کوپ 28 کانفرنس دبئی میں جاری ہے، دبئی میں ہونے والی کوپ کانفرنس میں197سے زائد ممالک کے سربراہان شریک ہیں۔ کوپ 28 کانفرنس میں دنیا میں ہونے والی موسمیاتی تبدیلیوں کے بارے میں بات کی جائے گی اور دنیا میں کیسے کلائمٹ چینج پر قابو پایا جا سکتا ہے پر بات کی جارہی ہے ۔برطانوی شاہ چارلس نے کانفرنس میں خطاب کے دوران کہا کہ موسمیاتی تبدیلیوں کے سبب پاکستان، بنگلہ دیش سمیت ترقی پذیر ممالک کو سیلاب جیسی آفات کا سامنا کرنا پڑا، پاکستان نے اس مسئلے کے نتیجے میں سنگین نتائج بھگتے، موسمیاتی تبدیلیوں سے آنے والی نسل انسانی کو پیچیدہ خطرات کا سامنا ہے۔سربراہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے اقوا م متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتو نیو گوتریس نے نقصانات کے بعد ازالے کےفنڈ کے فعال ہونے کے اہم اقدام کوسراہا۔انہوں نے ترقی پذیر ملکوں پرزور دیا کہ وہ زہریلی گیسوں کے اخراج میں بھرپور کمی کی کوششوں میں اہم کردار ادا کریں۔ انہوں نے ایک اعشاریہ پانچ ڈگری دنیا کےلئے قائدانہ کردار تعاون اور سیاسی جرات کا مظاہرہ کرنے پر زور دیا۔ ایک اعشاریہ پانچ ڈگری حد کا حصول صرف اسی صورت میں ممکن ہے اگر ہم فوسل ایندھن چلانا روک دیں۔انہوں نے حکومتوں پر زور دیا کہ وہ کاربن کے استعمال پر قابو پانے، آئین سازی اور منصفانہ قیمت مقرر کرنے، فوسل ایندھن پر اعانتوں کے خاتمے اور منافعوں پر زیادہ سے زیادہ ٹیکس عائد کرنے کے ذریعے صنعتوں کو درست فیصلے کرنے میں مدد دیں۔اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل نے قابل تجدید توانائی کا استعمال بروئے کار لانے پر زور دیا اور کہا کہ یہ ہمارے کرہ ارض اور معیشتوں کےلئے اچھی ہے۔ترقی پذیر ملکوں پر موسمیاتی تبدیلی کے تباہ کن اثرات کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے کہا موسمیاتی انصاف کابہت عرصے سے انتظار ہے۔ واضح رہے کہ یہ سمٹ گزشتہ سال بھر کے دوران شدید موسمیاتی تبدیلیوں، جن کے کئی نئے ریکارڈ بنے ہیں کے بعد منعقد کی جا رہی ہے۔کوپ 28 اقوام متحدہ کی موسمیاتی تبدیلیوں پر 28ویں سالانہ اجلاس ہے، جس میں دنیا بھر کے ممالک اس پر بحث کریں گے کہ وہ کیسے ماحولیاتی تبدیلیوں کے اثرات کم کر سکتے ہیں اور کس طرح مستقبل میں موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات کے لیے اپنے آپ کو تیار کر سکتے ہیں۔اس سمٹ کا انعقاد بئی میں 30 نومبر سے شروع ہواہے جو 12 دسمبر تک جاری رہے گا۔ کوپ ’کانفرنس آف دی پارٹیز‘ کا مخفف ہے۔ پارٹیز سے مراد وہ ممالک ہیں جنھوں نے سنہ 1992 میں اقوام متحدہ کے ماحولیاتی تبدیلیوں سے متعلق معاہدے پر دستخط کر رکھے ہیں۔اقوام عالم نے ماحولیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کے فنڈ کی باضابطہ منظوری دیدی۔کانفرنس کے پہلے روز غزہ کے شہدا کے لیے ایک منٹ کی خاموشی اختیار کی گئی۔کانفرنس میں برطانیہ کے شاہ چارلس، امریکی نائب صدر کاملا ہیرس اور نگران وزیراعظم انوار الحق کاکڑ کی سربراہی میں پاکستانی وفد سمیت دنیا کے197ممالک شریک ہیں ۔ماحولیاتی کانفرنس کی سربراہی مصر نے میزبان متحدہ عرب امارات کے حوالے کی۔کانفرنس میں پہلے ہی دن بڑی پیش رفت بھی سامنے آئی کہ اقوامِ عالم نے ماحولیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کے فنڈ کی باضابطہ منظوری دے دی۔غیر ملکی میڈیا رپورٹ کے مطابق امیر ممالک موسمیاتی تبدیلیوں کے شکار ترقی پذیر اور غریب ممالک کی مالی مدد کریں گے ۔ عالمی ماحولیاتی کانفرنس کوپ 28 میں متحدہ عرب امارات نے 10 کروڑ ڈالر، جرمنی نے 20 کروڑ ڈالر، برطانیہ نے 6 کروڑ پاؤنڈ، امریکا نے ایک کروڑ 75 لاکھ ڈالر اور جاپان نے ایک کروڑ ڈالر فنڈ دینے کا اعلان کیا۔کوپ 28 کے صدر جابر السلطان نے افتتاحی خطاب میں کہا کہ کوپ 28 نے تیل وگیس کمپنیوں کو شریک کر کے دلیری دکھائی، فوسل فیول پیدا کرنے والی کمپنیوں سے ڈائیلاگ ضروری ہے، اس کے بغیر صحت مند ماحول کے اہداف حاصل کرنا نا ممکن ہے۔صدر کوپ 28 نے کہا کہ ہمارےاقدام کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا، ہمیں مل جل کر مشترکہ لائحہ عمل بنانا ہے، تیل پیدا کرنے والی کمپنیاں ہی نقصان دہ گیسز کے اخراج کو کم کرسکتی ہیں۔جابرالسطان کا کہنا تھا کہ دنیا مل کر ہی 2050 تک نیٹ زیرو کاربن اہداف حاصل کر سکتی ہے۔دوسری جانب فوسل فیول جیسا کہ کوئلہ، تیل اور گیس جو کسی ٹیکنالوجی کے بغیر جلائے جاتے ہیںکے بارے میں کسی معاہدے کی توقع نہیں کی جا رہی ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ فوسل فیول کے جلاؤ سے مضر صحت گیسز کے اخراج کو قابو نہیں کیا جا سکے گا۔سلطان الجابر نے فوسل فیول کے بارے میں مرحلہ وار استعمال کم کرنے کی حکمت عملی اختیار کرنے کی تجویز دی ہے۔ مگر انھوں نے مکمل خاتمے کی بات نہیں کی ہے۔ تاہم یورپی یونین اس حوالے سے فوسل فیول کے مکمل خاتمے پر زور دے گی۔ماحولیات پر کام کرنے والے سماجی کارکنوں کا کہنا ہے کہ اس حوالے سے کسی معاہدے کے نہ ہونے کا مطلب یہ ہے کہ مضر صحت گیسز کا اخراج جاری رہے گا۔ ان کا کہنا ہے کہ اس بات کی کوئی ضمانت نہیں ہے کہ ایسی گیسز کے اخراج کو روکنے سے متعلق کسی بڑے پیمانے پر کام ہو سکے گا۔گزشتہ برس کوپ 27 میں نقصانات کے ازالے (لاس اینڈ ڈیمج) سے متعلق فنڈ قائم کیا گیا تھا، جس میں امیر ممالک نے غریب ممالک کو پیسے دینے تھے جو اس وقت موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات بھگت رہے ہیں۔تاہم یہ بات ابھی بھی واضح نہیں ہے کہ یہ فنڈ کیسے کام کرے گا اور یہ امیر ممالک کس طرح فنڈ دیں گے۔ مثال کے طور پر امریکہ نے صنعتی اخراج کے لیے ازالہ دینے سے انکار کیا ہے۔سنہ 2009 میں امیر ممالک نے یہ وعدہ کیا تھا کہ وہ سنہ 2020 تک ترقی پذیر ممالک کو اس متعلق سالانہ 100 بلین ڈالر کا فنڈ دیں گے۔ اس مدد کا مقصد غریب ممالک کو اس قابل بنانا تھا کہ وہ مضر صحت گیسز کے اخراج کو کم کر سکیں اور موسمیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کے لیے اپنے آپ کو تیار کر سکیں۔ اس ہدف کو وقت پر حاصل نہیں کیا جا سکا۔ ابھی یہ امید ہے کہ اس متعلق 2023 میں کچھ پیش رفت ممکن ہو سکے۔گریٹا تھنبرگ سمیت کوپ کانفرنسز کے ناقدین یہ الزام عائد کرتے ہیں کہ یہ کانفرنسز محض دکھاوا ہیں، جن کے ذریعے ممالک اور کاروباری شخصیات بغیر کسی تبدیلی کے اپنے تاثر اور شبیہ کو بہتر بناتے ہیں۔دوسری طرف کوپ28کاانعقادخوش آئندہے۔پاکستان ماحولیاتی تبدیلی سے سب سے زیادہ متاثرہونے والاملک ہے۔اکتوبراورنومبرانسانی تاریخ کے گرم ترین مہینےرہے۔اس حوالے سے کوپ کوپاکستان میں ماحولیاتی تبدیلیوں کے چیلنج سے نمٹنےکیلئے اہم اعلانات کرنے چاہئیں اوراس حوالے سے خصوصی گرانٹ جاری کی جائے تاکہ پاکستان اس مسئلے پرقابوپاسکے۔اس کے ساتھ پاکستان کی حکومت اورعوام کوبھی اس مسئلے کی نزاکت سمجھتےہوئے ماحولیاتی تبدیلیوں کے چیلنج سے نبردآزماہونےکیلئے تیارہوجاناچاہئے۔ملک میں درخت زیادہ سے زیادہ لگائے جائیں۔آلودگی پھیلانے والے یونٹس بندکئے جائیں اورفوسل انرجی کااستعمال بھی بندکیاجائے۔پاکستان کوگرین بنانے سے ہی ہماری فضاکلین ہوگی۔اس مسئلے کوپوری قوم نے ملکرحل کرناہے۔
