آج کی تاریخ

میرا قائد عمران خان فوجی آپریشن کیخلاف تھا، ہم بھی اس کے خلاف ہیں،نو منتخب وزیر اعلیٰ خیبرپختونخوا محمد سہیل آفریدی-میرا قائد عمران خان فوجی آپریشن کیخلاف تھا، ہم بھی اس کے خلاف ہیں،نو منتخب وزیر اعلیٰ خیبرپختونخوا محمد سہیل آفریدی-ایران کا غزہ امن کانفرنس میں شرکت سے انکار، "اپنے عوام پر حملہ کرنے والوں کے ساتھ نہیں بیٹھ سکتے"، ایرانی وزیرِ خارجہ-ایران کا غزہ امن کانفرنس میں شرکت سے انکار، "اپنے عوام پر حملہ کرنے والوں کے ساتھ نہیں بیٹھ سکتے"، ایرانی وزیرِ خارجہ-سپر ٹیکس کیس کی سماعت میں ججز اور وکلا کے درمیان دلچسپ تبادلہ خیال-سپر ٹیکس کیس کی سماعت میں ججز اور وکلا کے درمیان دلچسپ تبادلہ خیال-پاکستان اسٹاک ایکسچینج میں شدید مندی، کے ایس ای-100 انڈیکس 4 ہزار پوائنٹس گر گیا-پاکستان اسٹاک ایکسچینج میں شدید مندی، کے ایس ای-100 انڈیکس 4 ہزار پوائنٹس گر گیا-نیتن یاہو کی ہٹ دھرمی: غزہ میں دوبارہ فوجی کارروائی کا اشارہ-نیتن یاہو کی ہٹ دھرمی: غزہ میں دوبارہ فوجی کارروائی کا اشارہ

