آج کی تاریخ

Champions Trophy 2025, Cricket Champions Trophy,

کیا نئے امریکی صدر ٹرمپ کارڈ ثابت ہوں گے؟

ڈونلڈ ٹرمپ کی امریکی سیاست میں واپسی نے دنیا بھر میں ایک بار پھر ہلچل مچا دی ہے۔ ان کی پالیسیوں اور غیر روایتی انداز کی وجہ سے عالمی سیاست میں کئی ممالک کے لیے نئے چیلنجز اور مواقع پیدا ہو گئے ہیں۔ پاکستان میں بھی ٹرمپ کی دوبارہ صدارت کو گہری دلچسپی سے دیکھا جا رہا ہے، جہاں کچھ لوگ ان کی پالیسیوں کو پاکستان کے لیے فائدہ مند سمجھتے ہیںجبکہ دیگر ان کی سخت گیر پالیسیوں کو ممکنہ خطرات کے طور پر دیکھ رہے ہیں۔ ٹرمپ کے پہلے دور حکومت میں پاکستان کے ساتھ تعلقات میں کشیدگی اور اختلافات دیکھنے میں آئے، تاہم افغانستان سے امریکی انخلا اور خطے میں چین کے بڑھتے اثرات نے پاکستان کی اہمیت میں اضافہ کیا۔کیا ٹرمپ اب پاکستان کے ساتھ بہتر تعلقات استوار کریں گے یا چین کے اثرات کو کم کرنے کے لیے پاکستان پر دباؤ ڈالیں گے؟
2017 میں صدر بننے کے بعد ڈونلڈ ٹرمپ نے پاکستان پر سخت موقف اختیار کیا۔ ان کی حکومت کا مؤقف تھا کہ پاکستان کی جانب سے دہشت گردی کے خلاف مناسب اقدامات نہیں کیے جا رہے۔ انہوں نے بارہا الزام لگایا کہ پاکستان دہشت گردوں کو محفوظ پناہ گاہیں فراہم کر رہا ہے جو افغانستان اور دیگر خطوں میں امریکی مفادات کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔ اس تناظر میں ٹرمپ نے 2018 میں پاکستان کی فوجی امداد بند کر دی اور ’ڈو مور‘ کا مطالبہ کرتے ہوئے پاکستان پر دباؤ ڈالا کہ وہ دہشت گردوں کے خلاف کارروائیاں تیز کرے۔افغانستان میں امریکی فوجی موجودگی اور انخلا ٹرمپ حکومت کا ایک بڑا چیلنج تھا۔ ٹرمپ نے افغانستان سے امریکی افواج کے انخلا کا فیصلہ کیا اور اس سلسلے میں طالبان کے ساتھ مذاکرات کا آغاز کیا۔ اس دوران پاکستان نے طالبان کو مذاکرات کی میز پر لانے میں اہم کردار ادا کیا، جس پر امریکی حکومت نے مثبت ردعمل دیا اور پاکستان کو ایک بار پھر اہمیت دی۔ مگر اس کے باوجودٹرمپ کا مؤقف عمومی طور پر سخت رہا اور انہوں نے پاکستان پر مزید تعاون کا دباؤ برقرار رکھا۔ٹرمپ حکومت نے پاکستانی امداد کو محدود کر دیا اور فوجی امداد پر بھی کڑی شرائط عائد کیں۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کو دہشت گردی کے خلاف ’ڈو مور‘ کرنا ہوگا۔ اس امدادی کٹوتی نے پاکستانی معیشت پر منفی اثر ڈالا اور پاکستان کو دیگر ممالک اور مالیاتی اداروں سے مدد کی طرف دیکھنا پڑا۔ اس امدادی کمی کے باوجوددونوں ممالک کے درمیان تعلقات میں مکمل قطع تعلقی نہیں آئی اور بات چیت جاری رہی۔
