کرکٹ جنوبی ایشیا میں صرف ایک کھیل نہیں بلکہ کروڑوں دلوں کی دھڑکن ہے۔ یہ کھیل برصغیر کے عوام کے لیے محض کھیل کے میدان میں مقابلہ نہیں بلکہ ایک ثقافتی اور جذباتی تجربہ ہے جو سرحدوں کے آر پار ایک ہی شدت سے محسوس کیا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب بھارت اور پاکستان آمنے سامنے آتے ہیں تو دنیا کی نظریں ان پر جم جاتی ہیں۔ لیکن افسوس ہے کہ حالیہ ایشیا کپ میں بھارتی کرکٹ ٹیم نے اپنی کامیابی کو اس شاندار کھیل کے جشن کے بجائے سیاسی تماشے میں بدل دیا۔ اس رویے نے نہ صرف کھیل کی روح کو مجروح کیا بلکہ خطے میں پہلے سے موجود سیاسی کشیدگی کو مزید ہوا دی۔بھارتی ٹیم نے ایشیا کپ جیتنے کے بعد ٹرافی قبول کرنے سے انکار کیا صرف اس لیے کہ اسے ایشین کرکٹ کونسل کے صدر — جو ایک پاکستانی شہری ہیں — نے پیش کرنا تھا۔ یہ رویہ کھیل کے بنیادی اصولوں یعنی شائستگی، رواداری اور احترام کے سراسر منافی تھا۔ کھیل کا مقصد حریف کو شکست دے کر اپنی برتری جتانا نہیں بلکہ احترام اور برداشت کے ساتھ ایک صحت مند روایت قائم کرنا ہے۔ کرکٹ، جسے کبھی ’’جینٹلمینز گیم‘‘ کہا جاتا تھا، بھارتی ٹیم کے اس رویے سے ایک بار پھر سیاست کے نرغے میں نظر آئی۔یہ پہلا موقع نہیں تھا کہ بھارتی ٹیم نے اس طرح کا رویہ اپنایا۔ افتتاحی میچ میں بھارتی کپتان نے پاکستانی کھلاڑیوں سے ہاتھ ملانے سے انکار کیا اور بعد ازاں انعامی تقریب میں اپنی گفتگو کو سیاسی بیانیے کا حصہ بنایا۔ اس پورے رویے نے یہ تاثر دیا کہ بھارتی ٹیم میدان میں کھیلنے نہیں بلکہ حکومت کے قوم پرستانہ بیانیے کو پروان چڑھانے آئی تھی۔ اس پر مزید ستم یہ ہوا کہ بھارتی وزیرِ اعظم نے اس جیت کو ’’آپریشن سندور‘‘ سے تشبیہ دے کر گویا کھیل کو بھی جنگی کاروائی کا رنگ دے دیا۔ کھیل میں جیت کو جنگی زبان میں بیان کرنا دراصل اعتماد کا نہیں بلکہ عدم تحفظ کا اظہار ہے۔ یہ رویہ بھارتی حکومت کی اس ناکام عسکری مہم جوئی کی یاد بھی دلاتا ہے جو اس نے چند ماہ قبل پاکستان کے خلاف کی تھی اور جس کا انجام شکست اور رسوائی کے سوا کچھ نہ نکلا۔کرکٹ کی تاریخ اس خطے میں ہمیشہ محض کشیدگی کی نہیں رہی۔ اس نے کئی بار کشیدگی کو کم کرنے اور تعلقات میں نرمی لانے میں بھی کردار ادا کیا ہے۔ 2004ء میں واجپائی کی ’’دوستی کے لیے کرکٹ‘‘ کی پیشکش اور 2011ء کے ورلڈ کپ کے سیمی فائنل میں موہالی کا منظر کون بھول سکتا ہے، جب دونوں ملکوں کے وزرائے اعظم ایک ساتھ میچ دیکھنے پہنچے؟ ان مواقع نے برصغیر کے عوام کو یہ احساس دلایا تھا کہ سیاست جب ناکام ہو جائے تو کھیل تعلقات کو بہتر بنانے کا ذریعہ بن سکتا ہے۔ مگر موجودہ بھارتی قیادت نے اس روایت کو پسِ پشت ڈال کر کھیل کو اپنی قوم پرستانہ سیاست کا ہتھیار بنا لیا ہے۔یہ بات بھی فراموش نہیں کرنی چاہیے کہ کھیل ہمیشہ عوام کے لیے خوشی اور تفریح کا ذریعہ ہوتا ہے۔ کرکٹ کے مداح کھیل کو اس امید کے ساتھ دیکھتے ہیں کہ یہ انہیں سیاسی کشمکش سے کچھ دیر کے لیے آزاد کر دے گا۔ مگر بھارتی ٹیم کے اس رویے نے کھیل کے مزے کو کڑوا کر دیا۔ شائقین کے دلوں میں یہ افسوس باقی رہ گیا کہ میدان میں بہترین کارکردگی دکھانے کے باوجود بھارتی ٹیم کھیل کی اصل روح کو بھلا بیٹھی۔اس رویے کے پیچھے موجود سیاسی فضا بھی قابلِ غور ہے۔ بھارت نے پاہلگام حملے کی ذمہ داری پاکستان پر عائد کی لیکن تاحال کوئی معتبر ثبوت پیش نہیں کر سکا۔ الزامات کو بار بار دہرانا ان کی سچائی ثابت نہیں کرتا۔ اسی الزام تراشی نے دونوں ممالک کو چند ماہ قبل ایٹمی تصادم کے دہانے پر پہنچا دیا تھا۔ اب یہی بیانیہ کرکٹ کے میدان میں بھی گھس آیا ہے، جو نہ صرف کھیل بلکہ امن کے امکانات کے لیے بھی خطرہ ہے۔ اگر کھیل کو بھی دشمنی اور نفرت کے فروغ کا ذریعہ بنایا گیا تو یہ خطے کے کروڑوں عوام کے خواب چھین لینے کے مترادف ہوگا۔بھارتی کرکٹ ٹیم کے پاس یہ موقع تھا کہ وہ اپنی جیت کو وقار اور شائستگی کے ساتھ مناتی، حریف کے احترام کو یقینی بناتی اور کروڑوں مداحوں کو یہ پیغام دیتی کہ کھیل سیاسی دشمنیوں سے بالاتر ہوتا ہے۔ لیکن انہوں نے ایسا نہ کیا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ یہ ٹورنامنٹ اپنی شاندار کارکردگی یا یادگار میچوں کے بجائے بھارتی ٹیم کے تکبر اور غیر ذمہ دارانہ رویے کی وجہ سے یاد رکھا جائے گا۔یہ صورتحال نہ صرف پاکستان بلکہ خود بھارت کے لیے بھی افسوسناک ہے۔ کھیل کے ذریعے تعلقات بہتر بنانے کے امکانات معدوم ہوتے جا رہے ہیں۔ یہ رویہ جنوبی ایشیا کے عوام کو مایوسی کے اندھیروں میں دھکیل رہا ہے۔اب سوال یہ ہے کہ اس صورت حال میں پاکستان کو کیا رویہ اختیار کرنا چاہیے؟ پاکستان کو اس رویے کا جواب بھی کھیل کے جذبے اور اخلاقی برتری کے ساتھ دینا ہوگا۔ ہمیں اپنے کھلاڑیوں کو یہ سبق دینا ہوگا کہ چاہے جیت ہو یا ہار، ہمیں اپنے حریف کا احترام کرنا ہے۔ پاکستان اگر میدان میں کارکردگی کے ساتھ ساتھ رواداری اور شائستگی کا مظاہرہ کرے گا تو دنیا کو یہ پیغام جائے گا کہ اصل ’’جینٹلمینز گیم‘‘ کی روایت کس نے برقرار رکھی۔