تازہ ترین

کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کی واپسی

پاکستان کی معیشت ایک بار پھر کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کی جانب لوٹ چکی ہے۔ مالی سال 2025 میں غیر معمولی طور پر 2.1 ارب ڈالر کا سرپلس ملا تھا جسے حکومت نے بڑی کامیابی کے طور پر پیش کیا، مگر معاشی ماہرین پہلے ہی خبردار کر چکے تھے کہ یہ سرپلس پائیدار نہیں ہے بلکہ وقتی عوامل کا نتیجہ ہے۔ مالی سال 2026 کے ابتدائی دو ماہ ہی میں 624 ملین ڈالر کا خسارہ سامنے آنا اس بات کا ثبوت ہے کہ پاکستانی معیشت کی بنیادی کمزوریاں ابھی جوں کی توں ہیں۔ یہ وہ حقیقت ہے جسے نظر انداز کرنا اب ممکن نہیں رہا۔
اعداد و شمار اس صورتحال کی سنگینی کو مزید واضح کرتے ہیں۔ درآمدات جولائی اور اگست میں 10.4 ارب ڈالر تک جا پہنچی ہیں جو گزشتہ برس کے مقابلے میں 9 فیصد زیادہ ہیں۔ برآمدات اگرچہ 10 فیصد اضافے کے ساتھ 5.3 ارب ڈالر رہیں مگر تجارتی خسارہ 5.1 ارب ڈالر تک پہنچ گیا۔ خدمات اور پرائمری انکم کے خسارے نے کل خسارہ مزید بڑھا دیا۔ صرف دو ماہ میں بیرونی قرضوں کی سود اور منافع کی واپسی پر 1.5 ارب ڈالر خرچ ہو گئے، جبکہ ترسیلات زر 6.8 ارب ڈالر کی شکل میں واحد سہارا رہیں۔ یہ تصویر ظاہر کرتی ہے کہ برآمدات اور سرمایہ کاری کے بجائے ہم بدستور بیرونِ ملک مقیم محنت کشوں کے خون پسینے پر انحصار کر رہے ہیں۔درآمدی بل کی نوعیت بھی چشم کشا ہے۔ فوڈ گروپ کی درآمدات 37 فیصد بڑھ کر 1.5 ارب ڈالر ہو گئیں حالانکہ اس دوران نہ تو گندم اور نہ ہی چینی منگوائی گئی۔ پام آئل اور دیگر کھانے پینے کی اشیاء کی درآمد میں نمایاں اضافہ ہوا جو یہ بتاتا ہے کہ کھپت کا دباؤ بڑھ رہا ہے۔ مشینری کی درآمد میں 23 فیصد اضافہ ہوا جس میں موبائل فونز، ٹیکسٹائل مشینری، تعمیراتی اور معدنیاتی آلات شامل ہیں۔ یہ اعداد و شمار اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ پاکستان میں پیداوار کی گنجائش بڑھانے کی کوشش کی جا رہی ہے مگر ہر نئی مشین ڈالر کے انوائس کے ساتھ آتی ہے۔ یہ ترقی درآمدی ڈھانچے پر انحصار کیے بغیر ممکن نہیں۔ٹرانسپورٹ سیکٹر کی درآمدات تقریباً دوگنی ہو کر 626 ملین ڈالر تک پہنچ گئیں۔ پٹرولیم مصنوعات کی مد میں وقتی طور پر کچھ ریلیف ملا مگر یہ بھی تیل کی عالمی قیمتوں کی وجہ سے ہے، ملکی پالیسی کا اس میں کوئی دخل نہیں۔ خام تیل اور ایل این جی کی درآمدی مقدار بدستور زیادہ ہے اور پاکستان کا انرجی بل بین الاقوامی منڈیوں کے رحم و کرم پر ہے۔برآمدات کا حال مایوس کن ہے۔ دو ماہ میں محض 1 فیصد اضافہ ہوا۔ خوراک کی برآمدات 26 فیصد کم ہوئیں، ٹیکسٹائل 10 فیصد بڑھے مگر توانائی کی مہنگائی اور ٹیکسوں کے بوجھ نے اس شعبے کو بھی دباؤ میں رکھا ہے۔ آئی ٹی برآمدات اگرچہ 18 فیصد بڑھ کر 692 ملین ڈالر ہوئیں مگر کل برآمدات کے مقابلے میں یہ حصہ اب بھی ناکافی ہے۔ پاکستان کی برآمدی ٹوکری محدود اور کم ویلیو مصنوعات پر مشتمل ہے، دنیا آگے بڑھ رہی ہے مگر ہم وہی پرانے روایتی سامان بیچنے پر اکتفا کر رہے ہیں۔حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کی معیشت ایک ’سالوینسی ٹریپ‘ میں پھنس چکی ہے۔ جتنا ہم پیداوار بڑھانے کی کوشش کرتے ہیں، اتنی ہی درآمدات بڑھ جاتی ہیں۔ قرضوں پر انحصار اور ان کے سود کی ادائیگی ہماری برآمدات اور ترسیلات کو نگل جاتی ہے۔ یہ سرپلس اور خسارے کا کھیل محض اعداد و شمار کی جادوگری ہے، حقیقی استحکام کہیں دکھائی نہیں دیتا۔پالیسی ساز پھر سے وہی پرانے نسخے آزمانے کی تیاری میں ہیں: گاڑیوں پر ٹیکس بڑھانا، موبائل فونز پر ڈیوٹیاں لگانا یا بینک فنانسنگ پر پابندیاں۔ مگر یہ سب وقتی تدابیر ہیں۔ اصل مسئلہ معیشت کے ڈھانچے کا ہے جسے بدلنے کے بغیر خسارہ کم نہیں ہوگا۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ ٹیرف وال گرائی جائیں تاکہ صنعت کو سستے خام مال تک رسائی ملے، روپے کی قدر کو مصنوعی سہارا دینے کے بجائے مارکیٹ کے مطابق رکھا جائے تاکہ ترسیلات زر باضابطہ چینلز سے آئیں اور برآمدات مسابقتی رہیں۔