ٹرمپ حکومت نے بھارت کے ساتھ اپنے تعلقات کو مزید مستحکم کیا اور اسے جنوبی ایشیائی خطے میں اہم اتحادی تصور کیا۔ اس کا اثر پاکستان پر بھی ہوا اور خطے میں بھارت کے بڑھتے ہوئے کردار کو پاکستانی حکام نے ہمیشہ تشویش کی نظر سے دیکھا۔ ٹرمپ کی بھارت کے ساتھ قربت نے پاکستان کو امریکہ سے مزید دور کر دیا اور دونوں ممالک کے تعلقات میں سرد مہری پیدا کی۔اب جبکہ ڈونلڈ ٹرمپ دوبارہ صدر بن گئے ہیں، تو یہ جاننا دلچسپ ہوگا کہ آیا ان کی پالیسیوں میں تبدیلی آئے گی یا وہ پہلے سے زیادہ سخت رخ اختیار کریں گے۔افغانستان سے امریکی افواج کے انخلا کے بعد خطے میں عدم استحکام پیدا ہوا ہے اور اس کے اثرات پاکستان پر بھی پڑے ہیں۔ طالبان کی حکومت کے بعد امریکہ کو پاکستان کی جغرافیائی اہمیت دوبارہ محسوس ہو رہی ہے۔ ٹرمپ ممکنہ طور پر پاکستان سے افغانستان میں استحکام کے لیے تعاون مانگیں گے، خاص طور پر دہشت گردی کے خلاف کارروائیوں میں۔ اگرچہ ٹرمپ ماضی میں پاکستان پر شک و شبہات ظاہر کر چکے ہیں، مگر اس بار وہ اس تعاون کو مختلف انداز میں حاصل کرنے کی کوشش کر سکتے ہیں۔
چین اور امریکہ کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی میں پاکستان کی جغرافیائی اور اقتصادی اہمیت مزید بڑھ چکی ہے۔ چین پاکستان کا ایک قریبی دوست اور سی پیک جیسے منصوبے میں اہم سرمایہ کار ہے۔ ٹرمپ کی حکومت ممکنہ طور پر پاکستان کو چین سے دور رکھنے کے لیے دباؤ ڈال سکتی ہے۔ وہ پاکستان پر اقتصادی، سیاسی یا سکیورٹی سطح پر اس دباؤ کو بڑھا سکتے ہیں تاکہ پاکستان چین کی قربت کو کم کرے۔ڈونلڈ ٹرمپ معاشی معاملات میں سخت گیر پالیسیوں کے حامی ہیں۔ ان کی حکومت ممکنہ طور پر پاکستان کو امداد دینے کے بجائے تجارتی معاہدے کرنے پر زور دے سکتی ہے تاکہ پاکستان امریکی مصنوعات خریدے اور تجارت کو فروغ دے۔ اس کے ساتھ ساتھ، امریکہ پاکستانی مارکیٹ میں رسائی بڑھانے کی کوشش کرے گا تاکہ دونوں ممالک کے درمیان اقتصادی تعلقات کو مزید مستحکم کیا جا سکے۔ یہ اقدامات امداد کی بجائے تجارتی تعاون کی صورت میں پاکستان کے لیے نئے مواقع فراہم کر سکتے ہیں۔
ٹرمپ کے پہلے دور حکومت میں بھارت کے ساتھ امریکی تعلقات بہتر ہوئے اور یہ تعلقات ممکنہ طور پر ان کے دوسرے دور میں بھی برقرار رہیں گے۔ مسئلہ کشمیر پر ٹرمپ کا مؤقف کافی مبہم رہا ہے۔ ایک طرف انہوں نے ثالثی کی پیشکش کی تو دوسری طرف بھارت کے ساتھ مضبوط تعلقات بھی برقرار رکھے۔ آئندہ دور میں بھی وہ ثالثی کے حوالے سے ایک بار پھر پیشکش کر سکتے ہیں، مگر اس بات کا دارومدار بھارت اور پاکستان کی رضا مندی پر ہوگا۔ بھارت کی جانب سے ٹرمپ پر مزید اثر انداز ہونے کی کوشش کی جا سکتی ہے تاکہ مسئلہ کشمیر پر وہ غیرجانبدار رہیں۔
