بہاولپور (کرائم سیل) ایم ڈی چولستان سید طارق بخاری کو دھوکے میں رکھ کر نچلا عملہ سی ڈی اے کی مختلف سکیموں جن میں شاہی مزارعہ سکیم، اوکاڑہ متاثرین اور شکارگاہ کے سرکاری رقبے شامل ہیں، کو ملک کے دیگر صوبوں اور علاقوں کے رہائشیوں سمیت اوورسیز پاکستانیوں کو الاٹمنٹ کا جھانسہ دے کر بڑی بڑی رقوم اینٹھنے والا سب سے منظم گروہ بن چکا ہے جس میں گرداور و پٹواریوں سمیت پرائیویٹ افراد بھی شامل ہیں، یہ گروہ اس وقت بہت سرگرم ہے اور اس گروہ کوچولستان ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے مختلف برانچوں کے انچارج افسران کے ریڈرز اور ایم ڈی کے پی اے کی مبینہ آشیرواد صرف اس وجہ سے حاصل ہے کہ یہ تمام افراد اس گروہ سے کام کے حساب سے طے شدہ حصہ وصول کرتے ہیں اور انہیں تحفظ فراہم کرتے ہیں۔ اس تمام تر جعلسازی میں یہ تمام ان کے ساتھ شانہ بشانہ رہتے ہیں۔ سی ڈی اے کی سربراہی طارق گرداور کرتا ہےجبکہ اس میں اضرار پٹواری، محبوب پٹواری، ریٹائرڈ پٹواری اشفاق و دیگر شامل ہیں۔ یہ گروپ ملتان کے رہائشی افراد ملک انور، محمد سعید، محمد عمران و دیگر کے ساتھ مل کر جو ریونیو افسران کے قریبی دوست اور رشتہ دار ظاہر کیے جاتے ہیں، مختلف سکیموں کی آڑ میں دور دراز کے رہائشیوں کو کئی کئی مربع رقبہ الاٹ کروانے کا جھانسہ دیتے ہیں اور متاثرین کو جعلی فردات، جعلی انتقالات اور دیگر جعلی کاغذات بنا کر دیے جاتے ہیں جن کی تصدیق بھی یہ خود ہی کرتے ہیں۔حیران کن امر یہ ہے کہ یہ سارا عمل سی ڈی اے کے دفاتر میں ایم ڈی کی ناک کے نیچے زور و شور سے جاری ہے۔ یہ گروہ جعلی کاغذات کی بنیاد پر عدالت سے فرضی وارنٹ قبضہ حاصل کرتا ہے، اس کے بعد پولیس سے ڈیل کرکے متاثرین کو ساتھ لے جا کر پولیس کی مدد سے قبضہ دلوایا جاتا ہے۔ یہ اس فراڈ کے ڈرامے کا آخری سین ہوتا ہے جس کے بعد یہ افراد بقیہ رقم وصول کرکے سرکاری رقبے کا فرضی قبضہ متاثرین کو دے دیتے ہیں اور پھر اگلے شکار کی طرف رخ کر لیتے ہیں۔ متاثرین کو جب پتہ چلتا ہے کہ یہ رقبہ سرکاری ہے تو اس وقت تک بہت دیر ہو چکی ہوتی ہے۔ اس سارے فراڈ میں سی ڈی اے کے افسران برابر کے شریک ہوتے ہیں یہی وجہ ہے کہ اس گروہ کے فراڈ بے نقاب ہونے اور متاثرین کی جانب سے مختلف فورمز پر دی جانے والی درخواستوں کے باوجود ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہوتی۔ یہ تمام حقائق کھچی والا کے رہائشی مقصود احمد نے روزنامہ قوم کو بتائے۔ ان کے مطابق اضرار پٹواری، محبوب پٹواری، اشفاق اور طارق گرداور نے پرائیویٹ افراد کے ساتھ مل کر اس سے اور اس کے عزیز مقصود احمد سے شاہی مزارعہ سکیم میں رقبے کی الاٹمنٹ کے نام پر ڈھائی کروڑ روپے کی خطیر رقم وصول کی، جعلی کاغذات تیار کرکے دیے اور قبضہ بھی دلوایا جو بعد میں سرکاری رقبہ ثابت ہوا۔ یہ تمام معاملات اس وقت اینٹی کرپشن میں زیرِ سماعت ہیں۔یاد رہے کہ ایم ڈی چولستان کی سربراہی میں چلنے والے ادارے پر پہلے بھی ملازمین کو تنخواہیں نہ دینے، گاڑیوں کے پٹرول اور مینٹیننس بل کی آڑ میں کرپشن، اور چولستان میں سرکاری رقبے غیر چولستانیوں کو الاٹ کرنے جیسے سنگین الزامات لگتے رہے ہیں، مگر درجنوں فراڈوں میں ملوث عملے کے خلاف آج تک کوئی کارروائی نہیں ہوئی۔ موقف لینے پر ترجمان سی ڈی اے کا کہنا ہے کہ تمام تر سکیموں کے کیس عدالتوں میں زیرِ سماعت ہیں اور شہریوں سے بارہا اپیل کی گئی ہے کہ رقبے کی الاٹمنٹ کا جھانسہ دے کر کسی کو پیسے نہ دیں۔