اسی طرح قرضوں کی تنظیمِ نو وقت کی اہم ضرورت ہے تاکہ سودی بوجھ کم ہو اور سرمایہ کاری کے لیے جگہ پیدا ہو۔ برآمدات کو محض ٹیکسٹائل تک محدود رکھنے کے بجائے ایگری بزنس، انجینئرنگ مصنوعات اور آئی ٹی خدمات جیسے نئے شعبوں میں وسعت دینا ہوگی۔ جب تک نئی منڈیوں اور نئی مصنوعات پر توجہ نہیں دی جاتی، برآمدات میں حقیقی اضافہ ممکن نہیں۔اس کے ساتھ ساتھ مقامی سرمایہ کاری کو فروغ دینا بھی ناگزیر ہے۔ ہر بار ہم غیر ملکی سرمایہ کاروں کے انتظار میں بیٹھے رہتے ہیں مگر ملکی سرمایہ کار اعتماد کے فقدان کے باعث پیچھے ہٹ جاتے ہیں۔ پالیسی کا تسلسل، شفاف ضوابط اور کاروباری آسانیاں فراہم کر کے انہیں متحرک کیا جا سکتا ہے۔یہ بھی سمجھنا ہوگا کہ ترسیلات زر کوئی پالیسی نہیں بلکہ ایک غیر یقینی سہارا ہے۔ محض بیرونِ ملک محنت کشوں کے بھیجے ہوئے ڈالر پر معیشت کھڑی نہیں کی جا سکتی۔ ہمیں اپنی پیداواری صلاحیت بڑھانی ہوگی اور ایسی حکمت عملی اپنانی ہوگی جو قرض اور درآمدی انحصار کے بجائے خود انحصاری اور مسابقت کو فروغ دے۔پاکستان کی معیشت بار بار انہی الجھنوں میں پھنس کر رہ جاتی ہے: کبھی وقتی سرپلس کو فتح قرار دیا جاتا ہے، کبھی چھوٹے خسارے کو بحران بنا کر پیش کیا جاتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ معیشت ابھی بھی زندگی کے لیے بیرونی ڈالرز کی مصنوعی آکسیجن پر چل رہی ہے۔ اگر فوری طور پر بنیادی اصلاحات نہ کی گئیں تو یہ آکسیجن ختم ہوتے ہی سارا ڈھانچہ زمین بوس ہو سکتا ہے۔یہ وقت ہے کہ حکمران طبقہ اپنی ترجیحات بدلیں۔ وقتی اعلانات اور اعداد و شمار کی بازیگری سے نکل کر حقیقی اصلاحات کی جائیں۔ اگر ہم نے اب بھی معیشت کو پیداواری اور مسابقتی راستے پر نہ ڈالا تو کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ بار بار لوٹتا رہے گا اور پاکستان مستقل طور پر معاشی عدم استحکام کا شکار رہے گا۔ یہی وہ تلخ حقیقت ہے جسے تسلیم کرنا اور اس کے مطابق پالیسیاں تشکیل دینا اب ناگزیر ہو چکا ہے۔پاکستان کے لیے سب سے بڑا چیلنج یہ ہے کہ معاشی پالیسیوں کو محض ردعمل کے بجائے ایک طویل المدتی وژن کے ساتھ جوڑا جائے۔ جب بھی بیرونی دباؤ بڑھتا ہے تو فوری طور پر درآمدات پر قدغن، سبسڈی میں کٹوتی یا قرض کے نئے پیکیج کی تلاش شروع کر دی جاتی ہے۔ لیکن یہ اقدامات نہ صرف وقتی ثابت ہوتے ہیں بلکہ عوامی مشکلات کو بھی بڑھا دیتے ہیں۔ نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ایک طرف معیشت دباؤ میں رہتی ہے اور دوسری طرف عوام کی قوتِ خرید کم ہوتی ہے، جس سے سماجی بے چینی جنم لیتی ہے۔ اس طرزِ حکمرانی نے اعتماد کے بحران کو جنم دیا ہے، جہاں سرمایہ کار اور عام شہری دونوں ہی مستقبل کو غیر یقینی سمجھتے ہیں۔اب وقت آ گیا ہے کہ پاکستان ایک نئے معاشی معاہدے کی طرف بڑھے، جس کی بنیاد شفافیت، جوابدہی اور خود انحصاری پر ہو۔ سب سے پہلے بجٹ کے اندر شفافیت کو یقینی بنانا ہوگا تاکہ عوام کو یہ علم ہو کہ ان کے ٹیکس کہاں خرچ ہو رہے ہیں۔ دوسرا اہم نکتہ یہ ہے کہ پیداواری شعبے کو ٹیکس مراعات، جدید ٹیکنالوجی تک رسائی اور توانائی کے مستحکم نرخ فراہم کیے جائیں۔ اگر برآمدی صنعتوں کو بجلی اور گیس کے مسائل کا سامنا ہی رہے گا تو ان سے مسابقتی صلاحیت کی توقع محض خواب ہی ہوگی۔اسی طرح صوبائی اور وفاقی سطح پر ہم آہنگی پیدا کرنا ناگزیر ہے۔ 18ویں ترمیم کے بعد معدنیات اور دیگر وسائل پر صوبوں کا کنٹرول بڑھا ہے لیکن بدقسمتی سے وفاق اور صوبوں کے درمیان تال میل کی کمی نے سرمایہ کاروں کو بدظن کیا ہے۔ اگر اس خلاء کو پُر کر لیا جائے تو ملکی اور غیر ملکی سرمایہ کاری میں نمایاں اضافہ ممکن ہے۔آخر میں یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ پاکستان کے کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کا مسئلہ صرف مالیاتی اعداد و شمار کا نہیں بلکہ قومی ترجیحات کا ہے۔ جب تک پالیسی ساز اپنے سیاسی مفادات سے بالاتر ہو کر معیشت کی سمت درست کرنے پر آمادہ نہیں ہوں گے، یہ خسارہ محض اعداد کا کھیل بنا رہے گا اور حقیقی استحکام ہماری پہنچ سے باہر رہے گا۔

شیئر کریں

:مزید خبریں