ہنوئی میں اقوامِ متحدہ کے زیرِ اہتمام دستخط ہونے والا عالمی انسدادِ سائبر جرائم معاہدہ بظاہر ڈیجیٹل دنیا کو محفوظ بنانے کی سمت ایک اہم قدم ہے، مگر اس کے اندر وہ بنیادی تضاد چھپا ہے جو ہر دور میں طاقت اور آزادی کے بیچ موجود رہا ہے — یعنی تحفظ کے نام پر ریاستی اختیار کا پھیلاؤ۔ ساٹھ سے زائد ممالک نے اس معاہدے پر دستخط کیے ہیں، جس کا مقصد سرحد پار سائبر جرائم کے خلاف تعاون بڑھانا ہے۔ ان جرائم میں بچوں کی فحش نگاری، بین الاقوامی دھوکہ دہی، مالی فراڈ اور منی لانڈرنگ جیسے سنگین جرائم شامل ہیں جو موجودہ قانونی ڈھانچوں سے کہیں زیادہ پیچیدہ ہو چکے ہیں۔اقوامِ متحدہ کے سیکرٹری جنرل نے اس موقع پر کہا کہ یہ معاہدہ “اہم سنگِ میل” ہے کیونکہ اس سے ان جرائم کا مقابلہ ممکن ہوگا جو “خاندانوں کو تباہ کرتے ہیں” اور “اربوں ڈالر کی معیشت نگل جاتے ہیں”۔ یہ دلیل بظاہر قابلِ فہم ہے — ڈیجیٹل جرم ایک عالمی وبا بن چکا ہے، جس کے متاثرین سرحدوں کے آرپار پھیلے ہوئے ہیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا یہ معاہدہ واقعی تحفظ فراہم کرے گا، یا یہ طاقتور ریاستوں کے ہاتھ میں ایک نیا آلہ بن جائے گا جس کے ذریعے وہ آزادیِ اظہار اور شہری حقوق پر مزید قدغن لگا سکیں گی؟انسانی حقوق کی تنظیموں نے آغاز ہی سے خبردار کیا تھا کہ اس معاہدے کی زبان غیر واضح اور خطرناک طور پر وسیع ہے۔ ان کے مطابق، اس کے اندر موجود حفاظتی شقیں کمزور ہیں اور اس کی بنیاد پر حکومتیں اپنے ناقدین کے خلاف کارروائی کر سکتی ہیں۔ اس خدشے کا اظہار ایک کھلے خط میں کیا گیا جس میں کہا گیا کہ یہ معاہدہ ’’سرحد پار دباؤ اور اختلافِ رائے کی سرکوبی‘‘ کے لیے استعمال ہو سکتا ہے۔ٹیکنالوجی ماہرین اور پالیسی تجزیہ کاروں نے بھی اسی سمت میں اپنی تشویش ظاہر کی۔ ان کے مطابق، اس معاہدے کے تحت ٹیکنالوجی کمپنیوں کو ریاستی اداروں کے ساتھ صارفین کا ڈیٹا شیئر کرنے پر مجبور کیا جا سکتا ہے۔ اس طرح نہ صرف پرائیویسی کا دائرہ محدود ہوگا بلکہ صحافیوں، محققین اور سماجی کارکنوں کے لیے بھی خطرات بڑھ جائیں گے۔ یہ وہ عمل ہے جو پہلے ہی کئی ممالک میں دیکھا جا چکا ہے جہاں سائبر قوانین کو حکومت مخالف آوازوں کو دبانے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔اس معاہدے کی جگہ — ہنوئی — کا انتخاب بھی علامتی ہے۔ انسانی حقوق کی تنظیموں، خصوصاً ہیومن رائٹس واچ نے اس پر توجہ دلائی کہ ویتنام خود اختلافِ رائے اور صحافت پر سخت پابندیاں رکھتا ہے۔ ایسے ملک میں انسانی آزادیوں کے تحفظ پر مبنی معاہدے کے دستخط ہونا اپنی نوعیت کا ایک تضاد ہے۔ٹیکنالوجی کمپنیوں نے بھی اس معاہدے سے فاصلہ رکھا۔ سائبر سیکیورٹی ٹیک اکورڈ، جو دنیا کی 160 سے زائد کمپنیوں — بشمول میٹا، ڈیل اور اِنفوسس — کی نمائندگی کرتا ہے، نے دستخطی تقریب میں شرکت سے انکار کر دیا۔ ان کمپنیوں نے کہا کہ معاہدے کی زبان اتنی مبہم ہے کہ یہ سائبر سیکیورٹی محققین کو مجرم قرار دینے تک جا سکتی ہے اور ریاستوں کو ’’کسی بھی جرم‘‘ پر تعاون کے نام پر حد سے تجاوز کا موقع دے سکتی ہے۔ ان کے مطابق، اس سے ’’اربوں صارفین کے آئی ٹی نظام خطرے میں پڑ سکتے ہیں‘‘۔یہ محض کارپوریٹ مفاد نہیں بلکہ ایک حقیقی خطرہ ہے۔ اگر سائبر ریسرچ یا ڈیجیٹل سیکیورٹی کے ماہرین کو تحقیق کے دوران قانونی خطرات لاحق ہوں تو وہ تحقیق سے پیچھے ہٹ جائیں گے، اور نتیجہ یہ ہوگا کہ سائبر سیکیورٹی مزید کمزور ہو جائے گی۔اس معاہدے کی تاریخ بھی کم دلچسپ نہیں۔ اسے سب سے پہلے روسی سفارت کاروں نے 2017ء میں پیش کیا تھا، اور کئی برس کی بحث کے بعد گزشتہ سال اتفاقِ رائے سے منظور ہوا۔ ناقدین کے مطابق، روسی پس منظر اس کی ساخت اور نیت پر سوال اٹھاتا ہے، خصوصاً اس لیے کہ سائبر حملوں کا ایک بڑا حصہ خود روس سے منسلک کیا جاتا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ جب تک سیاسی عزم نہیں ہوگا، قانونی متن کچھ نہیں بدل سکتا۔دوسری جانب، پہلے سے موجود بوداپسٹ کنونشن ایک ایسا فریم ورک ہے جو سائبر جرائم کے خلاف عالمی تعاون فراہم کرتا ہے اور انسانی حقوق کی پاسداری کو بنیاد بناتا ہے۔ ماہرین کے مطابق، نیا معاہدہ اس سے ہٹ کر ایک ایسا راستہ اختیار کر رہا ہے جہاں حقوق کے تحفظ کے بجائے ریاستی کنٹرول کو فوقیت دی جا رہی ہے۔لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ سائبر جرائم اب روایتی سرحدوں سے آزاد ہو چکے ہیں۔ ان کی نوعیت اور رفتار ایسی ہے کہ کسی ایک ملک کے قوانین یا تفتیشی ادارے ان سے اکیلے نہیں نمٹ سکتے۔ بین الاقوامی تعاون کی ضرورت اپنی جگہ مسلم ہے۔ ثبوت، رقم، اور مجرم لمحوں میں ایک ملک سے دوسرے ملک منتقل ہو جاتے ہیں۔







