہ دے رہی تھی- ان کی تقریر کو نہ حوصلہ افزا کہا جاسکتا ہے نا ہی حوصلہ شکن۔ انھوں نے پاکستان میں معاشی استحکام لانے کے لیے سیاسی استحکام کو اشد ضروری قرار دیا- لیکن یہاں سوال یہ جنم لیتا ہے کہ کیا وزیراعظم پاکستان میاں محمد شہباز شریف پاکستان کے انتہائی کڑوے سیاسی ماحول کو شریں بنا سکیں گے؟ کیا وہ اس قابل ہو پائیں گے کہ پاکستان کو معاشی بحران سے نکالنے کے لیے بین الاقوامی برادری سے امداد اور قرض کے خواہاں ہوں تب انہیں پاکستان کی تمام سیاسی جماعتوں کا اعتماد حاصل ہو؟ یہ بہت مشکل نظر آرہا ہے لیکن ناممکن نہیں ہے۔ اس کے لیے حکومتی سطح پر اورزیادہ لچک کے مظاہرے کی ضرورت ہوگی- یکن اس سے بھی اہم سوال یہ ہے کہ وہ کب معاشی و سیاسی میدان میں ابتری کا رونا روتے رہیں گے؟ کب تک پاکستان کی معشیت پر بڑھتے ہوئے قرضوں کے بوجھ کا الزام دوسروں پر
ڈالتے رہیں؟ انہیں اب یہ ثابت کرنا ہوگا کہ وہ پاکستان پر قرضوں کے بوجھ کیسے کم کریں گے؟ کیسے ایکسپورٹ کو بڑھائیں گے؟ کیسے بلند ترین شرح سود کو کم کریں گے؟ اور بدترین افراط زر کو کیسے نیچے لیکر آئیں گے؟ کیونکہ انہوں نے اپنی تقریر میں یہ اعتراف کرلیا ہے کہ 700 ارب کے ریاستی اداروں پر قرض اور 5 کھرب 73 کروڑ سے زیادہ پاور سیکٹر کے گردشی قرضے کے ہوتے ہوئے ترقی کے لیے فنڈز خرچ کرنا ممکن نہیں ہے۔ ان کے وزیراعظم منتخب ہونے سے دو روز پہلے وفاقی وزرات خزانہ نے پاکستان کی معشیت بارے اپنی ماہانہ رپورٹ میں صاف صاف لکھا کہ پاکستان کی معشیت کے بحران کی سب سے بڑی وجہ قرضوں کا بوجھ ہے۔ جبکہ اس نے یہ بھی لکھا کہ بلند شرح سود کے سبب ایکسپورٹ سے جڑے کاروبار کی ترقی کا امکان محال ہے۔ وزیراعظم میاں محمد شہباز شریف نے کسان، خواتین، نوجوانوں کو جو سبسڈیز دینے کے وعدے کیے ہیں ، کیا وہ وعدے پورے ہوپآئیں گے؟ کیونکہ اس وقت آئی ایم ایف سمیت عالمی مالیاتی اداروں خاص طور پر ائی ایم ایف کی طرف سے پاکستان سے جس مالیاتی نظم و ضبط کے قیام کا مطالبہ ہے اسے دیکھتے ہوئے کسانوں، نوجوانوں اور عورتوں کو سبسڈی دیا جانا ممکن نظر نہیں آتا- راستا ایک ہی ہے کہ ایک تو سرکاری شعبے میں چلنے والے انٹرپرائز، پاور ڈسٹری بیوشن سیکٹر اور پاور جنریشن سیکٹر میں سٹرکچرل اصلاحات کرکے 700 ارب روپے کا خسارا ختم کیا جائے اور پاور سیکٹر کا گردشی قرضہ – یہ وہ سبق ہے جو ہمیں زیادہ شدت سے 2016ء سے ہر ایک ‘آزاد ماہر معشیت نے پڑھایا اور اسے سیاستدانوں نے بھی دہرایا؟ لیکن گزشتہ 8 سال سے اس سبق پر عمل درآمد زیر التوا چلا آ رہا ہے۔ اس زیر التواء کی ساری سزآئیں عام آدمی کو سنائی جا رہی ہیں کیونکہ کسی حکومت نے نہ تو ریاستی اداروں میں سٹرکچرل اصلاحات کیں اور نا ہی ٹیکس کے دائرے سے باہر ‘مہا امیروںپربراہ راست ٹیکسز لگائے گئے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا دوسری بار وزیراعظم بننے والے میاں محمد شہباز شریف وہ کرپائیں گے جو خود وہ 16 ماہ میں نہیں کر پائے تھے؟ کیا وہ اپنے سے پیش رو وزرائے اعظم کی جانب سے ریت میں سر دباکر آنے والے طوفانوں سے بچنے کا واہمہ ‘پالے رکھیں گے اس وہمے سے خود کو نجات دلاکر عوام کی تکلیفوں کا ٹھوس اور قابل عمل حل تلاش کریں گے؟ ہم نے پہلی بار وزیراعظم بننے پر میاں شہباز شریف کو یاد دہانی کرائی تھی کہ اب ان کا منصب ایک صوبے کے انتظامی سربراہ کا نہیں بلکہ پورے پاکستان کے انتظامی سربراہ کا ہے – ایک ایسے ملک کے انتظامی سربراہ کا جس کے بجٹ میں ‘ڈویلپمنٹ کی گنجائش سکڑ رہی ہے اور غیر ترقیاتی حکوتی
اخراجات میں ہنگامی بنیادوں پر بڑی کٹوتی کیے بغیر کاروبار حکومت چلانا مشکل کی بجائے ‘ناممکن ہو گیا ہے۔ لیکن وائے افسوس کہ نہ تو غیرترقیاتی حکومتی اخراجات میں کمی آئی (بلکہ 26 فیصد زائد اخراجات کیے کئے) اور ایسے پروجیکٹس کے لیے پی ایس ڈی پی میں فنڈز رکھے گئے جن کی سر دست ضرورت نہیں تھی- اب کی بار ان کے سامنے فوری کرنے کا کام جو زیرالتوا ہے وہ وفاق میں ان 50 مکموں کا خاتمہ ہے جو 18 ویں ترمیم کے بعد صوبوں کو منتقل ہوگئے ہیں اور ان پر ہر سال 200 ارب روپے خرچ ہورہا ہے۔ یہ 200 ارب وہ بچا پائیں گے؟ انہیں یاد رکھنا ہوگا کہ ان کا مقابلہ ایک ایسی حزب اختلاف سے ہے جو سرے سے ان سے بات کرنے کو تیار نہیں ہے اور اس کا عزم ہے کہ وہ ایوان کو چلنے نہیں دیں گے جسے انھوں نے شور سے اور اپنے اتحادی حکومتی کیمپ کی سیاسی لائن کو ‘شعور سے تشبہ دی ہے عام آدمی ان کی سیاسی لائن کو ‘شعور‘ تب سمجھے گا جب ان کی حکومت عام آدمی کو ریلیف پہنچانے کے لیے ٹھوس اقدام اٹھائے گی۔

اغوائے ڈیٹا فائلز برائے تاوان

سائبر کرائمز کے خلاف عالمی سطح پر مسلسل لڑائی جاری ہے۔ حال ہی میں بدنام زمانہ ‘لاکبٹ نامی ایک سائبر کرائمز گروپ کے خلاف کامیاب کاروائی کی گئی ہے – یہ کاروائی قابل تعریف ہے۔ اس کاروائی میں امریکہ ، برطانیہ، یورپول اور دیگر نے مشترکہ طور پر حصّہ لیا اور اس مشترکہ کاروآئی کے نتیجے میں حاصل ہونے والی کامیابی نے ڈیجیٹل دور میں سائبر کرائمز کے خلاف عالمی سطح کے اشتراک کی اہمیت کو اجاگر کردیا ہے۔
‘اغوائے ڈیجٹل ڈیٹا برائے تاوان‘ سائبرکرائمز کی دنیا میں متعارف ہونے والا ایک ایسا جرم ہے جس میں سائبر کرائمز گروپ سافٹ وئیر کے زریعے کسی بھی فرد یا کمپنی کے کمپیوٹرز تک رسائی حاصل کرکے انتہائی قیمتی ڈیٹے پر مشتمل فائلیں چرا لیتے ہیں اور اسے واپس کرنے کے بدلے تاوان طلب کرتے ہیں حساس معلومات کا ڈیٹا چرا کر تاوان طلب کرنے والے ایسے گروہ کے ریکٹ بڑی تیزی سے سامنے ائے ہیں جن میں لاکبٹ بھی شامل تھا اور یہ انتہائی خطرناک ریکٹ تھا- ان کے اہداف عالمی سطح پر صحت، تعلیم جیسے شعبے تھے۔
