آج کی تاریخ

ڈاکٹر رمضان نئی مشکل میں، حرام کمائی کے کروڑوں واپس، پنجاب حکومت کا بھی شکنجہ سخت

سابق وی سی ڈاکٹررمضان کے استعفےکاعکس۔

ملتان (سٹاف رپورٹر) ایمرسن یونیورسٹی ملتان کی فارنزک رپورٹ میں ثابت شدہ ہم جنس پرست سابق وائس چانسلر ڈاکٹر محمد رمضان اور ان کے دست راست رجسٹرار محمد فاروق کے لیے ملازمتوں کی فراہمی کے عوض لی جانے والی کروڑوں روپے کی رشوت واپس کرنا عذاب بن گیا ۔ گزشتہ جمعہ کے روز لاہور میں ہونے والی ایمرسن یونیورسٹی کی سنڈیکیٹ کی میٹنگ میں ان دونوں کی طرف سے گزشتہ ایک سال کے دوران کی گئی تقرریوں کی منظوری کو روک دیا گیا جس کی وجہ سے وہ تمام امیدوار جو سابق وائس چانسلر کے فرنٹ مین ڈاکٹر شبیر اور رجسٹرار ڈاکٹر فاروق کو بھاری رقوم دے چکے ہیں، ان کی طرف سے شدید دبائو ہے کہ ان کے پیسے واپس کئے جائیں اور رشوت میں لئے گئے کروڑوں روپے واپس کرنا ان تمام کیلئے ایک عذاب بنا ہوا ہے۔ علاوہ ازیں معلوم ہوا ہے کہ حکومت پنجاب نے ایمرسن یونیورسٹی میں ہونے والی کرپشن پر تحقیقات کا فیصلہ کر لیا ہے اور وائس چانسلر کی ہم جنس پرستی کی ویڈیو فارنزک سائنس لیباٹری سے ثابت ہونے کے بعد ڈاکٹر رمضان کے تمام سفارشیوں اور سہولت کاروں کے دانت کھٹے ہو گئے ہیں اور ان کے پاس ڈاکٹر رمضان کو ناجائز حمایت دینے کا کوئی جواز ہی باقی نہیں رہا اور جو اکا دکا آوازیں ڈاکٹر رمضان کے حق میں اٹھ رہی تھیں وہ تمام کی تمام دم توڑ چکی ہیں۔ حکومت پنجاب میں بیٹھے بعض اہم افسران جو ڈاکٹر رمضان کی خوشامد، چاپلوسی اور برادری کی بنیاد پر ان کی سپورٹ کرتے اور تحفظ دیتے تھے انہوں نے بھی اپنے ہاتھ کھینچ لئے ہیں۔ بتایا گیا ہے کہ ڈاکٹر رمضان کی طرف سے گورنر پنجاب جو کہ صوبہ بھر کی سرکاری یونیورسٹیوں کے چانسلر بھی ہیں، کے نام بھیجے گئے استعفے میں ابھی ایک ماہ کی مدت ڈال کر کوشش کی ہے کہ وہ اس عرصے میں اپنی چاپلوسی کی بنیاد پر معاملات کو سیدھے کر لیں گے مگر معاملات مکمل طور پر ان کے ہاتھ سے نکل چکے ہیں اور اب جلد انہیں مقدمات کا سامنا بھی کرنا پڑے گا جو اخلاقی اور مالی کرپشن کی نوعیت کے ہوں گے۔

بدکاری معاملات کیلئے قوت بخش اشیا، لاہور کے گھریلو اخراجات بھی یونیورسٹی کھاتے میں شامل

سابق وی ایمرسن یونیورسٹی ڈاکٹرمحمدرمضان کےشہد،خشک میوہ جات،جوسز،دودھ،بسکٹ،کافی ودیگر اشیاکے استعمال کے بل۔

ملتان (سٹاف رپورٹر) تین سال قبل مبینہ طور پر دو کروڑ روپے رشوت دے کر ایمرسن یونیورسٹی کے وائس چانسلر کا عہدہ سنبھالنے والے لائبریرین ڈاکٹر رمضان نے یونیورسٹی میں کرپشن کی ایسی ایسی داستان رقم کی ہیں کہ بیان سے باہر ہیں اور حیران کن امر یہ ہے کہ حکومت پنجاب کا آڈٹ ڈیپارٹمنٹ اور دیگر نگرانی کرنے والے ادارے نہ صرف خاموش رہے بلکہ ان کی کرپشن پر پردے ڈالتے رہے حتیٰ کہ بعض تحقیقاتی اور خفیہ اداروں کو اگر کوئی شکایت بھی ملتی تھی تو کارروائی کے بجائے اس کی اطلاع ڈاکٹر رمضان کے پاس پہنچ جاتی تھی اور ڈاکٹر رمضان درخواست دہندہ کو آسانی سے مینج کر لیتے تھے۔ اب بتدریج چیزیں سامنے آرہی ہیں تو پتہ چلا ہے کہ اپنے بد کرداری کے معاملات کیلئےڈاکٹر رمضان کو سردیوں میں خشک میوہ جات کی ضرورت ہوتی تھی اور ان کی یہ ضرورت بھی طلبہ کی فیسوں اور یونیورسٹی کے فنڈز سے پوری ہوتی تھیں۔ ہر سردیوں میں یہ 69 سالہ سابق وی سی چھ ماہ تک کے خشک میوہ جات، شہد و دیگر قوت بخش ادویات پر ہزاروں روپے ماہوار کے اخراجات بھی یونیورسٹی کے کھاتے سے وصول کرتے تھے اور ریکارڈ کو درست رکھنے کے لیے بل دیگر اشیا کا بنتا تھا، حتیٰ کہ وائس چانسلر کے ڈیفنس فیز 6 لاہور کے گھر کے اخراجات اور گھریلو سامان بھی ایمرسن یونیورسٹی کھاتے ہی سے پورا کیا جاتا تھا اور اس قسم کی تمام تر سہولت کاری رجسٹرار ڈاکٹر فاروق اور خزانچی کے ذمہ تھی جو خود بھی بری طرح کرپشن میں ملوث ہیں۔ ایمرسن یونیورسٹی ملتان کے ایک ملازم نے روزنامہ قوم کو بہت سا ریکارڈ فراہم کیا ہے جو آئندہ ڈاکٹر رمضان کے خلاف مقدمات میں مضبوط ثبوتوں کے طور پر سامنے لایا جائے گا۔ مذکورہ ذرائع نے بتایا کہ سابق وائس چانسلر کےلاہور والے گھر میں اہلیہ اور بچوں کے زیر استعمال گاڑیوں کے فیول حتیٰ کہ مرمت بھی یونیورسٹی کے کھاتے ہی سے ہوتی تھی اور دو کروڑ رشوت دے کر وائس چانسلر کا عہدہ حاصل کرنے والے نے پھر کرپشن کی جو داستانیں رقم کی ان کی تفصیلات بتدریج سامنے آ رہی ہیں۔

