بھارتی میڈیا نے حال ہی میں دعویٰ کیا ہے کہ بھارت نے مارچ 2025 میں پاکستان میں ہونے والی کرکٹ چیمپئنز ٹرافی میں اپنی قومی ٹیم کو پاکستان میں میچز کھیلنے کی اجازت دینے سے انکار کر دیا ہے اور اس کے بجائے بھارتی ٹیم کے میچز کسی تیسرے ملک میں کرانے کا مطالبہ کیا ہے۔ یہ فیصلہ دونوں ممالک کے درمیان مسلسل تناؤ اور خراب تعلقات کا عکاس ہے۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان کئی دہائیوں سے تعلقات میں کشیدگی رہی ہے، جس کا اثر کھیل سمیت کئی شعبوں پر پڑا ہے۔ ان حالات میں بھارت کا فیصلہ کہ وہ اپنی ٹیم کو پاکستان نہیں بھیجے گا، ایک بڑی سفارتی اور کھیل کے میدان کی خبر ہے جس نے عالمی کرکٹ حلقوں میں ہلچل مچا دی ہے۔پاکستان اور بھارت کے درمیان تعلقات اس حد تک خراب ہو چکے ہیں کہ کسی بھی سطح پر تعلقات میں معمول کا آغاز ممکن نظر نہیں آتا۔ براہ راست تجارت بند ہے، سرحدوں پر تناؤ برقرار ہے، اور دونوں ممالک کے درمیان بات چیت کے دروازے تقریباً بند ہیں۔ ایسی صورت حال میں کھیل کے میدان میں بھی اس تناؤ نے کھیل کے جذبے کو بری طرح متاثر کیا ہے۔ دونوں ممالک کی حکومتیں اور عوام جب ایک دوسرے سے دور ہیں تو ایسے میں کھیل، جو عموماً تعلقات کو بہتر بنانے کا ذریعہ ہوتا ہے، بھی اس سیاست کا شکار ہو چکا ہے۔پاکستان کو کرکٹ چیمپئنز ٹرافی 2024 کی میزبانی کا اعزاز ملا ہے، جو عالمی کرکٹ کے لیے ایک خوش آئند پیش رفت ہے۔ پاکستان نے 2017 میں انگلینڈ میں ہونے والے چیمپئنز ٹرافی ایڈیشن میں تاریخی کامیابی حاصل کی تھی، جس کے بعد سے پاکستانی کرکٹ شائقین کے لیے یہ ٹورنامنٹ خصوصی حیثیت اختیار کر چکا ہے۔ پاکستانی عوام اور کرکٹ سے محبت کرنے والوں کی امیدیں اس ٹورنامنٹ سے وابستہ ہیں، جو پاکستان میں کرکٹ کی واپسی کے عزم کو مزید تقویت دے گا۔ تاہم، بھارتی میڈیا کی جانب سے یہ اطلاعات کہ بھارتی ٹیم پاکستان آنے کے بجائے اپنے میچز کسی غیر جانبدار مقام پر کھیلنے کی خواہاں ہے، اس خواب کو دھندلا کرنے کا باعث بنی ہیں۔پاکستان کرکٹ بورڈ کے چیئرمین محسن نقوی نے تصدیق کی ہے کہ تاحال پی سی بی کو بھارتی کرکٹ ٹیم کے پاکستان آنے سے انکار کا باضابطہ طور پر کوئی اطلاع موصول نہیں ہوئی ہے۔ اگرچہ بھارتی میڈیا میں ایسی خبریں گردش کر رہی ہیں، لیکن پاکستان نے واضح موقف اپنایا ہے کہ اگر بھارتی کرکٹ بورڈ کو کسی قسم کا مسئلہ ہے تو وہ تحریری طور پر پی سی بی کو آگاہ کرے۔ محسن نقوی نے بھارتی میڈیا کی خبروں کو افواہوں سے تعبیر کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان اپنی میزبانی کی تیاریوں میں مصروف ہے اور چاہتا ہے کہ کھیل کو سیاست سے دور رکھا جائے۔