فیلڈ مارشل محمد ایوب خان کہ جو 50 سال قبل اپنے تمام تر معمولات اور معاملات کی فائل کے ساتھ اللہ پاک کے حضور پیش ہو چکے ہیں اور آج بھی اکا دکا ٹرکوں پر ان کی تصویر کے ساتھ یہ جملہ لکھا ہوا نظر آتا ہے ۔ “تیرے جانے کے بعد تیری یاد آئی”۔ نہ جانے کس دبائو کے تحت طاقت ور ترین حکمران ہونے کے باوجود وہ پنجاب کے تین دریا بھارت کے حوالے کر گئے مگر سندھ طاس معاہدہ کرتے وقت بھارت سے صنعتی فضلہ گندہ اور غلاظت بھرا پانی لے کر پاکستان میں داخل ہونے والے گندے نالوں کو بند نہ کرا سکے اور آج ہم میٹھا پانی بھارت کے حوالے کرکے اس کی بہ کر آنے والی آلودگی اپنی زمینوں میں ڈال رہے ہیں۔ کتنا زہریلا پانی لے کر لاہور کی ہیڈیارہ ڈرین پاکستان میں داخل ہوتی ہے اس کا اندازہ کبھی سروے کروا کر ان گھر والوں سے پوچھا جائے جن کی رہائش گاہیں لاہور سے گزرنے والے اس نالے کے اطراف میں ایک سو میٹر کی حدود میں ہیں۔ کہتے ہیں کہ دنیا بھر کے 582 دریا ایسے ہیں جو ایک سے زائد بلکہ بعض تو سات اور آٹھ ممالک سے بھی گزرتے ہیں اور ہر ملک ان میں سے اپنے اپنے حصے کا پانی لے رہا ہے۔ ان میں سے تو کوئی دریا کسی ملک نے شاید ہی بند کیا ہو۔ کیا اس بارے ایوب خان نے ماہرین آبپاشی سے پوچھا؟ کیا انہوں نے عالمی قوانین دیکھے؟ کیا انہیں علم نہیں تھا کہ عالمی قوانین کے تحت جنگلی حیات، جنگلات اور آبی حیات کے علاوہ چرند پرند کا پانی بند نہیں کیا جا سکتا؟ کیا انہوں نے اس پر کوئی معلومات لیں۔ ایوب خان تو پاکستان کے حکمران کے علاوہ محافظ اعلیٰ بھی تھے تو انہوں نے کیوں ان باتوں پر توجہ نہ دی اور کیوں نہ متعلقین سے مشاورت کی۔
1964ء میں حکومت جاپان نے حکومت پاکستان سے رابطہ کرکے ایک ایسی عالیشان پیشکش کی کہ اس ملک میں سبز انقلاب آ جاتا مگر اسے ٹھکرا دیا گیا۔ جاپان کی طرف سے پیشکش کی گئی کہ پاکستان کے پاس ریلوے ٹریک کے اطراف میں جو لاکھوں ایکڑ اراضی بنجر پڑی ہے وہ 50 سال کے لئے حکومت جاپان کو لیز پر زرعی مقاصد کے لئے معاہدے کے تحت دے دی جائے۔ جاپان جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے سولر انرجی بھی خود پیدا کرے گا۔ یہاں سبزیوں اور پھلوں کی کاشت کرے گا جو ہائی بریڈ ہوں گی اور اس کا 40 فیصد حصہ پاکستان کو دے گا جبکہ 60 فیصد ایکسپورٹ کرے گا۔ پانی کا انتظام بھی خود کرے گا اور اگر پاکستان سے نہری پانی لے گا تو اس کی وہ قیمت ادا کرے گا جو بھی حکومت پاکستان طے کرے گی، پھر یہ بھی پیشکش میں شامل تھا کہ ریلوے ٹریک کی حفاظت میں بھی معاونت کرے گا۔ اگر یہ معاہدہ ہو جاتا تو 2014 میں ایک میں اس معاہدے کی 50 سالہ مدت ختم ہونے پر معاہدے کے تحت جاپان نے تمام تر ٹیکنالوجی اور مکمل انفراسٹرکچر و تنصیبات پاکستان کے حوالے کرکے واپس چلے جانا تھا ۔ نہ جانے کون رکاوٹ بنا اور کس نے پاکستان کو اتنی بڑی پیشکش سے محروم رکھا۔ آج 57 سال بعد بھی ریلوے ٹریک کے اردو گر دھول اڑ رہی ہے جو اس معاہدے کی صورت میں نہ آتی اس معاہدے کی ’’ فائل‘‘ بھی سابق صدر پاکستان ایوب خان ہی کے پاس ہو گی اور پھر وہ چند کردار جو اسے رکوانے اور معاہدہ نہ ہونے میں اپنا حصہ ڈالتے رہے اللہ کے حضور پیش ہو چکے ہوں گے۔ کاش ایسا ہو جاتا تو پاکستان میں زرعی انقلاب آ جاتا۔ ان معاملات کو دیکھا جائے تو جانے والوں کی یادیں بہت سے حوالوں سے ان کے جانے کے بعد آتی رہتی ہیں اور تا قیامت آتی ہی رہیں گی۔
زرعی کالج لائلپور برصغیر کی زراعت میں تحقیق کے حوالے سے بہت جلد منفرد مقام حاصل کر گیا جو بعد میں زرعی یونیورسٹی کا درجہ حاصل کر گیا۔ زرعی کالج کے دور میں زراعت پر تحقیق کا عمل شروع ہو گیا تھا اور اس تحقیق کو لائل پور ماڈل کے نام سے جانا جانے لگا۔ قیام پاکستان کے بعد بھی 1963ء تک بھارت کسی نہ کسی حوالے سے زرعی یونیورسٹی لائل پور سے رابطہ میں رہا اور بھارت میں زراعت کی ترقی کو لائل پور ماڈل کا نام دیا گیا اور بھارتی پنجاب میں آج بھی لائل پور ماڈل سے وہاں کے لوگوں کو آشنائی ہے مگر پاکستان میں لائل پور ہی ختم کر دیا گیا تو پھر لائل پور ماڈل کہاں باقی رہتا۔ جس طرح غلام اپنے آقائوں کے نام پر بچوں کے نام رکھا کرتے ہیں اسی طرح شاہ فیصل کے نام پر لائل پور فیصل آباد ہو گیا تو کوئی نئی اور اچھنبے کی بات بھی نہیں کہ خوئے غلامی تو نسلوں تک چلتی ہے۔
ابھی تو جاپان کی 1989ء میں سوات کے علاقے میں واٹر گیمز کی تنصیب کے معاہدے کا قصہ باقی ہے۔ اسے اگلی قسط تک ملتوی کرتا ہوں۔( جاری ہے)