جنوبی ایشیا کے عوام، خاص طور پر نوجوان نسل، کرکٹ کو جنگ کا متبادل نہیں دیکھنا چاہتے۔ وہ چاہتے ہیں کہ یہ کھیل انہیں مسکراہٹیں دے، امید دلائے اور سرحدوں سے پرے انسانیت کی ایک جھلک دکھائے۔ اگر بھارتی قیادت کھیل کو اپنی تنگ نظری کے سیاسی بیانیے میں جکڑنے پر مصر ہے تو پاکستان کو چاہیے کہ وہ کھیل کو وسیع الظرفی اور رواداری کے ذریعے دنیا کے سامنے پیش کرے۔کھیل جب سیاست کے تابع ہو جائے تو اس کی روح مر جاتی ہے۔ کرکٹ برصغیر کے عوام کے لیے نفرت کا نہیں بلکہ محبت اور یکجہتی کا پیغام لے کر آیا تھا۔ یہ کھیل ہمیں یاد دلاتا ہے کہ سرحدوں سے بڑھ کر ایک مشترکہ جذبہ ہے جو ہمیں جوڑتا ہے۔ بھارتی ٹیم نے اگر اپنی جیت کو تکبر اور سیاست کی بھینٹ چڑھا دیا ہے تو یہ ان کی بدقسمتی ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ہم کھیل کو اس کی اصل روح کے ساتھ اپنائیں اور دنیا کو یہ بتائیں کہ برصغیر کے عوام کھیل کو جنگ نہیں بلکہ امن اور بھائی چارے کا استعارہ بنانا چاہتے ہیں۔بھارتی ٹیم کے حالیہ رویے کو اگر عالمی تناظر میں دیکھا جائے تو یہ رویہ صرف جنوبی ایشیا ہی نہیں بلکہ پوری دنیا کے لیے تشویش ناک ہے۔ کھیل ہمیشہ اقوام کے درمیان سفارت کاری کا ایک نرم ذریعہ رہا ہے۔ امریکہ اور چین کے درمیان مشہور ’’پنگ پونگ ڈپلومیسی‘‘ نے تعلقات کی برف پگھلائی تھی۔ اسی طرح 1995ء میں جنوبی افریقہ میں کرکٹ ورلڈ کپ نے نسل پرستی کے خلاف ایک نئی قومی یکجہتی کو جنم دیا۔ ان مثالوں سے یہ بات واضح ہے کہ کھیل سیاست کو بہتر بنانے کا ذریعہ بن سکتا ہے۔ مگر بدقسمتی سے بھارت نے کھیل کو اپنے اندرونی قوم پرستانہ بیانیے کا غلام بنا دیا ہے۔ اس رویے سے نہ صرف کھیل کا تقدس مجروح ہوا ہے بلکہ اس خطے میں کرکٹ ڈپلومیسی کے امکانات کو بھی شدید نقصان پہنچا ہے۔یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ پاکستان اور بھارت کے عوام میں ایک دوسرے کے لیے نفرت اتنی گہری نہیں جتنی ان کی حکومتیں یا قوم پرست حلقے دکھانے کی کوشش کرتے ہیں۔ دونوں ملکوں کے عوام کرکٹ کے مشترکہ ہیروز کو سراہتے ہیں۔ عمران خان، سچن ٹنڈولکر، وسیم اکرم یا راہول ڈریوڈ جیسے کھلاڑی دونوں طرف پسند کیے جاتے ہیں۔ یہ بات اس بات کی دلیل ہے کہ کھیل عوامی سطح پر نفرت کے بجائے محبت اور احترام کو جنم دیتا ہے۔ اگر اس محبت کو سیاسی قیادتیں اپنی تنگ نظری کی بھینٹ چڑھا دیں تو یہ عوام کے ساتھ ایک بڑی ناانصافی ہے۔پاکستان کے لیے یہ ایک موقع ہے کہ وہ اپنے بیانیے میں کھیل کو امن، دوستی اور تعلقات بہتر بنانے کے ایک پلیٹ فارم کے طور پر اجاگر کرے۔ پاکستان کی وزارتِ خارجہ اور کھیلوں کے ادارے مل کر ایسی حکمت عملی بنا سکتے ہیں جس میں کرکٹ کو دونوں ممالک کے عوام کے درمیان نرم سفارت کاری کے طور پر استعمال کیا جائے۔ پاکستان کو چاہیے کہ وہ بین الاقوامی کرکٹ کونسل (آئی سی سی) اور ایشین کرکٹ کونسل میں بھارتی رویے پر بات اٹھائے اور یہ دکھائے کہ کھیل کو سیاست کے لیے استعمال کرنا کھیل کے عالمی اصولوں کی خلاف ورزی ہے۔عالمی سطح پر بھی کھیلوں کو سیاست سے آلودہ کرنے کی کئی مثالیں ملتی ہیں۔ 1980ء میں امریکہ نے ماسکو اولمپکس کا بائیکاٹ کیا، جبکہ 1984ء میں سوویت یونین نے لاس اینجلس اولمپکس کا۔ ان بائیکاٹس نے کھیلوں کے عالمی پلیٹ فارم کو تقسیم کیا اور اس کا نقصان کھلاڑیوں اور شائقین دونوں کو ہوا۔ آج بھارتی ٹیم کا رویہ بھی اسی زمرے میں آتا ہے جہاں کھیل کے میدان کو نفرت اور سیاست کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔یہ بات بھی یاد رکھنی چاہیے کہ کھیل کی طاقت صرف میدان تک محدود نہیں۔ میڈیا اور سوشل میڈیا کے اس دور میں ایک کھلاڑی یا ٹیم کے رویے کا اثر کروڑوں لوگوں تک لمحوں میں پہنچتا ہے۔ بھارتی ٹیم کے حالیہ رویے نے دنیا بھر کے شائقین کو یہ پیغام دیا کہ بھارت کھیل کے عالمی اقدار سے زیادہ اپنی قوم پرستی کے ایجنڈے کو اہمیت دیتا ہے۔ یہ رویہ بھارت کی عالمی ساکھ کے لیے بھی نقصان دہ ہے، کیونکہ کھیل میں تکبر اور تنگ نظری کو کبھی پذیرائی نہیں ملتی۔پاکستان کے عوام اور حکومت کو چاہیے کہ وہ اس صورتحال میں اپنی اخلاقی برتری قائم رکھیں۔ ہمیں اپنے کھلاڑیوں کو یہ سکھانا ہوگا کہ کھیل میں جیت یا ہار سے زیادہ اہم شائستگی اور رواداری ہے۔ اگر پاکستان اپنی کرکٹ ڈپلومیسی کو وسعت دے اور دنیا کے سامنے یہ پیغام لے کر آئے کہ وہ کھیل کو نفرت نہیں بلکہ محبت اور امن کا ذریعہ سمجھتا ہے، تو یہ نہ صرف پاکستان کی نرم طاقت کو بڑھائے گا بلکہ عالمی سطح پر ہماری پوزیشن کو بھی مستحکم کرے گا۔آخر میں یہ کہنا بجا ہوگا کہ بھارتی ٹیم نے اپنی جیت کو تکبر اور سیاسی نفرت کے پردے میں چھپا دیا، مگر پاکستان کے پاس یہ موقع ہے کہ وہ کھیل کو اصل معنوں میں انسانیت، امن اور دوستی کا پیغام بنائے۔ جنوبی ایشیا کے عوام اس رویے کے منتظر ہیں کہ کوئی تو ایسا قدم اٹھائے جو کھیل کو جنگ کے استعارے سے نکال کر امن اور محبت کا پل بنائے۔ اگر پاکستان یہ کردار ادا کرے تو یہ نہ صرف ہماری سفارتی کامیابی ہوگی بلکہ کھیل کی اصل روح کو بھی بحال کرے گی۔
