پنجاب میں ایک بار پھرسے کچے کے آپریشن کے چرچے ہیں یہ ہر سال یہ سلسلہ مخصوص موسم میں شروع ہوتا ہے اور پکے کے معاملات ٹھیک ہونے تک جاری رہتاہے ہم نے کچہ آپریشن بارے آگاہ کرنا چند ماہ قبل ہی شروع کر دیا تھا پکے والے کچے میں جانے کی تیاریا ں کر رہے تھے کہ لوگوں تک کچے اور پکے والوں کے درمیان عرصہ درازسے چلنے والی گرمی اورسردی پہنچنا شروع ہوگئی اور پھر اچانک کچے والوں نے چند روز قبل 12 پولیس اہلکاروں پر بھاری ہتھیاروں سے حملہ کرکے پکے والوں کودعوت نامہ بھیج دیا جس کے بعد پکے والوں نے ایک بار پھر کچے والوں کو منہ توڑ جواب دینے کیلئے پھر سے انہیں پولیس افسران کو کچے کے انہی علاقوں میں تعینات کر دیا جہاں ان کی ازخود کروڑوں روپے کی جائیدادیں ،فارم ہائوس اور بڑے بڑے محلات موجود ہیں کیونکہ ان افسران کے کچے والوں سے اچھے خاصے تعلقات ہیں تو اب جن علاقوں میں ایسے افسران تعینات کیے گئے ہیں وہاں امن و امان کی صورتحال بہتر ہوجائے گی ۔مگرباقی علاقوں سے کچے والوں کو ہمہ قسم کی جرائم پیشہ سرگرمیاں کرنے کاپکا پرمٹ حاصل ہو جائے گا۔ چند روز قبل میری ملاقات چند پولیس افسران و ملازمین سے ہوئی اور ضلعی پولیس سے گفتگو چلتے چلتے کچے تک جا پہنچی جہاں مجھے معلوم ہوا پنجاب پولیس اور ایلیٹ فورس کے سینکڑوں ملازمین نے کچے آپریشن کا حصہ بننے سے معذرت کر لی ہے جبکہ متعدد ملازمین نے تو لکھ کر دے دیا ہے کہ ہمیں بے شک نوکری سے برخاست کردیا جائے مگر کچے کے آپریشن میں نہ بھیجا جائے اسی دوران ایک صاحب نے بتایا کہ ملتان سے تعلق رکھنے والے ایک بلڈر نے کچے کے علاقےمیں کاروبار کا آغاز کیا تو دفتر کی افتتاحی تقریب ختم ہوتے ہی کچے کے بھائی آن پہنچے اور کاروبار کا آغاز کرنے کیلئے 50 لاکھ روپے بھتے کی ڈیمانڈ کی اور انہوں نے کہا یہ بھتہ ان تک بھی پہنچے گا جنہیں تم ہم سے جان چھڑانے کیلئے کہیں زیادہ خرچ کرو گے خیر50 لاکھ سے شروع ہونے والا معاملہ 10 لاکھ پر ختم ہوا اور کچے کے بھائی لوگ رقم وصول کر کے چلتے بنے ،بلڈر نے جیسےہی کام کا آغاز کیا اور چند پروجیکٹ پر تعمیرات شروع ہوئیں تو ایک بار پھر کچے کے ہی دوسرے گروپ نے بلڈر کو گھیر لیا اور 5 لاکھ وصول کرلئے اور پھر یہ سلسلہ جاری ہوگیا بلڈر بتاتا ہے کہ ایک روز وہ اپنے چند دوستوں کے ہمراہ ایک مقامی ہوٹل میں کھانا کھانے گیا تو اس نے کچے کے بھائی لوگوں کو پکے والوں کی طرف سے اس علاقےمیں امن و امان کی صورتحال کو کنٹرول کرنے کیلئے جن افسران کو تعینات کیا تھا و ہ ان کے ساتھ مختلف قسم کے پکوان کھا کر لطف اندوز ہو رہے تھے تو میں نے اسی دن فیصلہ کیا کہ کچے اور پکے کے درمیان نکاح اور خلع کا یہ سلسلہ افہام تفہیم سے جاری رہے گا ، اور بس چند پروجیکٹس کے بعد میں نے وہاں سے واپسی کا فیصلہ کرلیا ۔
