آج کی تاریخ

سخی سرور کی تاریخ کا سب سے بڑا لینڈ سکینڈل، اوقاف کی 2 لاکھ 56 ہزار کنال اراضی فروخت-سخی سرور کی تاریخ کا سب سے بڑا لینڈ سکینڈل، اوقاف کی 2 لاکھ 56 ہزار کنال اراضی فروخت-بہاولپور: کارپوریشن ملی بھگت، فلڈ ایریا سمیت مختلف علاقوں میں غیر قانونی ٹاؤنز کی سنچری-بہاولپور: کارپوریشن ملی بھگت، فلڈ ایریا سمیت مختلف علاقوں میں غیر قانونی ٹاؤنز کی سنچری-گندم بحران شدت اختیار کر گیا، کاشتکار برباد، ذخیرہ اندوز آزاد، چھوٹے سٹاکسٹس کی پسائی-گندم بحران شدت اختیار کر گیا، کاشتکار برباد، ذخیرہ اندوز آزاد، چھوٹے سٹاکسٹس کی پسائی-کبیر والا: 25 کروڑ کی گندم سیلاب میں بہنے کا ڈرامہ، 4 شہروں میں تاجروں کو فروخت-کبیر والا: 25 کروڑ کی گندم سیلاب میں بہنے کا ڈرامہ، 4 شہروں میں تاجروں کو فروخت-انسپکٹر طرخ گینگ کی معافیاں و دھمکیاں ساتھ ساتھ، ٹاؤٹ محمد اللہ خان کا تاجر کو سپاری کا پیغام-انسپکٹر طرخ گینگ کی معافیاں و دھمکیاں ساتھ ساتھ، ٹاؤٹ محمد اللہ خان کا تاجر کو سپاری کا پیغام

تازہ ترین

چولستان: 5 ہزار سال قدیم شہر گنویری والا کی تلاش بند، حکومت نے ایک روپیہ فنڈ نہ دیا

ملتان( قوم نیوز)صحرائے چولستان میں واقع پانچ ہزار سال پرانے گمشدہ شہر گنویری والا کی کھدائی اور تحقیق کا کام فنڈز نہ ملنے کے باعث کئی ماہ سے بند پڑا ہے۔ماہرین آثار قدیمہ کا کہنا ہے کہ حکومتی عدم تعاون کے باعث وادی سندھ کی تہذیب سے جڑے اس اہم مقام کو عالمی سطح پر روشناس کروانے کا موقع ضائع ہورہا ہے۔گنویری والا کا سراغ سب سے پہلے 1975 میں معروف ماہر آثار قدیمہ ڈاکٹر محمد رفیق مغل نے لگایا تھا۔ ماہرین کے مطابق یہ مقام وادی سندھ کے قدیم شہروں ہڑپہ اور موہنجوداڑو کے بعد تیسرا بڑا شہری مرکز تھاجو قلعہ دراوڑ سے تقریباً 60 کلومیٹر جنوب مغرب میں واقع ہے۔پنجاب کے مختلف اداروں سے تعلق رکھنے والے سابق ڈائریکٹرز اور ماہرین پر مشتمل ٹیم نے 24 فروری 2024 کو کھدائی کا آغاز کیا۔منصوبے کی سربراہی تھاپ کی چیئرپرسن ساجدہ حیدر ونڈل کر رہی تھیں۔ ان کا کہنا ہے کہ شدید گرمی اور صحرائی ماحول کے باوجود ٹیم نے محنت سے کام کیا اور پاکستان کے ممتاز ماہرین بشمول ڈاکٹر رفیق مغل کو اس قومی منصوبے کا حصہ بنایا۔کھدائی کے دوران مختلف مقامات سے برتن، اینٹوں کی دیواریں، مٹی کے مجسمے، تانبے کی مہریں اور دیگر نوادرات برآمد ہوئے۔ ڈاکٹر مغل کے مطابق یہ آثار وادی سندھ کی تہذیب سے مماثلت رکھتے ہیں اور ان سے گنویری والا کی قدامت اور اہمیت کی تصدیق ہوتی ہے۔سابق ڈائریکٹر آثار قدیمہ افضل خان نے بتایا کہ کھدائی کے لیے 60 سے زائد مزدوروں کی خدمات لی گئیں، خیمہ بستی قائم کی گئی اور 6 مقامات پر کھدائی کی گئی۔ تاہم مارچ کے آخر میں گرمی کی شدت بڑھنے اور لیبر کی روانگی کے بعد کام سست پڑگیا۔ اس دوران ٹیم نے کمشنر بہاولپور آفس کو تفصیلی اخراجات جمع کروائے لیکن مبینہ اعتراضات کی بنیاد پر فنڈز روک دیے گئے۔ساجدہ ونڈل کے مطابق حکومت نے منصوبے کے لیے دو کروڑ روپے منظور کیے تھے جو کمشنر بہاولپور کے ذریعے جاری ہونے تھے، مگر ٹیم کو اب تک ایک روپیہ بھی موصول نہیں ہوا۔ ان کا کہنا ہے کہ کھدائی کا دوسرا مرحلہ اکتوبر 2024 میں شروع ہونا تھا لیکن فنڈز کی عدم دستیابی کے باعث وہ بھی ممکن نہ ہو سکا۔افضل خان نے بتایا کہ 30 جون 2024 کو سرکاری مالی سال کے اختتام پر فنڈز واپس سرنڈر ہوگئے۔ انہوں نے کہا کہ اب دنیا بھر سے ماہرین دریافتوں کی تفصیلات پوچھتے ہیں، مگر ہمارے پاس جواب نہیں۔پنجاب آرکیالوجی کے سابق ڈائریکٹر محمد حسن نے اس مقام کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ چولستان میں موجود تقریباً 500 آثار قدیمہ کی سائٹس میں گنویری والا سب سے نمایاں ہے۔ یہ علاقہ دریائے ہاکڑہ کے کنارے آباد تھاجہاں کے باسی کھیتی باڑی اور مویشی پالنے سے وابستہ تھے۔دوسری جانب کمشنر بہاولپور مسرت جبین نے اس بات کی تصدیق کی کہ ٹیم کو فنڈز جاری نہیں کیے گئے۔ ان کا مؤقف ہے کہ معاہدے کے مطابق نوادرات کا بین الاقوامی سطح پر تجزیہ کروا کر انہیں بہاولپور میوزیم کے حوالے کرنا تھا مگر ٹیم نے یہ نوادرات لاہور منتقل کر دیئے اور تاحال کسی عالمی لیبارٹری کی رپورٹ بھی پیش نہیں کی گئی۔ماہرین کا کہنا ہے کہ بین الاقوامی معیار کی تحقیق کے لیے حکومت کو رکاوٹیں نہیں بلکہ سہولتیں پیدا کرنی چاہئیںتاکہ پاکستان کا قیمتی ثقافتی ورثہ محفوظ اور دنیا کے سامنے آسکے۔

شیئر کریں

:مزید خبریں