آج کی تاریخ

ڈاکٹر رمضان ایمرسن یونیورسٹی میں برادری ازم کو فروغ ،ادارہ کو گجر کھڈہ بنانے پر تل گئے

ڈاکٹر رمضان ایمرسن یونیورسٹی میں برادری ازم کو فروغ ،ادارہ کو گجر کھڈہ بنانے پر تل گئے

ملتان( سٹاف رپورٹر) زندگی کی 68بہاریں دیکھ کرپیرانہ سالی میں کرپشن کی حیران کن داستانیں بنانے اور ملتان کے تاریخی تعلیمی ادارے ایمرسن یونیوسٹی میں اقربا پروری کے ذریعے نالائق نا اہل اور غیر سنجیدہ سٹاف بھرتی کرنے والے ڈاکٹر رمضان کی کرپشن اور رشوت خوری کے نت نئے قصےسامنے آرہے ہیں ۔ موصوف نے ملتان میں پیسٹی سائیڈ کمپنی کے مالک کی منت سماجت کرکے ان سے 50 لاکھ روپیہ یونیورسٹی کے نئے گیٹ کی تنصیب کے مد میں وصول کیا اور دس لاکھ میں گیٹ بنوا کر 40لاکھ ہضم کرلیا ۔ ملتان کے ایک کنٹریکٹر نے بتایا کہ وہ اس سے بہتر گیٹ اور پلر 8لاکھ روپے میں بناکر دے سکتا ہے ۔بتایا گیا ہے کہ ڈاکٹر رمضان جنہیں این جی او کے تجربے کی روشنی میں لوگوں سے فنڈز جمع کرنے اور پھر ان فنڈز میں سے ذاتی فنڈنگ کرنے کا ہنر آتا ہے نےملتان ہی کے ایک صنعتکار سے یونیورسٹی میں رنگ وروغن کراکر جہاںاس کام میں 12لاکھ بچا لیے وہیں پر یونیورسٹی کے اخراجات میں یہی کام دیگر مدات میں ڈال کر رقوم فرضی ٹھیکیدار کے ذریعے وصول کرلی ۔ ظفرشیروانی نامی ایک ریٹائرڈ کالج سیکٹرکے ملازم کو ایک لاکھ 62ہزار روپے پر اپنا کنسلٹنٹ تعینات کرلیا ۔ اسی طرح آفتاب خاکوانی نامی مشکوک ایم فل کی ڈگری کے حامل شخص کو کیمپ آفس کا نگران بنایا گیا ہے اور اپنے ہی سرکاری گھر کو سب کیمپس کا درجہ دے کر اس کے تمام اخراجات یونیورسٹی کے کھاتے میں ڈال دئیے ہیں، صرف چند ماہ کے دوران موصوف نے قیمتی گاڑیاں خریدی ہیں اور لاہور میں ان کی ذاتی گاڑیوں کے پٹرول اور مرمت کی پرچیاں بھی ملتان ہی سے بھجوائی جارہی ہیں، بتایاگیا ہے کہ گریڈ ایک سے گریڈ 16تک کی ملازمتیںبھی رشوت کے عوض دی گئی ہیں کیونکہ اس کا اختیار وائس چانسلر کی صوابدید پر ہوتاہے ۔ ڈاکٹر رمضان جوکہ ہائر ایجوکیشن کمیشن میں ملازمت کرتے رہے ہیں نے ایم پی سی کے آفیسر شفقت عبا سکے عمارنامی بھانجے کو بھی میرٹ کے منافی ملازمت دی ہے اور اپنی صوابدیدپر جو لوئر سٹاف رکھا گیا ہے،وہ اتنا نااہل اور نالائق ہے کہ ان کے لیے ایک درخواست لکھنا بھی مشکل ہے، وائس چانسلر ڈاکٹر رمضان نے کرپشن کی اور باریک واردات میں پرانے اور ناکارہ کمپیوٹرز کی مرمت کرواکر نئی باڈیاں رکھوائیں اور مبینہ طورپر ڈیڑھ لاکھ کی خریداری فی کمپیوٹر ظاہر کرکے یونیورسٹی کو لاکھوں روپے کا نقصان پہنچایا ۔ اسی طرح مدثر اسلم نامی ایک شخص کو مبینہ طورپر 50لاکھ رشوت کے عوض اسسٹنٹ انجینئر تعینات کیا اس تمام تر بھرتی شدہ افراد کو سرے سے کام کرنے کا کوئی تجربہ ہی نہیں اور نہ وہ انگریزی لکھ سکتے ہیں اور نہ ہی کسی فائل پر نوٹ لکھ سکتے ہیں ایمرسن یونیورسٹی کے ایک سینئر فیکلٹی ممبر نے تصدیق کی کہ ایمرسن یونیورسٹی کو برادری ازم کو فروغ دیتے ہوئے تعلیمی ادارے کی بجائے ’’ گجر کھڈہ ‘‘ بنایا جارہاہے ۔

شیئر کریں

:مزید خبریں