آج کی تاریخ

میرا قائد عمران خان فوجی آپریشن کیخلاف تھا، ہم بھی اس کے خلاف ہیں،نو منتخب وزیر اعلیٰ خیبرپختونخوا محمد سہیل آفریدی-میرا قائد عمران خان فوجی آپریشن کیخلاف تھا، ہم بھی اس کے خلاف ہیں،نو منتخب وزیر اعلیٰ خیبرپختونخوا محمد سہیل آفریدی-ایران کا غزہ امن کانفرنس میں شرکت سے انکار، "اپنے عوام پر حملہ کرنے والوں کے ساتھ نہیں بیٹھ سکتے"، ایرانی وزیرِ خارجہ-ایران کا غزہ امن کانفرنس میں شرکت سے انکار، "اپنے عوام پر حملہ کرنے والوں کے ساتھ نہیں بیٹھ سکتے"، ایرانی وزیرِ خارجہ-سپر ٹیکس کیس کی سماعت میں ججز اور وکلا کے درمیان دلچسپ تبادلہ خیال-سپر ٹیکس کیس کی سماعت میں ججز اور وکلا کے درمیان دلچسپ تبادلہ خیال-پاکستان اسٹاک ایکسچینج میں شدید مندی، کے ایس ای-100 انڈیکس 4 ہزار پوائنٹس گر گیا-پاکستان اسٹاک ایکسچینج میں شدید مندی، کے ایس ای-100 انڈیکس 4 ہزار پوائنٹس گر گیا-نیتن یاہو کی ہٹ دھرمی: غزہ میں دوبارہ فوجی کارروائی کا اشارہ-نیتن یاہو کی ہٹ دھرمی: غزہ میں دوبارہ فوجی کارروائی کا اشارہ