پاکستان نے گزشتہ سال ایشیا کپ کے دوران ہائبرڈ ماڈل کے تحت بھارتی ٹیم کو سری لنکا میں اپنے میچز کھیلنے کی اجازت دی تھی۔ اس بار بھی اگر بھارت پاکستان آنے سے انکار کرتا ہے تو ممکن ہے کہ ہائبرڈ ماڈل کا متبادل اختیار کیا جائے۔ انگلینڈ اور ویلز کرکٹ بورڈ (ای سی بی) کے سربراہ رچرڈ گولڈ کا کہنا ہے کہ اگر بھارت پاکستان کا سفر نہیں کرتا تو بھی مختلف حل موجود ہیں۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ بھارت کی شرکت چیمپئنز ٹرافی کے نشریاتی حقوق کی حفاظت کے لیے انتہائی اہم ہے، اور امید ظاہر کی کہ پاکستان میں مکمل مقابلہ ہو سکے گا۔ ان کے مطابق بھارت کی عدم شرکت سے نشریاتی معاہدوں کو نقصان پہنچ سکتا ہے اور اس سے عالمی کرکٹ پر منفی اثر پڑے گا۔بھارت کا مؤقف ہے کہ اسے پاکستان جانے کی حکومتی اجازت درکار ہے جو انہیں ابھی تک نہیں ملی۔ 2008 کے ممبئی حملوں کے بعد سے بھارت اور پاکستان کے درمیان تعلقات مسلسل خراب چلے آ رہے ہیں، اور دونوں ممالک کے کھلاڑیوں نے ایک دوسرے کے ملک میں جا کر کھیلنے سے گریز کیا ہے۔ اس دوران پاکستان اور بھارت کی ٹیمیں صرف عالمی اور کثیر الملکی ایونٹس میں ہی ایک دوسرے کا سامنا کرتی ہیں، جیسے ورلڈ کپ، ایشیا کپ وغیرہ۔ یہ سفارتی تنازعہ اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ کیسے سیاست نے کھیل کو بھی اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے اور اس سے کھیل کی روح متاثر ہو رہی ہے۔ دونوں ممالک کے شائقین، جو اپنے پسندیدہ کھلاڑیوں کو آمنے سامنے دیکھنا چاہتے ہیں، سیاست کی وجہ سے اس سے محروم ہیں۔محسن نقوی نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کا مؤقف یہ ہے کہ کھیل کو سیاست سے دور رکھا جائے۔ ان کا کہنا تھا کہ دنیا کے کسی بھی کھیل میں اس قسم کی سیاست نہیں ہونی چاہیے جس سے کھیل کا بنیادی مقصد متاثر ہو۔ پاکستان کرکٹ بورڈ کا موقف یہ ہے کہ کرکٹ کو سیاست سے الگ رکھ کر ہی ہم ایک ایسی دنیا کا خواب دیکھ سکتے ہیں جہاں کھیل محبت، امن اور دوستی کا ذریعہ ہو۔ یہ وقت ہے کہ کھیل کے ذریعے تعلقات میں بہتری لانے کی کوشش کی جائے اور اس کے لیے دونوں ممالک کو اپنی سوچ بدلنے کی ضرورت ہے۔ بھارت کو بھی اس بات پر غور کرنا چاہیے کہ کھیل کو سیاست میں نہ الجھائے تاکہ دونوں ممالک کے شائقین اس سے لطف اندوز ہو سکیں۔پاکستان کو چیمپئنز ٹرافی 2024 کی میزبانی کا موقع ملنا ایک بڑا اعزاز ہے، جس کے ذریعے دنیا کو یہ پیغام دیا جا سکتا ہے کہ پاکستان کھیلوں کے لیے محفوظ ملک ہے اور یہاں عالمی ایونٹس کی میزبانی کے لیے ہر قسم کی سہولیات موجود ہیں۔ اس سے قبل بھی پاکستان میں کئی بین الاقوامی کرکٹ ایونٹس منعقد ہو چکے ہیں، جن میں مختلف ممالک کی ٹیمیں شامل ہوئیں۔ چیمپئنز ٹرافی ایک ایسا ٹورنامنٹ ہے جس سے نہ صرف پاکستان بلکہ عالمی کرکٹ کے فروغ میں مدد ملے گی اور یہ ایشیائی خطے میں کرکٹ کے شائقین کے لیے ایک بڑی خوشخبری ثابت ہوگا۔ اگر بھارت اس ٹورنامنٹ میں شرکت سے انکار کرتا ہے تو اس کا نقصان نہ صرف پاکستان کو بلکہ عالمی کرکٹ کو بھی ہوگا۔پاکستان نے حالیہ برسوں میں اپنی سرزمین پر کرکٹ کی بحالی کے لیے بڑے اقدامات کیے ہیں اور مختلف ملکوں کی ٹیموں نے یہاں آکر کھیل میں شرکت بھی کی ہے۔ اس ضمن میں پاکستان کرکٹ بورڈ اور حکومت کی جانب سے عالمی کرکٹ کے فروغ کے لیے جو اقدامات کیے جا رہے ہیں، وہ اس بات کا ثبوت ہیں کہ پاکستان کرکٹ کے لیے ایک محفوظ اور دوستانہ ملک ہے۔ پاکستان نے ہمیشہ بین الاقوامی کرکٹ کے فروغ میں اہم کردار ادا کیا ہے اور چاہتا ہے کہ چیمپئنز ٹرافی جیسے اہم ٹورنامنٹ کے ذریعے دنیا کو یہ پیغام دیا جائے کہ یہاں کھیل کے لیے سازگار ماحول موجود ہے۔پاکستان نے ہمیشہ اپنے دروازے کھلے رکھے ہیں اور اپنے رویے سے ثابت کیا ہے کہ وہ کھیل کے ذریعے تعلقات کو بہتر بنانا چاہتا ہے۔ پاکستان کے لیے یہ ٹورنامنٹ عالمی برادری کے اعتماد کا مظہر ہے اور اس کے کامیاب انعقاد کے ذریعے دنیا کو یہ پیغام دیا جا سکتا ہے کہ پاکستان کرکٹ کی میزبانی کے لیے مکمل طور پر تیار ہے۔ ایسے میں عالمی کرکٹ تنظیموں اور دیگر ممالک کی بھی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ پاکستان کے ساتھ تعاون کریں اور بھارت کو بھی آمادہ کریں کہ وہ کھیل کو سیاست سے الگ رکھے۔ کرکٹ کے فروغ کے لیے بھارت کو اپنے فیصلے پر نظرثانی کرتے ہوئے پاکستان میں چیمپئنز ٹرافی میں شرکت کرنی چاہیے۔کھیل اور سیاست کی کشمکش نے کرکٹ کے جذبے کو بری طرح متاثر کیا ہے۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان کرکٹ اور دیگر کھیلوں کے میدان میں تعلقات کی بحالی نہ صرف دونوں ممالک کے تعلقات میں بہتری کا ذریعہ بن سکتی ہے بلکہ پورے خطے میں امن و استحکام کی طرف بھی ایک مثبت قدم ثابت ہو سکتی ہے۔ بھارت کی جانب سے چیمپئنز ٹرافی میں شرکت سے انکار سے کھیل کی روح کو نقصان پہنچے گا اور یہ کرکٹ کے عالمی فروغ کے لیے بھی ایک منفی قدم ہوگا۔پاکستان اور بھارت کو اس بات پر غور کرنے کی ضرورت ہے کہ کھیل کو سیاست سے الگ رکھ کر ہم دنیا کو ایک مثبت پیغام دے سکتے ہیں۔ چیمپئنز ٹرافی کا پاکستان میں انعقاد دونوں ممالک کے تعلقات کو معمول پر لانے اور عالمی برادری کے لیے یہ ثابت کرنے کا بہترین موقع ہے کہ کرکٹ محبت اور امن کا پیغام دے سکتا ہے۔ اب یہ بھارت پر منحصر ہے کہ وہ اس موقع کو استعمال کرتے ہوئے تعلقات کو بہتر بنانے کی سمت میں ایک قدم آگے بڑھاتا ہے یا پھر کھیل اور سیاست کی اس کشمکش کو مزید طول دیتا ہے۔
