پاکستان سپر لیگ 2025 کے دسویں ایڈیشن میں کراچی کے نیشنل اسٹیڈیم کو صرف پانچ میچز کی میزبانی ملی، لیکن ایک بار پھر خالی اسٹیڈیم نے کرکٹ سے عوام کی لاتعلقی پر سوالات کھڑے کر دیے ہیں۔ حالانکہ نیشنل اسٹیڈیم ملک کا سب سے بڑا کرکٹ اسٹیڈیم ہے جہاں 30 ہزار سے زائد تماشائی بیٹھ سکتے ہیں، مگر کراچی کنگز کے میچوں میں شائقین کی عدم دلچسپی ماضی کی طرح برقرار ہے۔
یہ سوال بار بار اٹھتا رہا ہے کہ کیا کراچی کے لوگ کرکٹ سے دور ہو چکے ہیں یا پی ایس ایل کی کشش کم ہو گئی ہے؟ حالیہ برسوں میں حتیٰ کہ بین الاقوامی میچز کے دوران بھی نیشنل اسٹیڈیم مکمل نہیں بھرا جا سکا۔ ملتان سلطانز کے مالک علی ترین نے بھی ایک پوڈ کاسٹ میں کہا تھا کہ کراچی کو میچز دینے سے پہلے یہاں کے اسٹیڈیم میں سہولیات بہتر بنانا ہوں گی۔
علی ترین نے حال ہی میں ایک ٹی وی شو میں وضاحت دی کہ ان کی نیت میچز کی مخالفت نہیں تھی بلکہ وہ چاہتے تھے کہ اسٹیڈیم میں بہتر سہولیات دی جائیں تاکہ شائقین دلچسپی سے آئیں۔ انہوں نے کہا کہ نیشنل اسٹیڈیم میں بیٹھنے کے مقامات پر لوہے کے جنگلے لگے ہیں جس سے میچ دیکھنا مشکل ہو جاتا ہے، جبکہ دیگر مسائل بھی عوام کی حاضری کو متاثر کرتے ہیں۔
کراچی اسٹیڈیم کے مقام کے باعث ٹریفک اور سیکیورٹی چیلنجز رہے ہیں، لیکن حالیہ برسوں میں صورت حال بہتر ہوئی ہے۔ اس کے باوجود اسٹیڈیم میں کھانے پینے کی مہنگی اشیاء، غیر ضروری شناختی کارڈ چیکنگ اور انتظامی کمزوریوں نے شائقین کو دور رکھا ہے۔
12 اپریل کو کراچی کنگز اور ملتان سلطانز کا سنسنی خیز میچ کھیلا گیا، جس میں دو سنچریاں اور کئی چھکے چوکے لگے، مگر اسٹیڈیم میں حاضری نہ ہونے کے برابر تھی۔ اس کے برعکس، ایک دن پہلے فلسطین سے اظہارِ یکجہتی کے لیے کراچی کی سڑکوں پر عوام کا ہجوم موجود تھا، جس سے سوشل میڈیا پر تاثر ابھرا کہ شہریوں نے پی ایس ایل کا بائیکاٹ کیا۔
لاہور، ملتان اور پنڈی میں پی ایس ایل کے میچز میں تماشائیوں کی بھرپور شرکت رہی، جو بتاتی ہے کہ مسئلہ کرکٹ کی دلچسپی کا نہیں بلکہ مقامی انتظامیہ اور سہولیات کی فراہمی کا ہے۔
اسی دوران بھارت میں انڈین پریمیئر لیگ (آئی پی ایل) کا 18 واں سیزن بھی جاری ہے، جو پی ایس ایل کے ساتھ ہی ہو رہا ہے۔ آئی پی ایل میں تمام ٹیمیں ہوم اینڈ اوے فارمیٹ کے تحت کھیلتی ہیں، جبکہ پی ایس ایل میں پشاور اور کوئٹہ کی ٹیموں کے پاس ہوم گراؤنڈ ہی نہیں ہے۔
پی سی بی چیئرمین محسن نقوی نے آئی سی سی چیمپئنز ٹرافی سے قبل اربوں روپے خرچ کر کے اسٹیڈیمز کو اپ گریڈ کیا، لیکن کراچی، لاہور، ملتان اور پنڈی کی کرکٹ ایسوسی ایشنز کو کوئی اہمیت نہیں دی جا رہی۔ لاہور قلندرز جیسے محدود وسائل رکھنے والے فرنچائز بھی اسٹیڈیم بھرنے کے لیے کوششیں کرتی ہیں، مگر کراچی کنگز اس میدان میں پیچھے ہے۔
جہاں بھارت میں اسٹیڈیمز بھرے ہوئے ہیں، وہیں پاکستان میں کئی مسائل کی وجہ سے کرسیاں خالی ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا ان وجوہات پر سنجیدگی سے غور کیا جائے گا یا شائقین کرکٹ یونہی مایوس ہوتے رہیں گے؟
