ملتان (سٹاف رپورٹر) زکریا یونیورسٹی کے شعبہ فاریسٹری میں طلاق دینے کے بعد 15 ماہ تک اپنی دوسری اہلیہ کو جنسی ہوس کا نشانہ بنانے والے پروفیسر ڈاکٹر احسان قادر بھابھہ بارے مزید انکشاف ہوا ہے کہ جنوبی پنجاب پولیس میں تعینات ایک آفیسر جو کہ فیصل آباد یونیورسٹی کے پڑھے ہوئے ہیں وہ ڈاکٹر احسان کے بیچ میٹ اور کلاس فیلو ہونے کے علاوہ روم میٹ بھی رہے ہیں، شروع دن سے ہی اس کیس پر اثر انداز ہو رہے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ ڈاکٹر شازیہ افضل نے آئی جی پنجاب کو تفتیش تبدیلی کی درخواست دائر کر دی ہے اور یہ کہا ہے کہ یہ تفتیش جنوبی پنجاب سے ہٹ کر کسی اور ڈویژن یا رینج میں شفٹ کی جائے تاکہ انصاف کے تقاضے پورے ہو سکیں۔ ڈاکٹر شازیہ کے قریبی ذرائع نے بتایا کہ انہوں نے پولیس کو بینک ٹرانزیکشن کی فہرست بھی فراہم کی ہے جو تقریباًہر بار ڈاکٹر شازیہ اپنی تنخواہ میں سے 20 سے 25 ہزار روپیہ ڈاکٹر احسان بھابھہ کے اکاؤنٹ میں ٹرانسفر کیا کرتی تھی اور ایک مرتبہ انہوں نے یکمشت ایک لاکھ روپیہ بھی اپنی تنخواہ میں سے دیا جو کہ ریکارڈ پر ہے۔ اس ریکارڈ کے مطابق آخری مرتبہ 7 ہزار روپیہ ستمبر کے وسط میں ڈاکٹر بھابھہ کے بینک اکاؤنٹ میں ٹرانسفر کیا گیا۔ ڈاکٹر شازیہ افضل کے قریبی ذرائع نے روزنامہ قوم کو بتایا کہ وائس چانسلر زکریا یونیورسٹی ڈاکٹر زبیر اقبال غوری نے فوری طور پر ہراسمنٹ کمیٹی کو کیس دے کر ڈاکٹر احسان کو معطل کر دیا تھا۔ اب ایک دینی سیاسی جماعت کے لوگ ملزم کو بحال کرانے کی سر توڑ کوشش کر رہے ہیں جو کہ قانونی طور پر ابھی ملزم ہیں اور ان کی صرف ضمانت ہوئی ہے جبکہ انہیں بریت نہیں ملی۔ ڈاکٹر شازیہ کے قریبی ذرائع نے بتایا کہ مذکورہ پولیس آفیسر جو کہ فیصل آباد کی یونیورسٹی میں ڈاکٹر احسان قادر کے کلاس فیلو تھے نے تھانہ ڈی ایچ اے کے عملے پر دباؤ ڈالے رکھا اور تفتیش پر مسلسل اثر انداز ہوتے رہے، یہی وجہ تھی کہ آٹھ گھنٹے تک پولیس نے ڈاکٹرشازیہ کو بٹھائے رکھا اور جب پولیس کی مرضی کی ٹیم میڈیکو لیگل میں ڈیوٹی پر آئی تو وہ انہیں میڈیکل رپورٹ کے لیے لے کر گئے۔ بتایا گیا ہے کہ ڈاکٹر شازیہ کی فیملی نے فیصلہ کیا ہے کہ وہ اس کیس کو ہر فورم پر لڑیں گے اور ڈاکٹر احسان قادر کو ہر ممکن سزا دلوائیں گے۔
