آج کی تاریخ

کہ آخر کب تک

تحریر : میاں غفار (کار جہاں)

سن دو ہزار20 ء میں اس روز بھی شدت کی گرمی تھی اور بہاولپور کا درجہ حرارت اُس دوپہر 49 ڈگری تھا اور ایئر پورٹ کی حدود کے اردگردصحرا ہونے کی وجہ سے دو ڈگری درجہ حرارت اور بھی زیادہ۔ میں ایئر پورٹ کے وی آئی پی لائونج میں موجود تھا۔ جہاں جس نے جناب ضیاء شاہد مرحوم کو بہاولپور سے فوکر طیارے میں سوار کرا کر خود ملتان روانہ ہونا تھا۔ جہاز کی روانگی کا وقت غالباً ساڑھے تین بجے کا تھا اور تمام مسافر آ چکے تھے جن میں چیئرمین کرکٹ کنٹرول بورڈ ذکا اشرف چوہدری بھی شامل تھے۔ مجھے اس وقت کے ایئر پورٹ منیجر جو کہ میرے مہربان اور میرے لیے بہت شفیق تھے نے اپنے کمرے میں بلایا کہنے لگے۔ آئندہ فوکر میں کبھی سفر نہ کرنا۔ کیونکہ ان جہازوں کو بنانے والی فیکٹری بھی کئی سال قبل بند ہو گئی ہے اور اس کے پرزے بھی دستیاب نہیں ہیں کہ بنائے ہی نہیں جا رہے۔ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ کوئی پرزہ خراب ہو جائے تو گوجرانوالہ اور فیصل آباد سے بنوایا جاتا ہے۔ کئی مرتبہ پی آئی اے حکام کوان کے ٹیکنیکل ونگ اور سول ایوی ایشن کی طرف سے بھی لکھ کر دیا جا چکا ہے کہ ان فوکر جہازوں کو گرائونڈ کر دیں مگر انہیں مستقل استعمال میں لایا جا رہا ہے اور کسی بھی دن کوئی فوکر گر گیا تب ہی انہیں ہوش آئے گا۔ میں نے ایئر پورٹ منیجر سے پوچھا کہ تمام مسافر آ چکے ہیں۔ جہاز بھی سامنے رن وے پر کھڑا ہے تو اُڑ کیوں نہیں رہا۔ کیوں انتظار کرایا جا رہا ہے تو انہوں نے ہنستے ہوئے کہا کہ کیا کیا بتاؤں۔ یہ فوکر 46 ڈگری سے کم درجہ حرارت پر اڑ ہی نہیں سکتا اور درجہ حرارت 46 ڈگری سے زائد ہو تو فوکرروک دیا جاتا ہے۔ لہٰذا درجہ حرارت کم ہو گا تو اِسے اڑان بھرنے کی اجازت مل سکے گی لہٰذا ابھی تو مسافروں کو انتظار کرنا ہو گا مگر آپ وعدہ کرو کہ آئندہ فوکر پر سفر نہیں کریں گے تو میں نے انہیں بتایا کہ مجھے تو بذریعہ سڑک ملتان جانا ہے البتہ ضیاء شاہدصاحب نےفوکر کے ذریعے بہاولپور سے ملتان جانا ہے۔ گپ شپ دیر تک جاری رہی پھر ضیاء شاہد مرحوم بھی آ گئے اور تقریبا دو گھنٹے بعد ایئر پورٹ پر ٹمپریچر میں کمی ہوئی تو فوکر سٹارٹ ہوا اور مسافر جہاز میں سوار ہونے لگے۔
ایئر پورٹ منیجر کی بات حرف بحرف درست ثابت ہوئی کہ اس گفتگو کے 6 سال بعد 2006 ء میں 10 جولائی کے دن بروز سوموار شدت کی گرمی میں اڑان بھرتے ہی ملتان ایئر پورٹ سے ایک کلو میٹر کے فاصلے پر قاسم بیلا کے علاقے میں فوکر جہاز گر کر تباہ ہو چکا تھا اور اس دن درجہ حرارت بھی 48 ڈگری سے زائد تھا جبکہ بہاولپور کے ایئر پورٹ منیجر کے مطابق فوکر کا 46 ڈگری سے اوپر ٹمپریچر میں اڑان بھرنا انتہائی خطر ناک ہو سکتا ہے مگر پاکستان میںآج تک کسی سانحے اور کسی حادثے کی تحقیقات ہوئی ہیں جو اس حادثے کی ہو پاتیں جس میں انتہائی قیمتی لوگ زندگی کی بازی ہار گئے ۔ میں نے اس حادثے کی رپورٹنگ کی اور بار بار میرے ذہن میں شاہ جی کے الفاظ گونجتے رہے کہ یہ فوکر طیارے اس وقت تک گرائونڈ نہیں ہونگے جب تک کوئی حادثہ نہیں ہو گا۔ جونہی ملتان کے قریب جہاز حادثے کا شکار ہو کر راکھ کا ڈھیر بنا اسی وقت ملک بھر میں فوکر طیاروں کی پروازیں بند کر دی گئیں اور تمام فوکر جہاز گرائونڈ کر دیئے گئے پھر ان کی جگہ پر استعمال شدہ اے ٹی آر جہاز منگوائے گئے جو کافی بہتر حالت میں تھے اور گذشتہ 17 سال سے قابل استعمال ہیں۔
ملتان ایئر پورٹ کے قریب اڑان بھرتے ہی گرنے والے جہاز میں ہائی کورٹ کے دو جسٹس بھی لقمہ اجل بن گئے مگر برباد عدالتی نظام اپنے ساتھی ججوں کے حوالے سے بھی کسی نگران جج کی سربراہی میں تحقیقات نہ کرا سکا کہ اعلی عدالتوں کے جج صاحبان سمیت اس ملک کے ہر طاقت ورنے بابا بلھے شاہ کے شعر کو اپنے دل میں بہت ہی خاص جگہ دے رکھی ہے اور اس شعر پر ان کامکمل یقین ان کے ایمان کی طرح مضبوط ہے۔
بلھے شاہ اساں مرناہیں
گور پیا کوئی ہور
جسٹس نذیر احمد صدیقی اور جسٹس نواز بھٹی نے گور میں جانا تھا سو چلے گئے۔ باقی جج صاحبان کو کیا ضرورت تھی کہ اس پر تردد کرتے اور ٹینشن لیتے کہ گور میں توکوئی اور پڑا مگر یہ اشرفیہ بھولی ہوئی ہے کہ ’’آخر کب تک‘‘ کہ ’’گور پیا کوئی ہور‘‘

شیئر کریں

:مزید خبریں