ملتان (کرائم سیل) گو کہ سی پی او ملتان محمد صادق ڈوگر نے ایس ایچ او ڈی ایچ اے عباد گیلانی کے خلاف کارروائی کے لیے رپورٹ طلب کر لی ہے کہ ایس ایچ او نے کیوں کر مقامی شہری رئیس خان کے گھر سے تالے توڑ کر قیمتی گاڑی زبردستی اٹھائی مگر دیکھنا یہ ہے کہ کیا اتنی غیر قانونی حرکت اور اتنی سفاکانہ جرات پر ایس ایچ او کے خلاف کوئی قابل مثال کاروائی بھی ہو سکے گی یا نہیں؟ یہ محض ایک سادہ سا کیس نہیں بلکہ پولیس کی کمانڈ اینڈ کنٹرول پر ایک بہت بڑا سوالیہ نشان ہے کہ اگر شہری اپنی چوری شدہ گاڑیاں اور دیگر سامان از خود ڈاکوؤں کو پیسے دے کر واپس لینے لگ جائیں تو پھر پولیس پر خرچ اربوں روپیہ کس کھاتے میں جائے گا؟ اس واقعہ کی تفصیلات کے مطابق رئیس خان نامی ایک شہری کی سٹی ہاؤسنگ سکیم کے سینٹرل پارک سے گاڑی چرا لی جاتی ہے جس کا مقدمہ نمبر 1006/25 تھانہ الپہ میں درج ہو جاتا ہے مگر الپہ پولیس تو مقدمہ درج کرنے کے بعد خاموشی سے بیٹھ گئی البتہ ایف ائی آر سے موبائل نمبر لے کر چوروں نے رئیس خان سے از خود رابطہ کیا اور انہیں بتایا کہ آپ کی گاڑی ہمارے پاس ہے اگر آپ گاڑی واپس لینا چاہتے ہیں تو 20 لاکھ روپیہ دیں جس پر 12 لاکھ میں سودا ہوا تو گارنٹرز کے ذریعے مذکورہ بھتہ دے کر رئیس خان نے اپنی گاڑی واپس لے لی اور اس بارے پولیس کو اگاہ کرنے کے لیے باضابطہ درخواست بھی دے دی کہ انہیں گاڑی واپس مل گئی ہے لہذا مقدمہ خارج کیا جائے۔ رئیس خان کو 03329750754 کے نمبر سے گاڑی کی واپسی اور بھتے کے لیے فون آیا جس سے الپہ پولیس کو بھی اگاہ کر دیا گیا مگر پولیس نے مقدمہ خارج کرنے یا مزید تفتیش کرکے بتھہ خوروں اور کار چوروں کے منظم گروہ کو گرفتار کرکے ان کے خلاف کاروائی کرنے کی بجائے رئیس کے گھر سے تالے توڑ کر گیراج سے وہی گاڑی ایس ایچ او عباد گیلانی کی موجودگی میں سید الرحمن عبدالجبار ڈوگر سمیت 10 سے 12 افراد اور اٹومیٹک گاڑی کی چابیاں بنانے والے ایک کاریگر کے ہمراہ زبردستی سٹارٹ کرکے اپنے ساتھ لے جا کر نامعلوم مقام پر منتقل کر دی گئی اور گاڑی میں ایک لاکھ 55 ہزار روپے اور سام سنگ کا قیمتی سیٹ بھی موجود تھا جو عباد گیلانی ساتھ ہی لے گئے۔ بتایا گیا ہے کہ رئیس خان نے یہ گاڑی قسطوں پر لی تھی جس کی تمام تر قسطیں ادا ہو چکی ہیں اور اس کے کاغذات کلیئر کرانے کا پروسیس چل رہا تھا مگر یہ کارروائی ڈال دی گئی۔ اس تمام کارروائی کی سی سی ٹی وی فوٹیج بھی موجود ہے۔ انتہائی توجہ طلب اور قابل ذکر امر یہ ہے کہ ایک کار چور گروہ گزشتہ کئی سال سے ملتان اور جنوبی پنجاب کے مختلف اضلاع میں سرگرم ہے جو چوری شدہ گاڑیوں کے مالکان سے گاڑی کی چوری کے چند دنوں بعد رابطہ کرتا ہے اور پھر بعض لوگوں کو تو گاڑیاں واپس کر دیتا ہے اور بعض لوگوں سے پیسے لے کر بھی گاڑی واپس نہیں کرتا اور بعض لوگوں سے سال ڈیڑھ سال بعد رابطہ کیا جاتا ہے کہ آپ کی گاڑی چوری ہو چکی ہے تو اس کے کاغذات انہیں فروخت کر دیں۔ اس گروہ کی مکمل رپورٹ پولیس کو ہے مگر اس گروہ کا آج ایک بھی ملزم گرفتار نہیں ہو سکا۔ اسی قسم کی واردات چند سال قبل سٹی ہاسپٹل کے سامنے ایک گاڑی کی چوری کی صورت میں ہو چکی ہے اور چوروں نے ایف ائی ار سے مدعی کا نمبر لے کر اس سے رابطہ کیا اور اج سے چھ سال قبل گاڑی واپس کرنے کی مد میں اس سے چار لاکھ روپیہ مانگا چونکہ وہ گاڑی پرانی تھی اس لیے دو لاکھ روپے پر سودا ہوا اور گاڑی کے مالک نے دو لاکھ روپیہ ان کے بتائے گئے نمبر پر بھی بھجوا دیا مگر انہیں گاڑی واپس نہ مل سکی۔ اس بات کی تمام تر رپورٹ سابق آر پی او ملتان کو مکمل تفصیلات کے ساتھ دی گئی مگر آج تک کسی بھی ملزم کے خلاف کوئی کاروائی نہیں ہوئی۔ ریجنل پولیس افیسر اور سٹی پولیس آفیسر ملتان کو اس صورتحال پر خصوصی توجہ دینی ہو گی اور شہر میں موجود اس تاثر کو ابتدا ہی میں ختم کرنا ہوگا جو کہ تیزی سے پھیل رہا ہے کہ سی سی ڈی کے بننے کے بعد تھانہ پولیس شہریوں کو تنگ کرنے پر اتر آئی ہے اور عام شہریوں پر شکنجہ کس کے اپنے اخراجات چلا رہی ہے۔