لاکبٹ کے خلاف سرانجام دیا جانے والا آپریشن ‘کرنوس کے نام سے شروع کیا گیا جس نے صرف کریک ڈاؤن ہی نہیں کیا بلکہ اس نے لاکبٹ کے نیٹ ورک کے اندر گھس کر ان کے تزویراتی اتحادوں تک رسائی حاصل کی‘ ایف بی آئی اور این سی اے کا مشترکہ پروگرام ‘ہیکرز کی ہیکنگ‘ ایسا کامیاب پروگرام ہے جس سے پاکستان میں بھی سائبر کرائمز کیخلاف کام کرنے والے سرکاری اداروں کو سیکھنے کی ضرورت ہے۔
آج جب عالمی سطح پر لاکبٹ کے خلاف کامیابی کی خوشی منائی جا رہی ہے ت ہمیں اس بات کا ادراک کرنے کی ضرورت ہے کہ ‘سائبرخطرہ روز بروز بڑھ رہا ہے۔ ایک گروہ کے خاتمے سے ‘اغوائے ڈیٹا فائلز برائے تاوان‘/رینسم وئیر یا سائبر کرائمز کا خاتمہ نہیں ہے۔ یہ ایک بڑی جاری جنگ کے میدانوں میں سے ایک میدان میں ہورہی لڑائی میں حاصل ہونے والی جیت ہے۔ سائبر کرائمز کی دنیا کے مجرم نت نئے طریقوں اور اختراعات کے ساتھ میدان میں اتر رہے ہیں۔
سائبرکرائمز میں بروئے کار لائی جانے والی جدت کے سب سے زیادہ متاثرہ وہ ممالک ہیں جہاں ٹیکنالوجی کی ترقی ابھی سست ہے یا وہ سائبر خطرے سے نمٹنے کے لیے درکار ٹیکنالوجی سے آراستہ ہونے میں سست رفتار ہیں- پاکستان اس کی ایک مثال ہے۔ سائبر خطرات کے روپ میں اسے بہت بڑے اندرونی اور جیوسٹرٹیجک چیلنچز کا سامنا ہے۔ ڈیجیٹل کی دنیا میں کوئی قوم یا ملک الگ تھلگ جزیرہ نہیں ہے بلکہ سائبر خطرہ لامحدود، مادی اور سیاسی روکاوٹوں سے ماورا ہے۔ اس تناظر میں پائیدار اور ٹھوس بین الاقوامی تعاون اور نگرانی وقت کا اہم تقاضا ہے۔ آپریشن کرنوس مستقبل کی سرگرمیوں کے لیے ایک بلیو پرنٹ کا کام دینے والا کارنامہ ہے جو اس بات کی تصدیق کرتا ہے کہ اشتراک، انٹیلی جنس شئیرنگ اور تکنیکی صلاحیتوں سے استفادہ کرنا مشترکہ خطرے کے خلاف اہم کامیابیاں دلا سکتا ہے۔
اس حوالے سے تعاون اور عمل کو سرکاری کوریڈورز اور قانون نافذ کرنے والے اداروں سے آگے سماجی سطح پر لیجانے کی ضرورت ہے۔ سائبر سیکورٹی ہائچین/ صفائی اور استحکام لانے کے لیے معاشترتی اور تنظیمی سطح پر بنیادی شفٹ/ بدلائ کی ضرورت ہے۔ جیسا کہ سائبر مجرم نت نئی اختراعات کررہے ہیں تو ہمارا سائبر دفاع بھی ریاست سے آگے کاروباری اداروں، تعلیمی اداروں اور یہاں تک کہ افراد کے درمیان زیادہ بہتر اشتراک سے سامنے آنا چاہئیے۔
ڈیجیٹل دور ایک پیچیدہ اور تھیٹریکل پرچھائیاں کے ساتھ حملہ آور سائبر کرائمز گروپوں کی بھرمار والا دور ہے جس میں ہمیں مسلسل چوکنا رہنے اور لڑتے رہنے کی ضرورت ہے۔

شیئر کریں

:مزید خبریں