بیجنگ: امریکا طویل عرصے تک دنیا کی واحد قوت تھی جو جدید اسٹیلتھ ٹیکنالوجی سے لیس لڑاکا طیارے اپنی بحری افواج میں استعمال کرتی رہی، لیکن اب چین نے بھی اپنا پہلا نیوی اسٹیلتھ فائٹر J-35 باضابطہ طور پر بحری بیڑے کا حصہ بنا لیا ہے، جو امریکی بحری اجارہ داری کو کھلا چیلنج دیتا ہے۔
چینی پیپلز لبریشن آرمی نیوی (PLAN) نے J-35 لڑاکا طیارے کے دو یونٹس حاصل کر لیے ہیں، جو خصوصی طور پر طیارہ بردار بحری جہازوں پر آپریشن کے لیے تیار کیے گئے ہیں۔ چینی سوشل میڈیا پلیٹ فارم ویبو پر شیئر کی گئی تصاویر میں ان طیاروں کو پرواز کرتے دیکھا جا سکتا ہے جن پر نمبر 0011 اور 0012 درج ہیں۔
یہ نئے J-35 طیارے پہلے سے موجود J-15B کے ہمراہ فضاء میں دیکھے گئے، اور ان پر موجود شارک اسٹائل مارکنگز اس بات کا ثبوت ہیں کہ یہ اب چینی نیوی کے باقاعدہ حصے بن چکے ہیں۔
رپورٹس کے مطابق چین نے صوبہ شینبی میں ایک وسیع تنصیب قائم کی ہے جو ہر سال 100 J-35 طیارے تیار کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ اقدام چین کی اس تیاری کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ وہ مستقبل قریب میں امریکی بحری طاقت کا براہِ راست مقابلہ کرنے کے لیے مکمل طور پر سنجیدہ ہے۔
فی الحال امریکا کے پاس 11 ایٹمی توانائی سے چلنے والے ایئرکرافٹ کیریئرز موجود ہیں، جبکہ چین دو فعال کیریئرز – لیاؤننگ اور شینڈونگ – رکھتا ہے، اور تیسرا کیریئر “فوجیان” تجرباتی مراحل میں ہے۔ اس کے علاوہ چین چوتھے جوہری توانائی سے چلنے والے طیارہ بردار جہاز “ٹائپ 004” پر بھی کام کر رہا ہے۔
And even closer both PLAN Naval Aviation J-35. pic.twitter.com/l0JtBDyT0h
— @Rupprecht_A (@RupprechtDeino) July 20, 2025
جون 2025 میں چین نے اپنے دو ایئرکرافٹ کیریئرز کو بحرالکاہل میں پہلی بار مشترکہ جنگی مشقوں کے لیے تعینات کیا، جسے دفاعی تجزیہ کاروں نے امریکا کے لیے ایک “سخت اور واضح پیغام” قرار دیا ہے۔
دوسری جانب امریکا کا F-35C فائٹر جیٹ پہلے ہی متعدد طیارہ بردار جہازوں پر تعینات ہے، جن میں یو ایس ایس ابراہم لنکن بھی شامل ہے، جس نے نومبر 2024 میں یمن میں حوثی باغیوں کے خلاف اپنی پہلی جنگی کارروائی انجام دی تھی۔