ٹرمپ کی ممکنہ سخت پالیسیز پاکستان کی داخلی سیاست اور معیشت پر اثر انداز ہو سکتی ہیں۔ امداد میں کمی اور تجارتی تعلقات کے دباؤ کے باعث پاکستان کو معاشی چیلنجز کا سامنا ہو سکتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ امریکہ-چین کشمکش میں پاکستان کی پوزیشن بھی ایک حساس موضوع بن سکتی ہے اور اس معاملے میں پاکستان کو خارجہ پالیسی میں محتاط رہنا ہوگا۔امریکہ کی نئی ممکنہ پالیسیز پاکستان کی اقتصادی صورت حال پر اثر انداز ہوں گی۔ پاکستان کو اپنی معیشت کو مستحکم کرنے کے لیے دیگر ممالک کے ساتھ تعلقات میں توازن برقرار رکھنا ہوگا۔ چین، ترکی اور خلیجی ممالک کے ساتھ تعلقات میں مزید بہتری پاکستان کی معاشی استحکام کے لیے معاون ثابت ہو سکتی ہے۔ٹرمپ کی دوبارہ ممکنہ سخت گیر پالیسیوں کے تناظر میں پاکستان کے لیے نئی خارجہ حکمت عملی اپنانا ناگزیر ہوگا۔ چونکہ امریکہ نے حالیہ برسوں میں پاکستان سے کئی مطالبات کیے ہیں، اس بات کی توقع کی جا سکتی ہے کہ ٹرمپ اپنی دوسری مدت کے دوران بھی پاکستان کو مختلف معاملات میں آزمائیں گے۔ پاکستان کے لیے ضروری ہوگا کہ وہ چین، خلیجی ممالک اور ترکی کے ساتھ اپنے تعلقات کو مزید مستحکم کرے تاکہ امریکی دباؤ کا سامنا کرتے ہوئے اپنی معاشی اور سکیورٹی صورتحال کو محفوظ بنا سکے۔
ٹرمپ کے دوبارہ صدر بننے کے بعد، افغانستان میں طالبان حکومت اور وہاں کے حالات پر امریکی توجہ مرکوز ہوگی۔ امریکہ یہ چاہے گا کہ پاکستان افغانستان میں استحکام کے لیے مؤثر کردار ادا کرے۔ اس مقصد کے لیے پاکستان کو ناصرف اپنی سرحدی پالیسی مضبوط کرنی ہوگی بلکہ داخلی سطح پر بھی انسداد دہشت گردی کے حوالے سے اقدامات کو مزید بہتر کرنا ہوگا۔ امریکی حکومت پاکستان کو مزید دباؤ میں لا کر یہ چاہے گی کہ وہ طالبان کے ساتھ تعلقات کو محدود کرے، جو کہ پاکستان کے لیے ایک چیلنجنگ صورتحال ہو سکتی ہے۔ٹرمپ کی معاشی پالیسیز کی بنیاد پر، امید کی جا سکتی ہے کہ وہ پاکستان کے ساتھ تجارتی تعلقات کو فروغ دینا چاہیں گے۔ وہ چاہیں گے کہ پاکستان امریکی مصنوعات کو ترجیح دے اور امریکی کمپنیوں کے لیے اپنی مارکیٹ کو مزید کھولے۔ پاکستان کے لیے یہ موقع ہوگا کہ وہ اپنی برآمدات کو بڑھائے اور تجارتی خسارے کو کم کرے۔ البتہ اس میں بھی پاکستان کو اپنے قومی مفادات کا تحفظ کرنا ہوگا اور اپنی معیشت کو غیر ملکی دباؤ سے محفوظ رکھنا ہوگا۔ٹرمپ کا بھارت کی جانب جھکاؤ پاکستان کے لیے کسی بھی صورت میں مثبت نہیں ہوگا۔ ان کی دوبارہ صدارت کے دوران بھارت کے ساتھ امریکی تعلقات مزید مستحکم ہو سکتے ہیں، جو کہ پاکستان کو عالمی سطح پر مزید تنہا کرنے کی کوشش بھی ہو سکتی ہے۔ مسئلہ کشمیر پر ٹرمپ کی ممکنہ ثالثی کا عندیہ ایک موقع تو فراہم کرتا ہے، مگر اس پر بھارت کے ساتھ تعلقات کو مدِنظر رکھتے ہوئے پاکستان کو یہ سمجھنا ہوگا کہ وہ اس ثالثی سے کس حد تک فائدہ اٹھا سکتا ہے۔
ٹرمپ کی واپسی پاکستان کے لیے کئی پیچیدہ چیلنجز لائے گی، مگر ان میں مواقع بھی شامل ہیں۔ پاکستان کو اپنی خارجہ پالیسی میں خود مختاری اور توازن کو برقرار رکھنا ہوگا تاکہ وہ امریکہ اور چین کے تعلقات میں اپنی اہمیت کو کم نہ ہونے دے۔ پاکستان کو یہ سمجھنا ہوگا کہ امریکی پالیسیوں کا تعلق صرف فوجی اور سکیورٹی امداد سے نہیں بلکہ معاشی، سیاسی اور جیوپولیٹیکل حالات پر بھی ہے۔ اگر پاکستان اپنی داخلی اور خارجہ پالیسی کو مستحکم رکھے تو وہ امریکی دباؤ کے باوجود اپنے مفادات کا تحفظ کر سکتا ہے۔