دو ماہ قبل تھانہ نیو ملتان کے علاقے خانیوال روڈ پر قتل ہونے والی ثانی زہر اکی ڈی این اے رپورٹ اور وزیر اعلیٰ پنجاب محترمہ مریم نواز شریف کے حکم پر پنجاب کی دو اہم خواتین وزراء عظمیٰ بخاری اور حنا پرویز بٹ نے باقاعدہ پریس کانفرنس کرکے ثانی زہرا کو اسکے شوہر علی رضا اور ساس عذرہ بی بی کے ہاتھوں قتل کرنے کا ڈی این اے رپورٹ کے مطابق انکشاف کیا تھا جس کے بعد سی ایم صاحبہ کی جانب سے بنائی جانیوالی جے آئی ٹی نے دن رات ثبوت بنا کر یہ ثابت کرنے کی بھرپور کوشش کرتے ہوئے ایک رپورٹ مرتب کر کے آئی جی پنجاب ڈاکٹر عثمان انور کو بھیجی ہے جس میں منجھے ہوئے کاریگروں نے ڈی این اے رپورٹ کو بالا طاق رکھ کر یہ ثابت کیا ہے کہ ثانی زہرا نے ذہنی دبائوں کا شکار ہو کر خود کو گلے میں پھندہ لگاتے ہوئے خود کشی ہی کی ہے اب دیکھنا ہو گا کہ سی ایم صاحبہ اور خواتین وزرا ء نے ڈی این اے کے مطابق جسے قتل قرار دیا تھا اسے اب کس طرح خود کشی میں تبدیل کیا جاتا ہے ۔ اب بات کرتے ہیں ضلع ملتان کی جہاں چوریوں اور ڈکیتیوں کے ساتھ ساتھ ضلعی پولیس کی جانب سے کی جانے والی پریس کانفرنسز کا گراف برابر جا رہا ہے ۔ضلعی پولیس کے سربراہ صادق علی ڈوگر اپنی ٹیم کے ہمراہ پچاس سے زائد پریس کانفرنس کر چکے ہیں تو دوسری جانب چور اور ڈاکو بھی روزانہ کی بنیاد پر 50 کے قریب وارداتیں ڈال کر ہی دم لے رہے ہیں اور یہ سلسلہ تاحال جاری ہے جس وقت پولیس ناکہ لگائے توان میں عوام لٹتے ہیں اور رات 12 بجے کے بعد جب چوروں اور ڈاکووں کا وقت شروع ہوتاہے بلکہ اب تو یہ حالات آن پہنچے ہیں کہ درجن سے زائد پولیس ملازمین بھی چوروں اور ڈاکووں کے ہاتھوں اپنی جیبیں خالی کراچکے ہیں ۔جتنی پریس کانفرنسز ضلع پولیس کی جانب سے کی جاچکی ہیں اس سے تو لگتا ہے کہ ملتان سمیت ریجن میں بھی جرائم پر مکمل قابو پایا جا چکا ہے لیکن حالات اس کے بر عکس ہیں حا ل ہی میں ایس ایس پی آپریشنز ملتان رانا ارسلان زاہد جو کچھ عرصہ سے اپنے تبادلے کیلئے سر توڑ کوشش کر رہے تھے آخر کاروہ کامیاب ہوگئے اور ضلع ملتا ن سے ان کا ٹرانسفر ضلع رحیم یارخان میں کر دیا گیا ہے چند روز قبل مقامی ہوٹل میں ملتان پولیس کے سربراہ کی جانب ان کے اعزاز میں الوداعی تقریب کا اہتمام بھی کیا گیا۔معلوم ہوا ہے ارسلان زاہد ملتان میں اختیارات کی وہ کرسی جسے آجکل میوزیکل چیئر کے نام سے جانا جاتا ہے سے بہت تنگ تھے اسی لئے وہ متعدد افسران کو درخواست کر چکے تھے کہ انہیں ضلع ملتا ن سے تبدیل کر دیاجائے ، کچھ عرصہ سے ملتان پولیس کےسربراہ صادق علی ڈوگر کی تبدیلی کی افواہیں گردش کررہی تھیں تو اب مقتدر حلقوں کی جانب سے اس بات کی تصدیق کی جارہی ہے کہ آنے والے چند روز میں ملتان پولیس کے سربراہ کو باقاعدہ طورپر تبدیل کردیا جائے گا اور پنجاب حکومت کی جانب سے سلیکٹ کیے گئے ایک ڈی آئی جی جلد ملتان پولیس کی سربراہی سنبھال لیں گے ۔