ٹیکس مذاکرات: ترقی کا موقع یا وقتی مفاہمت؟
پاکستان میں ٹیکس وصولی کا نظام ایک طویل عرصے سے اصلاحات کا متقاضی ہے، جس میں متعدد حکومتیں مختلف ادوار میں ناکام ہوتی نظر آئیں۔ حال ہی میں حکومت اور تاجروں کے درمیان ٹیکس وصولی کے معاملے پر کامیاب مذاکرات نے ایک نئی بحث کو جنم دیا ہے۔ فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) اور تاجروں کے مابین طے پانے والی یہ مفاہمت، جس میں تاجر دوست اسکیم کے تحت دکانوں پر طے شدہ ٹیکس کا نفاذ معطل کر دیا گیا ہے، ایک مختصر مدت کا حل معلوم ہوتا ہے۔حکومت کی طرف سے دی گئی یہ رعایت، اگرچہ بظاہر تاجروں کے لیے ایک خوش آئند قدم ہے، تاہم یہ پاکستان کے ٹیکس نیٹ کو وسعت دینے کے لیے لاحق چیلنجز کی واضح نشاندہی بھی کرتی ہے۔ تجارتی برادری نے ایف بی آر سے مطالبہ کیا تھا کہ ٹیکس نیٹ میں شمولیت کے عمل کو آسان بنایا جائے اور غیر ضروری دکان سروے کے بجائے، صرف ان بڑے تاجروں کو ٹیکس میں شامل کیا جائے جو واقعی قابلِ قدر کاروباری سرگرمیاں انجام دے رہے ہیں۔ یہ معاہدہ بظاہر ایک سنجیدہ کامیابی معلوم ہوتا ہے، مگر پاکستان کے ٹیکس نظام میں گہری اصلاحات کی ضرورت کو بھی اجاگر کرتا ہے۔پاکستان میں ٹیکس وصولی کا نظام برسوں سے محدود حلقوں تک محدود ہے اور لاکھوں کاروباری افراد اس نظام سے باہر ہیں۔ حکومت کی جانب سے نئے مقررہ ٹیکس کے نفاذ کا مقصد ایک وسیع نیٹ ورک کے ذریعے ٹیکس وصولی کو ممکن بنانا تھا، جس سے تقریباً 400 سے 500 ارب روپے کی آمدنی کی توقع کی جا رہی تھی۔ تاہم، تاجروں کے دباؤ پر اس نظام کو معطل کرنا اس بات کی علامت ہے کہ ایف بی آر کے پاس ممکنہ ٹیکس دہندگان کے متعلق بنیادی معلومات میں کمی ہے۔پاکستان میں ٹیکس کا نظام ایک کمزور بنیاد پر قائم ہے جس میں اشرافیہ کی اجارہ داری نے اس نظام کو مزید پیچیدہ بنا دیا ہے۔ زراعت، رئیل اسٹیٹ، اور بڑے کاروباری حلقے ٹیکس نیٹ سے یا تو باہر ہیں یا بہت کم حصہ ڈالتے ہیں۔ حکومت کو ضرورت ہے کہ وہ ٹیکس نظام کو حقیقی بنیادوں پر استوار کرے جس میں سب شعبے مساوی طور پر شامل ہوں۔ تاجروں کی تنظیموں کے ساتھ مذاکرات کی کامیابی سے یہ بات واضح ہوئی ہے کہ اگرچہ رضاکارانہ شمولیت کو فروغ دینا ممکن ہے، مگر اس کے لیے حکومت کو ٹیکس دہندگان کی رضامندی اور اعتماد حاصل کرنا ہوگا۔