ایمرسن : خاتون ٹیچرکی 2پروفیسرزکیخلاف ہراسمنٹ درخواست، انکوائری شروع

ملتان (وقائع نگار) ایمرسن یونیورسٹی کی خاتون ٹیچر کی جانب سے دی جانے والی ہراسمنٹ کی درخواست پر انکوائری آفیسرز نے درخواست دہندہ اور الزام علیہ کے بیانات قلمبند کئے۔ خاتون ٹیچر کو ہراساں کرنے والے ٹیچر زنے اپنے بچاؤ کے لیے سیاسی سفارشیں کروانی شروع کر دی۔ اس ضمن میں معلوم ہوا ہے کہ ایمرسن یونیورسٹی میں ایک افسوسناک واقعے نے تعلیمی ادارے کی انتظامیہ پر سنگین سوالات اٹھا دیے ہیں۔ اسلامیات کی ایک خاتون ٹیچر نے یونیورسٹی کے دو پروفیسروں، پروفیسر فرمان اور پروفیسر سعید ناصر پر ہراسانی کا الزام عائد کیا ہے۔ یہ دونوں پروفیسرز مبینہ طور پرسابق وائس چانسلر ڈاکٹر محمد رمضان اور غیر قانونی طور پر تعینات ہونے والے رجسٹرار محمد فاروق کے چہیتے ہیں۔ متاثرہ ٹیچر نے جب انتظامیہ کو شکایت درج کروائی تو اس کے خلاف الٹا کارروائی کی گئی اور اسے اسلامیات ڈیپارٹمنٹ کی سربراہی کے عہدے سے ہٹا دیا گیا۔ اس اقدام نے یونیورسٹی کی انتظامیہ کی غیر جانبداری پر سوالات کھڑے کر دیے ہیں۔متاثرہ ٹیچر نے اس ناانصافی کے خلاف سیکرٹری ہائر ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ پنجاب کو درخواست دی، جس پر محکمے نے فوری طور پر انکوائری کا حکم جاری کیا۔ گزشتہ لاہور میں انکوائری کمیٹی نے سماعت کی۔ کمیٹی کی سربراہی ایڈیشنل سیکرٹری پلاننگ نے کی جبکہ دیگر اراکین میں ڈپٹی سیکرٹری یونیورسٹیز سیکنڈ اور ڈپٹی سیکرٹری یونیورسٹیز تھرڈ شامل تھے۔ایمرسن یونیورسٹی کی جانب سے ڈاکٹر محمد ریحان نے نمائندگی کی۔ ملزمان پروفیسر سعید ناصر اور پروفیسر فرمان کے علاوہ وزٹنگ پروفیسر رخشندہ، ٹیچر طیبہ رزاق اور ماریہ ڈوگر بھی پیش ہوئیں۔ ذرائع کے مطابق پروفیسر سعید ناصر نے اپنے علاقے کے ایم پی اے لال محمد جوئیہ سے سفارش کروائی جنہوں نے انکوائری کمیٹی کے کنوینر کو فون کر کے ملزم کی حمایت کی۔ یہ اقدام انکوائری کی شفافیت پر شکوک و شبہات پیدا کر رہا ہے۔معلومات کے مطابق، غیر قانونی رجسٹرار محمد فاروق اس ہراسانی کے معاملے میں بل واسطہ اور بلا واسطہ ملوث ہیں، جو یونیورسٹی کی اعلیٰ انتظامیہ کی اخلاقیات پر مزید سوالات اٹھاتا ہے۔انکوائری کا نتیجہ ابھی سامنے نہیں آیا لیکن اس معاملے نے تعلیمی اداروں میں ہراسانی کی روک تھام اور انصاف کی فراہمی کے حوالے سے سنگین خدشات کو جنم دیا ہے۔ متاثرہ ٹیچر اور دیگر اسٹیک ہولڈرز کی جانب سے انکوائری کو شفاف اور غیر جانبدار بنانے کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔

شیئر کریں

:مزید خبریں