تازہ ترین

پولیو کے نئے کیسز ریاستی عزم پر سوالیہ نشان

پاکستان میں پولیو کے چند نئے کیسز رپورٹ ہونا صرف ایک طبی خبر نہیں بلکہ یہ پورے نظامِ صحت، ریاستی عزم اور سماجی رویوں پر سوالیہ نشان ہے۔ دنیا کے بیشتر ممالک نے اس موذی مرض کو تاریخ کا حصہ بنا دیا، لیکن پاکستان آج بھی ان چند ریاستوں میں شامل ہے جہاں پولیو وائرس زندہ ہے اور بچوں کو عمر بھر کی معذوری میں دھکیل رہا ہے۔ یہ المیہ صرف بیماری کی شکل میں نہیں بلکہ ہماری اجتماعی ناکامی کے طور پر سامنے آتا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ برسوں سے جاری انسدادِ پولیو مہمات کے باوجود ہم ہر بچے تک ویکسین پہنچانے میں کامیاب نہیں ہوئے۔ کبھی ضلعی انتظامیہ کی نااہلی، کبھی سیاسی سطح پر بے عملی اور کبھی فنڈز کے ضیاع نے مہم کو کمزور کیا۔ محض بیانات اور اخباری دعووں سے بیماری ختم نہیں ہوتی، عملی اقدامات ضروری ہیں۔ بدقسمتی سے یہ پروگرام زیادہ تر بیرونی امداد پر انحصار کرتا رہا، جس سے عوام میں یہ تاثر پختہ ہوا کہ پولیو مہم کوئی “غیر ملکی ایجنڈا” ہے۔ اسی سوچ نے ویکسینیٹرز پر حملوں، ان کے قتل اور عوامی مزاحمت کو جنم دیا۔
پولیو کے خاتمے کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ عوامی بداعتمادی ہے۔ جب تک حکومت اس مہم کو مقامی سطح پر اپنی ملکیت نہیں بناتی اور صحت کے دیگر نظام کے ساتھ جوڑتی نہیں، یہ شک و شبہ باقی رہیں گے۔ والدین کو یہ یقین دلانا ضروری ہے کہ ویکسین ان کے بچوں کے تحفظ کے لیے ہے، نہ کہ کسی بیرونی مفاد کے لیے۔ اس مقصد کے لیے صرف سیکیورٹی فراہم کرنا کافی نہیں، بلکہ برادریوں کے ساتھ مکالمہ، مقامی علماء اور معتبر شخصیات کو اعتماد میں لینا بھی لازمی ہے۔
یہ بھی حقیقت ہے کہ ہمارے شہروں اور دیہات میں بنیادی صحت کا ڈھانچہ انتہائی کمزور ہے۔ جب اسپتالوں میں عام بیماریوں کا علاج نہیں ملتا اور پینے کے صاف پانی جیسی بنیادی سہولت میسر نہیں، تو لوگ انسدادِ پولیو مہم پر کیسے اعتماد کریں گے؟ پولیو کو عام ویکسینیشن اور پرائمری ہیلتھ کیئر کا حصہ بنانا ہوگا تاکہ یہ کسی خصوصی مہم کا بوجھ نہ لگے بلکہ معمول کی صحت کا حصہ بن جائے۔
ریاستی سطح پر سب سے بڑی کمی جوابدہی کے نظام میں ہے۔ ہر بار ناکامی کے باوجود کوئی ذمہ دار سامنے نہیں آتا۔ اگر کسی ضلع میں ویکسینیشن کی کوریج کم ہے یا کیسز رپورٹ ہوتے ہیں تو صرف رپورٹیں بنا کر اوپر بھیج دینا کافی نہیں۔ ذمہ داران کو جواب دہ بنانا اور عملی نتائج کی بنیاد پر ان کی کارکردگی جانچنا ہوگی۔
پاکستان کے لیے یہ لمحہِ فکریہ ہے۔ دنیا اربوں ڈالر اور دہائیوں کی محنت لگا چکی ہے، لیکن وائرس اب بھی ہمارے ملک میں زندہ ہے۔ اگر ہم نے اپنی پرانی روش نہ بدلی تو پولیو ہمارے بچوں کی زندگیوں پر سیاہ دھبہ بنا رہے گا۔ یہ جنگ صرف بیرونی امداد سے نہیں جیتی جا سکتی، اس کے لیے قومی عزم، سیاسی سنجیدگی اور سماجی شعور درکار ہے۔
انہی دنوں میں انسدادِ پولیو پر نظر رکھنے والے عالمی ادارے انڈیپنڈنٹ مانیٹرنگ بورڈ (IMB) نے اپنی تازہ رپورٹ دی گلاس ماؤنٹین” جاری کی ہے جس میں نہایت سخت اور فکر انگیز تبصرے کیے گئے ہیں۔
رپورٹ کا کہنا ہے کہ پاکستان نے 2021 سے 2023 کے درمیان یہ تاثر دیا کہ پولیو وائرس کی منتقلی رک چکی ہے، لیکن حقیقت یہ تھی کہ یہ خاموشی زیادہ تر کورونا وبا کے دوران لگے لاک ڈاؤن کا نتیجہ تھی۔ چونکہ لوگوں کی نقل و حرکت محدود ہو گئی تھی، اس لیے وائرس کا پھیلاؤ وقتی طور پر کم ہوا۔ جیسے ہی حالات معمول پر آئے، وائرس نے دوبارہ سر اٹھایا اور نئے کیسز سامنے آنے لگے۔ اس تجزیے نے پاکستان کے انسدادِ پولیو پروگرام کی کارکردگی پر ایک بڑا سوالیہ نشان لگا دیا ہے۔