پاکستان میں محصولات میں اضافے کے لیے ٹیکس کے نظام میں بنیادی تبدیلیوں کی ضرورت ہے۔ موجودہ مذاکرات میں ایک بار پھر یہ واضح ہوا ہے کہ اگر ٹیکس نیٹ کو وسیع کرنے کی کوششوں کو حقیقت کا روپ دینا ہے تو حکومت کو اشرافیہ کی اجارہ داری کو ختم کرنا ہوگا۔ خاص طور پر زرعی آمدنی پر ٹیکس کا معاملہ ایک طویل عرصے سے زیر بحث رہا ہے، لیکن ابھی تک اس پر عملی اقدامات نہیں کیے جا سکے۔ ٹیکس نظام میں شفافیت لانے اور مساوات قائم کرنے کے لیے زرعی شعبے کو بھی ٹیکس نیٹ میں شامل کیا جانا چاہیے، جس کے لیے آئینی ترمیم کی ضرورت ہے۔علاوہ ازیں، رئیل اسٹیٹ کے لین دین پر بھی ٹیکس کی شرح میں اضافہ کیا جانا چاہیے اور زمین کی حقیقی قدر پر ٹیکس عائد کیا جانا چاہیے۔ اس سے نہ صرف محصولات میں اضافہ ہوگا بلکہ پراپرٹی کی مارکیٹ میں بھی استحکام پیدا ہوگا۔ اشرافیہ کی جانب سے ٹیکس چوری کو روکنا اور محصولات کو بڑھانے کے لیے ایک شفاف اور مساوی نظام کی تشکیل وقت کی ضرورت ہے۔پاکستان میں بالواسطہ ٹیکسوں کا نظام عام آدمی پر زیادہ بوجھ ڈالتا ہے۔ موجودہ مالی سال میں ٹیکس ہدف کو حاصل کرنے کے لیے حکومت نے 40 فیصد سے زائد کا اضافہ کیا ہے، جس کا بوجھ بالواسطہ ٹیکسز کی صورت میں عوام پر منتقل کیا گیا ہے۔ یہ ٹیکس غریب طبقے کو سب سے زیادہ متاثر کرتے ہیں، جبکہ امیر طبقہ ان سے باآسانی بچ نکلتا ہے۔ غربت کی شرح میں مسلسل اضافہ اس بات کا ثبوت ہے کہ حکومت کا بالواسطہ ٹیکسوں پر انحصار عام آدمی کے لیے نقصان دہ ثابت ہو رہا ہے۔ ایسے میں حکومت کو فوری طور پر بالواسطہ ٹیکسوں کی شرح کو کم کر کے براہ راست ٹیکسوں پر توجہ دینی چاہیے تاکہ ٹیکس کا بوجھ عوام پر کم ہو اور ایک منصفانہ ٹیکس نظام تشکیل دیا جا سکے۔بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (IMF) کے ساتھ پاکستان کے معاہدے نے ملکی معیشت کو مزید مشکلات میں ڈال دیا ہے۔ آئی ایم ایف کی شرائط کے تحت پاکستان کو اپنے محصولات میں اضافہ کرنا ہے، جس کے لیے حکومت نے بالواسطہ ٹیکسوں کا سہارا لیا ہے۔ اس کے نتیجے میں معاشرتی بے چینی بڑھ رہی ہے اور عوامی سطح پر ناراضی بھی نظر آ رہی ہے۔ ملک میں بڑھتی ہوئی غربت اور بیروزگاری نے معاشرتی عدم استحکام کو مزید ہوا دی ہے۔آئی ایم ایف کی شرائط پر عمل کرتے ہوئے اگر حکومت مزید بالواسطہ ٹیکس عائد کرتی ہے تو اس کے اثرات شدید منفی ہوں گے۔ عوام پر اضافی بوجھ ڈالنے کے بجائے حکومت کو اپنی اخراجات کو کم کرنے اور محصولات میں اضافے کے لیے براہ راست ٹیکسوں پر انحصار کرنا چاہیے۔ اس کے لیے حکومت کو ایسی حکمت عملی اپنانا ہوگی جس سے عام آدمی پر بوجھ کم ہو اور صرف ان طبقات سے محصولات حاصل کیے جائیں جو معاشی لحاظ سے مستحکم ہیں۔ٹیکس کے مسئلے کا فوری حل تلاش کرنے کے بجائے حکومت کو طویل مدتی حل تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔ موجودہ مذاکرات ایک وقتی مفاہمت ہیں جو مسئلے کو مکمل طور پر حل نہیں کرتے۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ ایسی پالیسیاں بنائے جن سے ٹیکس نیٹ کو مستقل بنیادوں پر وسیع کیا جا سکے۔ اس مقصد کے لیے ٹیکس وصولی کے عمل کو مزید شفاف اور آسان بنایا جانا چاہیے تاکہ کاروباری برادری کو اعتماد ہو کہ ان کے ساتھ انصاف کا سلوک ہوگا۔حکومت کو چاہیے کہ وہ ٹیکس نیٹ کو وسیع کرنے کے لیے بڑے پیمانے پر عوامی آگاہی مہم چلائے اور تاجروں کے ساتھ دوستانہ تعلقات استوار کرے تاکہ وہ ٹیکس نظام کا حصہ بننے میں ہچکچاہٹ محسوس نہ کریں۔ اس کے ساتھ ساتھ، حکومت کو ان طبقات کی جانب توجہ دینی چاہیے جو سالہا سال سے ٹیکس چوری کر رہے ہیں یا ٹیکس نیٹ سے باہر ہیں۔ اس مقصد کے لیے ٹیکس کا نظام ڈیجیٹلائز کیا جانا چاہیے تاکہ شفافیت اور انصاف کو یقینی بنایا جا سکے۔پاکستان میں ٹیکس کے نظام کی موجودہ صورت حال اس بات کی متقاضی ہے کہ حکومت اور تمام متعلقہ ادارے مل کر اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے عملی اقدامات کریں۔ حکومت اور تاجروں کے درمیان حالیہ مذاکرات نے اگرچہ وقتی طور پر ایک حل فراہم کیا ہے، مگر اس سے اصل مسئلہ حل نہیں ہوا۔ پاکستان میں ٹیکس کے نظام میں اصلاحات لائے بغیر ملکی معیشت کو مستحکم نہیں کیا جا سکتا۔حکومت کو طویل مدتی حکمت عملی اختیار کرنی ہوگی جس کے تحت ٹیکس نیٹ کو وسیع کیا جائے، اشرافیہ کی اجارہ داری کو ختم کیا جائے، اور ٹیکس نظام کو شفاف بنایا جائے۔ عوامی اعتماد بحال کرنے اور ملکی ترقی کے اہداف حاصل کرنے کے لیے ضروری ہے کہ ٹیکس کے نظام کو جدید خطوط پر استوار کیا جائے۔ اس ضمن میں حکومت کو سخت فیصلے لینے ہوں گے اور سیاسی مفادات سے بالاتر ہو کر ملکی معیشت کی بہتری کے لیے اقدامات کرنا ہوں گے۔یہ وقت کی ضرورت ہے کہ حکومت بین الاقوامی معیار کے مطابق اپنے محصولات میں اضافہ کرے اور عام آدمی کے لیے ٹیکس کا بوجھ کم کرے۔ اس مقصد کے لیے حکومت کو اشرافیہ سے محصولات کی وصولی کو یقینی بنانا ہوگا اور عوام کو اس نظام کا حصہ بنانے کے لیے دوستانہ ماحول فراہم کرنا ہوگا۔ امید کی جانی چاہیے کہ موجودہ حکومت ان مسائل کو سمجھتے ہوئے ایک ایسا نظام تشکیل دے گی جس سے ٹیکس کا بوجھ منصفانہ طور پر تقسیم ہو اور ملک کی معیشت کو مستحکم بنیادوں پر استوار کیا جا سکے۔