پاکستان کے عوام میں ایک تاثر عام ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کی صدارت میں واپسی سے عمران خان کی رہائی یا ان کی سیاسی صورتحال میں بہتری آ سکتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ماضی میں ٹرمپ اور عمران خان کے درمیان ایک دوستانہ تعلق دیکھا گیا، خصوصاً جب ٹرمپ نے افغان امن مذاکرات کے دوران پاکستان کے کردار کو سراہا اور عمران خان کو واشنگٹن میں مدعو کیا۔ عمران خان کی حمایت اور امریکی صدر کے ساتھ ان کے تعلقات کو دیکھتے ہوئے پاکستان میں کچھ افراد یہ خیال کرتے ہیں کہ ٹرمپ کی حکومت دوبارہ آنے سے عمران خان کے لیے کچھ مثبت نتائج برآمد ہو سکتے ہیں۔دوسری طرف یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ امریکی صدر کے پاکستان کی داخلی سیاست میں براہِ راست اثر انداز ہونے کے امکانات محدود ہوتے ہیں۔ امریکہ میں جمہوری ادارے اور قانونی نظام اپنی جگہ پر قائم ہیں اور ٹرمپ کی پالیسیز کا مقصد امریکی مفادات کا تحفظ کرنا ہوگا، نہ کہ کسی مخصوص سیاسی شخصیت کو فائدہ پہنچانا۔ تاہم چونکہ امریکی حکومت پاکستان کی پالیسیوں پر اثر انداز ہونے کی کوشش کرتی رہی ہے، اس لیے پاکستان میں یہ تاثر برقرار ہے کہ عالمی سطح پر امریکی مداخلت سے مقامی سیاست پر اثر پڑ سکتا ہے۔عوام میں یہ بھی تصور ہے کہ ٹرمپ کی موجودگی میں امریکہ، پاکستانی حکومت پر نرم رویہ اختیار کرے گا اور اس سے عمران خان کو سیاسی طور پر فائدہ پہنچ سکتا ہے۔ کچھ لوگ یہ بھی سمجھتے ہیں کہ اگر امریکہ کا مؤقف پاکستان میں حکومت پر نرم ہوگا تو سیاسی دباؤ میں کمی آئے گی، اور عمران خان کو قانونی سطح پر کچھ ریلیف مل سکتا ہے۔یہ سوچ عوامی سطح پر خواہش اور امیدوں کی عکاسی کرتی ہےکیونکہ پاکستان میں سیاسی حالات پر بین الاقوامی سیاست کے اثرات اکثر دیکھے گئے ہیں۔ مگر یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ بین الاقوامی تعلقات میں کسی ایک شخصیت یا پارٹی کی بنیاد پر پالیسیاں نہیں بنائی جاتیں۔ امریکہ کی حکمت عملی زیادہ تر خطے کے استحکام اور اپنے مفادات کے مطابق ہوگی، اور ٹرمپ بھی ممکنہ طور پر یہی اصول اپنائیں گے۔
ڈونلڈ ٹرمپ کے دوسرے دور حکومت میں پاکستان کے لیے کئی چیلنجز اور مواقع ہیں۔ ان کی پالیسیاں سخت بھی ہو سکتی ہیں اور تجارتی تعاون کی صورت میں نئے امکانات بھی فراہم کر سکتی ہیں۔ امریکہ-چین تعلقات میں پاکستان کی اہمیت بڑھ چکی ہے اور اس سے فائدہ اٹھانا پاکستان کے لیے اہم ہوگا۔ ٹرمپ کی ممکنہ پالیسیز کے اثرات کو سامنے رکھتے ہوئےپاکستان کو اپنی خارجہ اور داخلی پالیسی میں استحکام کی ضرورت ہے تاکہ امریکی دباؤ کا مؤثر انداز میں مقابلہ کیا جا سکے۔

شیئر کریں

:مزید خبریں