آئی ایم بی کی رپورٹ یہ بھی واضح کرتی ہے کہ ہمارے ملک میں ویکسینیشن مہم کو محض کاغذی منصوبہ بندی اور اعدادوشمار کی حد تک کامیاب دکھایا گیا، جبکہ اصل چیلنج ہر بچے تک ویکسین پہنچانے کا تھا جو آج بھی حل نہیں ہو سکا۔ رپورٹ کے مطابق، پاکستان میں اکثر ضلعی سطح کے مینیجر اور افسران کارکردگی دکھانے کے بجائے بہانے تراشتے ہیں۔ سیاسی قیادت بھی بارہا صرف تقریروں اور بیانات تک محدود رہی، عملی طور پر وسائل اور سخت فیصلے کرنے سے گریز کیا گیا۔
آئی ایم بی نے اس تاثر کو بھی تسلیم کیا ہے کہ پاکستان میں انسدادِ پولیو مہم کو عوام اکثر ایک “غیر ملکی ایجنڈا” سمجھتے ہیں۔ بیرونی فنڈنگ اور بین الاقوامی دباؤ نے اس پروگرام کو عوامی ملکیت بننے سے روکے رکھا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بعض علاقوں میں عوامی ردعمل سخت ہوتا ہے، ویکسینیشن ٹیموں پر حملے ہوتے ہیں اور کئی مرتبہ قیمتی جانیں ضائع ہو جاتی ہیں۔ رپورٹ میں اس مسئلے کے حل کے لیے یہ تجویز بھی دی گئی ہے کہ مہم کو عالمی سطح پر جنیوا کے دفاتر کے بجائے ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے مشرقی بحیرہ روم ریجنل آفس کے ذریعے چلایا جائے تاکہ یہ تاثر کم کیا جا سکے کہ یہ پروگرام مغربی طاقتوں کا مسلط کردہ منصوبہ ہے۔
یہ تجاویز اپنی جگہ اہم ہیں لیکن اصل حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کو خود اپنے انسدادِ پولیو پروگرام کو مکمل طور پر اپنا” بنانا ہوگا۔ جب تک یہ مہم عوامی صحت کے وسیع تر نظام کا حصہ نہیں بنے گی اور اس میں مقامی حکومتوں، برادریوں، علما اور سول سوسائٹی کی شمولیت یقینی نہیں بنائی جائے گی، اس وقت تک نتائج پائیدار نہیں ہو سکیں گے۔
رپورٹ نے ایک اور نہایت تشویش ناک پہلو اجاگر کیا ہے: ہمارے ہاں پولیو وائرس ماحولیاتی نمونوں میں زیادہ کثرت سے پایا جا رہا ہے جبکہ انسانی کیسز کم رپورٹ ہوتے ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ وائرس خاموشی” کے ساتھ کمیونٹی میں گردش کر رہا ہے اور ہر وقت خطرہ موجود ہے کہ یہ اچانک بڑے پیمانے پر کیسز کی صورت میں سامنے آسکتا ہے۔ یہ خطرہ اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ نگرانی کا نظام مزید مؤثر بنایا جائے اور محض رپورٹنگ پر اکتفا نہ کیا جائے۔
پاکستان کے لیے یہ صورتحال ایک قومی امتحان ہے۔ دنیا نے گزشتہ 37 برسوں میں پولیو کے خاتمے کے لیے 22 ارب ڈالر سے زیادہ خرچ کیے ہیں، لیکن پاکستان اور افغانستان جیسے چند ممالک اب بھی اس وائرس کا گڑھ ہیں۔ اگر ہم اس موقع پر بھی ناکام رہے تو یہ صرف صحت کے شعبے کی ناکامی نہیں ہوگی بلکہ ہماری ریاستی صلاحیت پر بھی عالمی سطح پر سوال اٹھے گا۔
اصل چیلنج اب یہی ہے کہ پاکستان اس “گلاس ماؤنٹین” کو کیسے سر کرتا ہے۔ کیا ہم پرانی روش پر چلتے رہیں گے، جہاں چند ماہ کی بہتری کے بعد دوبارہ کیسز بڑھ جاتے ہیں، یا ہم اپنی پالیسیوں کو حقیقتاً بدلنے کے لیے تیار ہیں؟ یہ جنگ مزید فنڈز یا عالمی دباؤ سے نہیں جیتی جا سکتی، اس کے لیے مقامی سطح پر سیاسی عزم، عوامی اعتماد اور انتظامی شفافیت لازمی ہیں۔
یہ بات اب بالکل واضح ہے کہ پولیو کے خلاف جنگ میں سب سے بڑی رکاوٹ وائرس نہیں بلکہ ہماری اپنی کمزوریاں ہیں۔ اگر ہم نے انہیں دور نہ کیا تو شاید آنے والی نسلیں ہمیں معاف نہ کریں۔ اب وقت آ گیا ہے کہ پاکستان اپنے عزم، اتحاد اور سنجیدگی سے دنیا کو دکھائے کہ وہ اس پہاڑ کو سر کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ کیا پاکستان اپنے بچوں کو ایک ایسے مستقبل کی ضمانت دے سکتا ہے جہاں پولیو محض تاریخ کی کتابوں میں ایک باب ہو؟ یا پھر ہم اپنی غفلت اور بدنظمی کے باعث اس وائرس کو نسل در نسل اپنے ساتھ گھسیٹتے رہیں گے؟ فیصلہ ہمارے اپنے ہاتھ میں ہے۔

شیئر کریں

:مزید خبریں